سلمان خان کی فلم ‘سکندر’ کے سیٹ سے نئی تصاویر وائرل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
مشہور اداکار سلمان خان، جو حال ہی میں بگ باس 18 کی میزبانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں، اپنی نئی فلم ‘سکندر’ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں ممبئی میں فلم کے سیٹ سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں سلمان خان کو کالی پیلی ٹیکسی سے اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں سلمان خان نیلے رنگ کی شرٹ اور ڈینم جینز پہنے نظر آ رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ ٹیکسی سے باہر آتے ہیں، ان کے اردگرد موجود لوگوں کی بھیڑ ان کا دیدار کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔
ویڈیو نے سلمان کے مداحوں میں جوش و خروش کو مزید بڑھا دیا ہے، جہاں ایک مداح نے تبصرہ کیا، "واہ، کیا بات ہے!”
فلم ‘سکندر’ میں سلمان خان کے ساتھ راشمیکا مندنا اور کاجل اگروال بھی اہم کرداروں میں نظر آئیں گی۔ فلم کے ہدایتکار اے آر موروگداس ہیں، جو اپنی کامیاب فلموں جیسے ‘غجنی’ اور ‘ہالیڈے’ کے لیے مشہور ہیں۔
‘سکندر’ کو عید 2025 پر ریلیز کیا جائے گا، اور اسے ساجد ناڈیاڈوالا کی پروڈکشن کمپنی نادیادوالا گرانڈ سن انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔
فلم کا ٹیزر پہلے ہی ریلیز ہو چکا ہے، جس میں سلمان خان کا کردار ‘سکندر’ دکھایا گیا ہے۔ ٹیزر میں سلمان خان ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں، جہاں ہتھیاروں اور سامورائی لباس میں ملبوس لوگ موجود ہیں۔ اس موقع پر ان کا ڈائیلاگ، "سنا ہے کہ بہت سارے لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں، بس، میری مڑنے کی دیر ہے” نے مداحوں کو بے حد متاثر کیا۔
یاد رہے کہ سلمان خان کو آخری بار فلم ‘ٹائیگر 3’ میں دیکھا گیا تھا، جہاں وہ کترینہ کیف کے ساتھ مرکزی کردار میں تھے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
دنیا کا انوکھا گاؤں جہاں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتے ہیں
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دنیا کا انوکھا گاؤں جہاں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتےہیں، یہ گاؤں بھارت کی ریاست کیرالہ کےضلع ملاپورم میں واقع ہے،اس گاؤں کا نام کوڈینہی ہے ۔
دنیا میں ایک ایسا انوکھا گاؤں بھی ہے جس میں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتے ہیں، اس گاؤں میں 200 خاندان رہائش پذیر ہیں اور تو اور ڈاکٹرزاورسائنسدان بھی ابھی تک اسے ایک معمہ سمجھتے ہیں اور اسے سلجھانے میں ناکام رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملا پورم کا گاؤں کوڈینہی میں 400 سے زیادہ جڑواں بچے ہیں، ماہرین جہاں 2 ہزار خاندانوں پر مبنی اس گاؤں کی خوبصورتی کے قائل ہیں وہیں یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی تعداد کے بارے میں بھی انگشت بدنداں ہیں۔
ماہرین اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے غیر معمولی رجحان پر حیران ہیں جو کہ عالمی اوسط سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں علم بشریات کی ماہر لوریڈا میڈریگل تو کوڈینہی کو کسی ’دوسری دنیا کا خطہ‘ مانتی ہیں۔ انھوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔
تحقیق کے مطابق 2008 میں کوڈینہی گاؤں کی خواتین نے 300 صحت مند بچوں کو جنم دیا جن میں سے 15 خواتین کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے۔
پیدائش کے اعداد و شمار رکھنے والے محکمے کے مطابق کوڈینہی گاؤں میں گذشتہ پانچ سالوں میں 60 جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی گنتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت والے اس گاؤں کے چاروں طرف بیک واٹرز ہیں اور شہر سے جوڑنے والا صرف ایک راستہ ہے۔ لوریڈا میڈریگل کے مطابق اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گاؤں میں ہندو، مسلم اور مسیحی تینوں فرقے کے لوگ آباد ہیں۔
جڑواں بچوں کی پیدائش کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھنے والے کیرالہ کے ہی ڈاکٹرکرشنن سری بیجو کئی سالوں سے کوڈینہی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے راز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گاؤں میں جڑواں بچوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر کاغذات میں درج کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر بیجو کہتے ہیں ”میری رائے میں کوڈینہی گاؤں کی حدود میں تقریباً 450 سے 500 جڑواں بچے ہیں۔“ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات تین نسل پہلے شروع ہوئے تھے۔
تحقیق دانوں کے مطابق اس گاؤں میں 1949 میں پہلا جڑواں بچہ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سری بیجو نے ”میری معلومات کے مطابق “ یہ طبی معجزہ 60 سے 70 سال پہلے کے درمیان میں شروع ہوا تھا“ لیکن ابھی ان پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ آخر وہاں اتنی تعداد میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کا گاؤں والوں کے کھانے پینے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔
جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے ایک اور اہم وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر بیجو نے کہا کہ عام طور پر جن خواتین کا قد 5 فٹ اور 3 انچ سے کم ہوتا ہے ان کے ہاں جڑواں یا ایک سے زیادہ بچے کے جنم کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور کوڈینہی میں خواتین کا اوسط قد 5 فٹ ہے۔
کوڈینہی کو اب انڈیا میں ’ٹوئن ٹاؤن‘ یا ’جڑواں بچوں کے قصبے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں میں اس کے متعلق تججس پایا جاتا ہے لیکن کوڈینہی والوں کو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
تاہم حال ہی میں ڈاکٹر سری بیجو نے جڑواں بچوں اور ان کے خاندانوں کو رجسٹر کرنے اور مدد فراہم کرنے کے لیے ’ٹوئنز اینڈ کن ایسوسیشن‘ (ٹاکا) نام کی ایک تنظیم قائم کی ہے۔ یہ تنظیم گاؤں کے جڑواں بچوں کو تعلیم دینے اور ان کے کنبے کو مدد فراہم کرتی ہے۔
مزیدپڑھیں:حکومت کا 8 فروری یوم تعمیر وترقی کے طور پر منانے کا اعلان