اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، کوئی ویسے ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عدالت عظمیٰ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں۔ اٹارنی جنرل کے اعتراض پر عدالت نے مزید 2 عدالتی معاون مقرر کر دیے، خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر عدالت کی معاونت آرٹیکل 27 اے کے تحت کر سکتا ہوں، توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میری پوزیشن مختلف ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیس ریگولر بینچ سن رہا تھا کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے، یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے، رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں آج آئے ہوئے ہیں؟ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے روبرو پیش ہوئے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا تھا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں، اس کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے نا کہ 26 ویں ترمیم سے، آپ چاہ رہے ہیں کہ پلڑا بھاری نہ ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ مقرر نہ کرنے سے معلوم نہیں نذر عباس کا کتنا تعلق ہے، نذر عباس صاحب آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوگیا ہے، سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایڈووکیٹ شاہد جمال نے روسٹرم پر آکر کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بینچ تبدیل ہوا تھا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا، عدالت عظمیٰ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے ایک معزز جج کو ہی نکال دیا جاتا ہے، ایک کیس چل رہا ہو اس کو بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ مطلب جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اس کی واپسی نہیں ہے جس پر وکیل شاہد جمیل نے جواب دیا کہ جہاں سوال اٹھے گا وہ کیس لیا بھی جا سکتا ہے اس پر جسٹس منصور علی نے ریمارکس دیے کہ سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بینچ کے سامنے نہ ہو۔دوران سماعت عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم توہین کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟ منیر اے ملک نے کہا کہ کمیٹی کا فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے، کمیٹی کے اختیار پربالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ عدالت عظمیٰ کی صرف ایک سیکشن ہے، عدالت عظمیٰ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے، 3 رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنے ہیں، میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی، کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے۔ عدالتی معاون نے مزید کہا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا، اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا، اب جوڈیشل آرڈرکو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے، معاملہ ہمیشہ کے لیے حل فل کورٹ سے ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہو گئے جبکہ دوسرے عدالتی معاون حامد خان نے دلائل شروع کیے تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے۔ بعدازاں عدالت نے بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار عدالتی معاون کیس کی سماعت جوڈیشل ا رڈر توہین عدالت اٹارنی جنرل منیر اے ملک عدالت عظمی عدالت کی کمیٹی کے جا سکتا میں کہا فل کورٹ سکتا ہے کیس کا کہا کہ

پڑھیں:

موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ میں بینچز اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار کو تحریری جواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے۔ بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں۔

عدالت نے خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ریگولر بینچ سن رہا تھا کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے، یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا بیک گراؤنڈ بھی پڑھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں آج آئے ہوئے ہیں؟ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے کیس کو کاز لسٹ سے کیوں ہٹایا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بینچز اختیار سے متعلق کیس جسٹس عقیل عباسی جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • بینچز اختیارات کیس کا آئینی ترمیم سے تعلق نہیں، خود ہی ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات، جسٹس منصور
  • بنچز اختیارات کیس کا 26ویں ترمیم سے تعلق نہیں، کوئی ویسے ڈر جائے تو الگ بات ہے: جسٹس منصور
  • موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے. جسٹس منصور علی شاہ
  • موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور
  • اس کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، کوئی ویسے ڈرجائے تو الگ بات :جسٹس منصور علی شاہ
  • بینچوں کے اختیارات کے کیس کا 26 ویں ترمیم سے تعلق نہیں، کوئی خود سے ڈرے تو الگ بات ہے: جسٹس منصور
  • بینچوں کے اختیارات کے کیس کا 26 ویں ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، اگر کوئی شخص خود سے خوف زدہ ہو تو وہ الگ بات ہے: جسٹس منصور
  • موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور علی شاہ
  • بینچز اختیارات کیس کا معاملہ: سپریم کورٹ کے 3 ججز کا چیف جسٹس اور آ ئینی بینچ کے سربراہ کو خط