کراچی (اسٹاف رپورٹر)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد صدر کے عہدے سے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ ٹرمپ اب امریکا کے صدر ہوں گے۔سابق امریکی صدر جوبائیڈن کو اقتدار کے آخری ایام میں صدارتی حق حاصل تھا کہ وہ قیدیوں کی رہائی پر دستخط کر سکتے تھے اور انہوں نے سینکڑوں قیدیوں کے رہائی کے آرڈر جاری بھی کئے ہیں۔ لیکن افسوسناک بات یہ کہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی پٹیشن کامیاب نہ ہو سکی اور وہ رہا نہ ہوسکی۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے امریکہ تک قانونی جنگ لڑنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی نہ ہونے پر دکھی دل کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے۔اپنے پیغام میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے تین بڑوں صدر مملکت آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر میں سے کسی نے بھی امریکی صدر بائیڈن کو فون نہیں کیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پر دستخط نہ ہو سکے۔ سینیٹر مشتاق نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ کہ قوم کی حافظ قرآن بیٹی گزشتہ 22برس سے بدترین تشدد سے گزررہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مرتبہ 16 لاکھ لوگوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی پٹیشن امریکی صدر جوبائیڈن کے پاس جمع کی گئی۔سینیٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن نے جاسوسوں کو بھی معافی دی، قاتلوں کو بھی معافی دی، بینک ڈکیتی میں ملوث افراد کو بھی معافی دی، کووڈ 19 کے خلاف امریکا میں مہم چلانے والوں کو بھی معافی دی اور ایک جنرل کو پیشگی معافی بھی دی۔ عافیہ کی معافی بھی آسانی سے مل سکتی تھی اگر پاکستان کے 3بڑوں میں سے کوئی ایک بائیڈن کے کال کر کے گزارش کرتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نہ ہوسکا ہے۔مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ کلیمنسی پٹیشن ابھی بھی موجود ہے اور نئے امریکی صدر ٹرمپ بھی اسے منظور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ دستیاب تمام آپشنز کیساتھ اپنی کوشش جاری رکھیں گے انہوں نے گزارش کی کہ سوشل میڈیا پر آواز اٹھائیں اور آواز اس وقت تک اٹھائیں جب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان واپس نہ آجائیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی معافی دی مشتاق احمد خان سینیٹر مشتاق امریکی صدر کی رہائی تھا کہ

پڑھیں:

پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 12 اپریل 2025ء ) وزیرمملکت برائے قومی ثقافت و ورثہ حذیفہ رحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا،یہ عوام کو بتائیں کہ جھوٹا بیانیہ مقبولیت کیلئے تھا جبکہ حکومت میں گوڈے پکڑ کر آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگربات کرنا چاہتی ہے تو بالکل بات کرلیں، ان کی منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔

انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو گلے لگا کر ہی سیاسی مسائل کا حل نکلتا ہے،پچھلے دس سالوں میں کسی اینکر نے آج تک اس پر بات نہیں کی کہ سربراہان مملکت یا سابق وزرائے اعظم پاکستان میں علاج کیوں نہیں کراتے؟پاکستان میں لاہور ایسا شہر ہے جہاں ایسے ہسپتال اور ڈاکٹر موجود ہیں جن سے رائل فیملی علاج کراتی رہی ہے، ڈاکٹر حسنات، ڈاکٹر شہریار، عامر عزیزسمیت ایسے بڑے نام موجود ہیں، میرا خود میڈیکل فیملی سے تعلق ہے، میرے والد میڈیکل فزیشن اور شعبہ جات کے ہیڈ بھی رہے، جب بھی کوئی سربراہ مملکت کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے آتا ہے تو ڈاکٹر کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپاتا ، کیونکہ ڈاکٹر جب علاج کرتا ہے تو اس پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن سربراہ مملکت کے عہدے کا ڈاکٹر پر پریشر اتنا ہوتا ہے کہ وہ علاج نہیں کرپاتا، کوشش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت کو کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے جس پر کوئی پریشر نہ ہو۔

(جاری ہے)

نوازشریف کو جب باہر بھیجا گیا تو بہترین ڈاکٹرز کا بورڈ تھا جس نے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ان کو لگتا تھا کہ نوازشریف سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، نوازشریف کو دل کا ایک پیچیدہ مرض لاحق ہے اور اس کا علاج دنیا کے دو تین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میں بتا دوں کہ نوازشریف کا پلیٹ لیٹس کا کوئی ایشو نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں پی ٹی آئی سے بات کرنی چاہیئے، تو باکل ہم بات کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ کوئی حکومت اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتی ، بات چیت کیلئے جب حکومت کو بڑا دل کرنا چاہیئے تو پھر اپوزیشن کو بھی بڑا دل کرنا چاہیئے، پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ پر تنقید کرتی ہے تو پھر ہم کیسے بات کریں؟پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پر آن ایئر کہے کہ ہمارا سویلین بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کا بیانیہ جھوٹا تھا، یہ جھوٹا بیانیہ عوام میں مقبولیت کیلئے اپنایا تھا ویسے ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے گوڈے پکڑ کر حکومت میں آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر پی ٹی آئی سے بات کرنا چاہتی ہے تو یہ بالکل بات کرلیں، ایک طرف وزیراعظم کٹھ پتلی کا بیانیہ بناتے ہیں اور خود اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔

وزیراعظم اور بلاول بھٹو جب مل بیٹھیں گے تو پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط
  • معافی اور توبہ
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا
  • صدر مملکت آصف زرداری کئی روز بعد اسپتال سے ڈسچارج
  • کراچی: موٹر سائیکل ڈمپر کے نیچے ڈال کر ویڈیو بنا کر لسانی فسادات کی کوشش کی گئی، آفاق احمد
  • وقف قانون پر سیاست کے بجائے ایک جٹ ہوکر لڑیں، ممبر پارلیمنٹ میاں الطاف
  • صحافی کے بھائی تاحال لاپتہ، ماں کی اپیل بھی نہ سنی گئی
  • کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات عمران خان کی رہائی میں حائل ہیں؟
  • یرغمالیوں کی رہائی؛ حماس اور امریکا مذاکرات اسرائیل نے ناکام بنادیئے