حیدرآباد(نمائندہ جسارت)جمعیت علما پاکستان و ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر نے تحریک حماس کے مرکزی رہنما خالد مشعل کے نام تہنیتی پیغام میں کہا ہے کہ اکتوبر2023 ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے آپ نے جس عظیم جہاد کا آغاز کیا تھا جس میں 15ماہ تک پچاس ہزار کے قریب مجاہدوں نے شہادت کے جام نوش کئے بے شمار لوگ زخمی ہوئے پورا غزہ ملبہ کا ڈھیر بن گیا کہیں سے کوئی امداد نہیں آئی لیکن یہ تمام مصائب مجاہدوں کے عزم اور حوصلہ کو شکست نہیں دے سکے وہ دھشت گرد اسرائیل جو حماس کو ختم کرنے کی اور غزہ کو فتح کرنے کی باتیں کررہا تھا اس کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی حماس سے ان کی شرائط پر مذاکرات کر کے غزہ کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کی قیدیوں کورہاکرنے اور باڈر کھولنے اور جنگ بندکرنے کا معاہدہ کرنا پڑا جو غزہ کے مظلوم عوام کے استقامت اور لازوال قربانیوں کی عظیم فتح ہے جس پر میں اپنی جماعت جمعیت علما پاکستان اور ملک پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے آپ کو اور آپ کے ذریعہ حماس کے مجاہدوں اور غزہ کے مظلوم مگر با ہمت عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں جن کی بے مثال قربانیوں سے یہ فتح کا سورج طلوع ہوااور پوری امت مسلمہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاہدہ کی تکمیل کیلیے اپنا پورا اثرارسوخ استعمال کریں اور جب باڈر کھل جائیں تو تباہ شدہ غزہ کی بحالی اور بے گھر اور بے سروسامان افراد کیلیے ضرویات زندگی کی فراہمی کیلیے بھرپور کوشش کرکے اس جہاد میں عملی حصہ ڈال کر اپنے رب کی رضا حاصل کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی ،آگے کامنظر کیا ہوگا

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ہوگیا اور معاہدہ بھی حماس کی شرائط سے قریب، اسے اسرائیلی حکومت کی شکست کہا جائے یا منصوبہ سازوں کا منصوبہ ، یہ بات اب بھی معمہ ہے کہ اسرائیل حماس کے حملے سے لاعلم تھا یا اب جو رپورٹس آرہی ہیں کہ اسرائیل میں بھی یہ اطلاعات تھیں کہ حماس حملہ کرنے والی ہے، درست ہیں، لیکن بعد میں آنے والی رپورٹس مشتبہ ہی ہوتی ہیں جیسے 9/11کے بارے میں بعد میں ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ کیا یہ اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے سانس لینے کے لیے کیا ہے ؟ اب آگے کیا ہوگا، نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ یا نئی قوت کے ساتھ نیا اتحاد، مسلم حکمران کیا کریں گے اس کے امکانات کیا ہیں ، مثلاً،

( ا) چونکہ فلسطینیوں نے اسرائیل سے معاہدہ کیا ہے اس لیے ہم بھی کریں گے۔
(ب)سعودی عرب اور امارات اسرائیل سے دوستی کا فیصلہ موخر کریں گے ۔
(ج) ترکی اور امارات دعووں اور اعلانات سے آگے بڑھیں گے، یا اسے اپنی کامیابی قرار دے کر اپنے اپنے ملک کے عوام کو دھوکا دیتے رہیں گے۔
(د ) پاکستان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
(ڈ) اور پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑا سوال! کیا اب پی ٹی آئی ٹرمپ کی واہ واہ کرے گی کہ دیکھا اس نے آتے ہی اسرائیلی یرغمالی رہا کرا لیے، اب پاکستان کے قیدی نمبر 804 کی باری ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ کی سفارتکاری کے گن گائے گی۔
(ذ) حماس اور شام کی نئی حکومت کیا کریں گی ؟

ان سوالات کے جوابات میں، فلسطین کا مستقبل پنہاں ہے۔

اور دیکھا جائے تو ہر سوال کے ممکنہ جواب سے نئے سوالات نکلیں گے، تو پھر کیا نتیجہ نکالا جائے، ہمارا خیال ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریکوں کے لیے خاص طور پر یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ اس دور میں کھڑے کس طرف تھے، اب جو صف بندی ہورہی ہے یہ اسی کا آغاز ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت سی روایات میں پتا چلتا ہے، لیکن کسی شخصیت کسی گروہ کسی فرد یا عمل کو وہ نام دیناہمارا کام نہیں ہے جو مختلف جگہ لکھا گیا ہے۔

البتہ یہ سبق سب کے لیے ہے کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں اگر آپ کا ایمان ہے کہ آپ حق پر ہیں تو مزاحمت کریں نتائج آپ کے حق میں ہوں یا خلاف آپ کامیاب ہیں، جس طرح تاریخ میں نتائج کے اعتبار سے ٹیپو سلطان کو شکست خوردہ کہا جاسکتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ کامیاب تھا، کیونکہ اس نے مزاحمت کی اور امر ہوگیا، بالکل اسی طرح یحییٰ سنوار نے آخری لمحے تک مزاحمت کی اور امر ہوگیا، تو آج کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ مزاحمت کرو کہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے، اور حماس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے۔ لہٰذا مزاحمت پر کبھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

اب آتے ہیں ان سوالات کی طرف جن کے جوابات کے سب منتظر ہیں… سب سے پہلے تو یہ سوال ہے کہ اسرائیل نے کیا یہ جنگ بندی محض کسی وقفے کے لیے قبول کی ہے، کیا وہ اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے سانس لینا چاہتا ہے، اور یہ فیصلہ اسرائیل کرے گا کہ کب جنگ ہوگی اور کب امن، لیکن ایسا نہیں ہے اس جنگ کے پیچھے جو قوتیں ہیں فیصلے وہ کرتی ہیں، مگر پھر ٹھیریں!!! کوئی اور قوت بھی ہے جو فیصلے کرتی ہے اور اسی کے فیصلے مبنی بر حق ہوتے ہیں۔

ومکرو ومکر اللہ ،واللہ خیر الماکرین۔

پہلا سوال یہی ہے کہ اسرائیل کا قیام سانس لینے کے لیے عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ اسے ایک خاص مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، لہٰذا اسے قائم کرنے والے اس کا فیصلہ کریں گے کہ سانس لینے کا وقت دیا جائے یا کوئی نیا محاذ کھولا جائے۔البتہ کچھ چیزیں ضرور ایسی ہوں گی کہ ان پر ان دنیاوی فیصلہ سازوں کا بھی اختیار نہیں ہے۔ مثلاً مغربی ممالک کے غیر مسلم حکمرانوں کے ضمیر کی بیداری، جس کے امکانات ستاون مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، اسی طرح مغربی ممالک کے عوام کا بائیکاٹ تمام مسلم ممالک سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں، تین وزیروں کا استعفیٰ اس کی کڑی ہے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان وزیروں کو بھی کہیں سے کنٹرول کیا جاتا ہو اور اسی کے اشارے پر ایسا کیا گیا ہو، یعنی یہ کام صرف پاکستان میں نہیں ہوتا کہ جس مہرے سے جو کام لینا ہو اس سے وہ کام لینے کے بعد اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔ یہ کام دنیا بھر میں ہوتا ہے ، محیرالعقول قسم کے واقعات ظہور میں آتے ہیں، امریکا میں عموماً ایک پارٹی اور ایک صدر دو مدت پوری کرتا ہے لیکن ٹرمپ کی ایک مدت مکمل ہونے کے بعد جو بائیڈن ایک مدت کے لیے لائے گئے اور اب ٹرمپ پھر لائے گئے ہیں، ٹرمپ اور بائیڈن کی باریوں کا ڈراما پاکستان کی سیاسی باریوں جیسا لگ رہا ہے۔

غزہ کی جنگ بندی کے بعد دُنیا کی نظریں اسرائیل پر ہیں لیکن عرب دُنیا کو نظر انداز نہیں کہاجاسکتابلکہ اسرائیل کی طرح وہاں بھی تبدیلیاں ہوں گی، عربوں کو اسرائیل سے تعلقات کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہوگی اگرچہ کوئی عرب حکمران ایسا نہیں نظر آتا جس پر بھروسہ کیا جاسکے کہ اب اسرائیل سے تعلقات کا معاملہ ختم کردے گا۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مزید جھکیں گے، کیونکہ ان کے سروں پر بھی مغربی طاقتیں مسلط ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ ہو یا اسے پھر کسی گروہ کے ساتھ باندھ کر اقتدار میں رکھا جائے دونوں صورتوں میں اسلامی ممالک کا طرزعمل اہم ہوگا،یہاں سے جتنی مضبوطی دکھائی جائے گی اسرائیل کے قدم اتنا ہی پیچھے ہٹیں گے۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ظلم میں اضافے کا اصل سبب مسلم حکمرانوں کی کمزوری ہے ورنہ مال دولت، قدرتی وسائل، فوجی عددی برتری اسلحہ وغیرہ یہ سب اُمت مسلمہ کے پاس ہے، کمی ہے تو بس جرأت اور حکمت کی، فراست کی۔

آج دنیا میں اسرائیل کے جواز، فلسطین کے مستقبل، صہیونیت، نسل کشی اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی بے حسی اور بائیکاٹ وغیرہ جو باتیں بھی ہورہی ہیں وہ سب صرف ایک چیز کی وجہ سے ہیں اور وہ حماس کی مزاحمت ہے، حماس نے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی ہے، اس کی مزاحمت نے دُنیا میں مزاحمت کرنے والوں کا سر بلند رکھا، ورنہ نام نہاد دانشور تو حماس کو دہشت گرد تسلیم کرکے لوگوں کو بھی یہی مشورہ دے رہے تھے کہ حماس کی بھی مذمت کی جائے۔ اور ایسے لوگوں کی سرکاری سرپرستی بھی کی جارہی تھی، اب نئے حالات میں دُنیا حماس کی طرف دیکھ رہی ہے، اور شام کی نئی قیادت سے توقعات باندھی جارہی ہیں، لیکن اب لوگ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں امریکا اور یورپی حکومتوں سے مایوس ہوچکے ہیں، اب دُنیا میں جو ہوگا وہ مزاحمتی قوتیں ہی کریں گی۔ اب اُمت مسلمہ کا کام یہ ہے کہ درست سمت میں کھڑی رہے، نام نہاد دانشور اسے تاریخ کی غلط سمت کہتے ہیں، لیکن حماس نے ثابت کردیا کہ تاریخ غلط رخ پر کھڑی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ بندی ،آگے کامنظر کیا ہوگا
  • حماس تیری مزاحمت کو سلام
  • حماس کے مجاہدوں، غزہ کے مظلوم باہمت عوام کو مبارکباد اور شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر
  • حماس کے مجاہدوں، غزہ کے مظلوم باہمت عوام کو مبارکباد اور شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں، صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر
  • صا حبزادہ ابوالخیر زبیر کا مولانا عبدالوحید قریشی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار
  • فلسطینی مجاہدین نے نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا ہے، معروف عرب تجزیہ کار
  • غزہ میں جنگ بندی
  • غزہ میں پائیدار امن کے تقاضے
  • حوثی ملیشیا کا بحیرہ احمر کی راہداری میں حملے محدود کرنے کا اعلان