پبلک غیر درج شدہ کمپنیوں کے لیے مشاورتی کاغذ جاری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج لمیٹڈ (پی ایس ایکس) پر پبلک غیر درج شدہ کمپنیو کے لیے رجسٹریشن اور ٹریڈنگ پلیٹ فارم (آر ٹی پی) کے آغاز کی تجویز دیتے ہوئے ایک مشاورتی کاغذ جاری کیا ہے۔پی ایس ایکس پر اہل غیر درج شدہ پبلک کمپنیوں کی رجسٹریشن، مالی نتائج کی عوامی اشاعت کے ساتھ ملا کر، پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کی مرئیت میں نمایاں اضافہ کرے گی۔ اس اقدام سے توقع کی جاتی ہے کہ کمپنیاں بہتر کارپوریٹ گورننس طریقوں، معلومات کے افشاء اور دستاویزات کو اپنانے کے لیے متحرک ہوں گی؛ اور بڑھی ہوئی شفافیت اور عوامی جوابدہی کی ثقافت کو اپنائیں گی۔مشاورتی کاغذ میں مرحلہ وار نفاذ کا طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے، جس کے مطابق پہلی مرحلہ میں 20 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کی ادائیگی شدہ سرمایہ والی کمپنیوں کو رجسٹر کیا جائے گا، اس کے بعد 2.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ایس ایکس کے لیے
پڑھیں:
سرمایہ داری کی گھٹیا مگر قابل فخر شکل
ایک بار پھر امریکی جریدے فوربز نے ہم غربا کی عزت کا مذاق اڑایا ہے۔ دنیا بھر میں فوربز کو غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سب سے زیادہ حسرت اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے خود امرا کو بھی یہ میگزین اچھا لگتا ہو۔ کسی بھی میگزین یا اخبار کے سرورق پر چھپنے سے کچھ تو تفاخر اور اکڑ فوں پیدا ہوتی ہی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا کی ننانوے فیصد سے زیادہ اکثریت اس میگزین کی لسٹ میں دل ہی دل میں اپنا نام ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ خیر، اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ اس میگزین میں چھپنے والی دنیا کی 100امیر ترین شخصیات میں کچھ نام و ناموس اور تکبر و غرور کا مرض پیدا ہوتا ہے تو دنیا کی انتہائی اکثریت بھی ان کے خلاف کچھ حسد یا تعصب ضرور محسوس کرتی ہے۔ البتہ بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا بھی دنیا کے ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چایئے کہ دولت اور وسائل کے انبار لگانے کے لئے انسانی اخلاق و اقدار کو دو طرفہ طور پر ہی پس پشت ڈال دیا جائے۔
2025 ء کی امیر ترین شخصیت بھی ’’ٹیسل‘‘ اور ’’اسپیس ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک قرار پائے ہیں۔ مذہبی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ، ’’اللہ انہیں اور دے۔‘‘ لیکن سرمایہ داری میں یہ کہاں کا انصاف اور قانون و قائدہ ہے کہ پوری دنیا صرف ایک امیر ترین شخص کی دولت کو شمار میں لانے لگے۔ فوربز کی جانب سے جاری کی گئی دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں ایلون مسک پہلے نمبر پر ہیں جن کی مجموعی دولت 425.2 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ پسماندہ اور کسی غریب ملک کی کرنسی میں کتنی دولت بنتی ہے اور اس سے کسی ایک شخص کی کتنی نسلیں گھر بیٹھ کر عمر بھر کھا سکتی ہیں یا اس سے کتنے سکول کالجز یا ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں اس کا حساب کتاب لگانا کافی مشکل ہے۔ البتہ ایسا صرف ’’سرمایہ داری نظام‘‘ میں ہوتا ہے کہ حکومت کو سود یا ٹیکس وغیرہ دے کر آپ جتنی چاہیں دولت اکٹھی کرسکتے ہیں۔
ایلون مسک کے بعد ’’ایمازون‘‘ کے مالک جیف بیزوس کا نمبر ہے جن کی مجموعی دولت 241 ارب ڈالرز ہے۔ جیف بیزوس نے 1994 ء میں ’’ای کامرس‘‘ کی بڑی کمپنی ’’ایمازون‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے بعد وہ آگے سے آگے بڑھتا گیا۔ امارت اور ’’کیپیٹل ازم‘‘ کا تو اصول بھی یہ ہے کہ ’’پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔‘‘ کہ جس کے پاس ایک بار دولت آ جائے اس کے پاس اور زیادہ دولت آتی ہے، حالانکہ دنیا کا آج مسئلہ ہی یہی ہے کہ لوگ امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں، اور یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
دنیا کے امیر ترین افراد کی اس فہرست میں تیسرے نمبر پر مارک زکر برگ ہیں، جو ’’میٹا کمپنی‘‘ کے مالک ہیں اور ان کی مجموعی دولت 217.7 ارب ڈالرز سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ چوتھے نمبر پر ایلیسن ہیں، جو کمپیوٹر سافٹ ویئر کی کمپنی “اوریکل” کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں اور ان کی دولت 209 بلین ڈالرز ہے۔ نومبر 2024 میں ان کی مجموعی دولت 228 بلین ڈالرز سے زیادہ تھی اور وہ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بننے کے لئے بیزوس کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے، لیکن دسمبر کے آغاز میں ان کے اثاثوں اور مالیت میں کمی آ گئی تھی۔ ایلیسن اوریکل کمپنی کے تقریباً 40 فیصد حصص کے مالک ہیں اور چیئرمین و چیف ٹیکنالوجی آفیسر اور ’’کوفائونڈر‘‘ کے طور پر اپنی ہی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔
امریکی میگزین ’’فوربز‘‘ کے حساب سے سرمایہ داری” کی اس دوڑ میں انسان کہاں تک آگے سے آگے بھاگتا رہے گا یا دنیا کی ہر سال کی یہ 100 افراد کی لسٹ انسان کے لالچ، حرص اور حسد و منافقت کو مزید ابھارتی رہے گی؟ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو دنیا میں دولت کا ’’ارتکاز‘‘ مزید پیچیدہ اور گھنائونی شکل اختیار کر لے گا۔ یہ دوڑ سرمایہ داری کی جنگ ہے جس میں دنیا کے انسانوں کی اکثریت ان سو انسانوں کے ہاتھوں میں جنس کے طور پر کام آتی ہے، جو جدید دنیا میں غلامی کی ایک گھٹیا مگر نئی اور قابل فخر شکل ہے۔