مجرموں کی بجائے مخالف سیاستدان نشانہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کو جیل میں قید نہیں بلکہ رہا ہونا چاہیے، میں معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا داعی ہوں۔ عوام کا اعتماد بحال ہونے سے ہی ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے مگر ملک میں جو دو انتخابات ہوئے ان پر عوام نے اعتماد نہیں کیا۔ مولانا نے سیاستدانوں کے جیل کی بجائے باہر رہنے کی جو بات کی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ سیاستدان فرشتے ہیں انھیں سب کچھ کرنے کی اجازت ہے انھیں پکڑ کر جیل میں بند نہیں کرنا چاہیے اور گرفتار سیاستدانوں کو جیلوں سے رہا کر دینا چاہیے خواہ انھوں نے کوئی جرم بھی کیا ہو۔ملک و قوم سے مخلص اور کرپشن سے دور رہنے اور سیاست میں سیاسی و مالی فائدے نہ اٹھانے والے سیاستدان عنقا ہو چکے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدان اب ملک میں برائے نام ہی ہوں گے جو اپنی جائیدادیں فروخت کر کے صرف عوام کی خدمت کے لیے سیاست کیا کرتے تھے۔
اب تو سیاست میں اپنے خاندان کی سیاسی میراث آگے بڑھانے اور سیاسی و مالی مفادات اور جائیدادیں بنانے اور بڑھانے کے لیے سیاست میں آیا جاتا ہے۔ ملک میں اب انتخابی سیاست بھی پہلے جیسی نہیں رہی جب سیاستدانوں کو کسی لالچ یا مفاد کے بغیر منتخب کیا جاتا تھا۔ سیاستدانوں کو ووٹ خریدنے پڑتے تھے نہ انتخابی مہم پرکروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے تھے اور لوگ عوام کی خدمت کے لیے ان سیاستدانوں کی الیکشن مہم میں کسی مفاد و لالچ کے بغیر اپنی جیب سے بھی رقم خرچ کرتے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ الیکشن لڑنا پہلے اتنا مشکل نہیں تھا جتنا پانچ عشروں سے ہو چکا ہے اور ملک کا انتخابی نظام ہی کرپٹ ہو چکا ہے تو انتخابات لڑنے والے سیاستدان کیسے محفوظ رہ سکتے تھے، انھوں نے بھی کرپٹ انتخابی نظام کو قبول کر لیا کیونکہ یہ ان کی مجبوری بنا دی گئی تھی۔
موجودہ انتخابی نظام میں الیکشن لڑنے والوں کے لیے انتخابی اخراجات کی جو پابندی ہے اس رقم میں تو یوسی چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑا جا سکتا اور امیدواروں کو مقررہ حد سے زائد اخراجات کر کے ہی الیکشن لڑنا پڑتا ہے اور کامیاب ہونے والے کو الیکشن کمیشن میں جھوٹ پر مبنی تفصیلات فراہم کرنا پڑتی ہیں۔
الیکشن کمیشن ارکان اسمبلی سے ہر سال گوشوارے جمع کرانے کی ڈیڈ لائن دیتا ہے جس پر عمل نہ ہونے پر ان کی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے جو اپنے جھوٹے سچے گوشوارے جمع کرا کر بحال کرا لی جاتی ہے۔ اس بار بھی 31 دسمبر تک گوشوارے جمع کرانے کی ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کے لیے ڈیڈ لائن مقرر تھی مگر 517 ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے اور 31 دسمبر تک چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی گوشوارے جمع نہ کرانے والوں میں شامل ہیں۔ ہر سال جھوٹے و بے بنیاد گوشوارے جمع کرائے جاتے ہیں جو تسلیم کر لیے جاتے ہیں اور جھوٹے گوشواروں کی کوئی تحقیقات نہیں کرتا۔ اہم عہدوں پر رہنے والے گوشواروں میں لکھتے ہیں کہ ان کے پاس ذاتی گاڑی یا گھر نہیں ہے۔
وہ اپنی فیملی کی بھی بے بنیاد تفصیل فراہم کرتے ہیں اس لیییہی سے منتخب ارکان کی کرپشن شروع ہو جاتی ہے۔ 1989 میں مولانا فضل الرحمن میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر تعزیت کے لیے الٰہی بخش سومرو کے گھر آئے تھے اور راقم کے سامنے دونوں کا کہنا تھا کہ اب الیکشن لڑنا آسان نہیں رہا اور ایک کروڑ روپے میں بھی قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا جاسکتا۔
36 سالوں میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی تو انتخابی اخراجات بھی پچاس کروڑ تک تو پہنچ ہی گئے ہوں گے۔ اتنے مہنگے الیکشن کروڑوں پتی امیدوار ہی لڑ سکتے ہیں۔ عام آدمی تو یوسی چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا، اس لیے کرپشن اب سیاستدانوں کی مجبوری بن گئی اور اکثر کے قریب الیکشن لڑنا کاروبار بن چکا ہے۔
کرپشن میں اٹے الیکشن اب سیاسی پارٹیوں کی بھی آمدنی کا ذریعہ ہیں اور پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے بھی پارٹی کو کروڑوں روپے عطیہ دینا پڑتا ہے مگر پھر بھی ٹکٹ ملنے کی گارنٹی نہیں ہوتی ۔ ہر بڑی پارٹی بڑی بڑی رقم لے کر اپنے انتخابی ٹکٹ جاری کرتی ہے اور پارٹی قائد اگر ان کی انتخابی مہم میں آئے تو اس کے جلسے کے اخراجات بھی امیدوار کے ذمے ہوتے ہیں۔
ایک لحاظ سے یہ درست ہے کہ کرپشن کے مبینہ الزامات پر سیاستدان کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ ملک میں سینیٹروں کا انتخاب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جہاں بھی پارٹیاں رقم لے کر سینیٹ کا ٹکٹ دیتی ہیں اور ارکان اسمبلی پارٹی ٹکٹ کے برعکس اپنے ووٹ بھاری رقم کے عوض دیتے ہیں جن کے ووٹوں کا پتا بھی چل جاتا ہے مگر یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہونے والوں نے اپنے انتخابی اخراجات بھی وصول کرنے ہوتے ہیں اور انھیں ہر حکومت غیر قانونی طور پر اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر سیاسی رشوت بھی دیتی ہے اور حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے انتخابی اخراجات بمع سود وصول کر لیتے ہیں۔
انتقامی سیاست اور سیاسی مخالفین کو اپنی طرف سے چور ڈاکو قرار دے کر جیلوں میں ناحق قید کرانے والا آج خود جیل میں ہے ۔ حکومتوں کے اپنے مخالف سیاستدانوں پر مقدمات مذاق بن کر رہ گئے ہیں جن پر عوام بھی یقین نہیں کرتے اور حکومتیں بھی بدنام ہوتی ہیں۔ہر سیاسی پارٹی نے ایسے مقدمات بھگتے مگر کرپشن کے اصل مجرم بھی اپنے خلاف مقدمات تسلیم نہیں کرتے اور اسے سیاسی قرار دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن چھپتی کبھی نہیں مگر ثبوت نہیں ملتے اور ہر حکومت میں مجرموں کی بجائے مخالف سیاستدان ہی نشانہ بنتے آ رہے ہیں اور زیادہ بدنام صرف سیاستدانوں کو کیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انتخابی اخراجات سیاستدانوں کو گوشوارے جمع ہیں اور جیل میں ملک میں کے لیے ہے اور
پڑھیں:
عوام ریلیف سے محروم کیوں؟
مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، لیکن اگر اعداد و شمار کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے لاہور چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشی استحکام کے لیے مہنگائی کا کم ہونا لازمی تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر دالوں، چینی اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں، افراط زر نیچے آنے کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے آخرکار تسلیم کر لیا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری میکنزم کی پیچیدگی اور سست روی ہے ۔ وفاقی سے صوبائی اور پھر ضلع سطح کی سرکاری مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔گراس روٹ لیول پر اوور چارجنگ روکنے والی مشینری متحرک نہیں ہے۔ ضلع ، تحصیل اور یونین کونسل تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے والا میکنزم فرسودہ اور ناکام ہوچکا ہے۔
مہنگائی اور ناجائز منافع خوری زوروں پر ہے۔ تمام اشیائے خوردنی، پھلوں سبزیوں، گوشت وغیرہ کی قیمتوں اور کوالٹی چیک کرنے کے ذمے دار سرکاری افسر اور اہلکار کب کام کرتے ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں ، کم از کم صارفین کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ زرعی اور صنعتی شعبے کی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری اورمینو فیکچرنگ سیکٹر بھی ٹیکسوں کے کڑے نظام اور مہنگی بجلی کی وجہ سے کئی مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے بازار اسمگل شدہ غیر ملکی سامان سے اٹے پڑے ہیں۔
مہنگائی میں کمی کا فائدہ اگر عام آدمی تک نہیں پہنچتا تو اس کمی سے عام آدمی کی زندگی آسان نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں یہ روایت موجود ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں، بار برداری کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، فیکٹری مالکان اس اضافے کو اپنی لاگت میں شامل کر کے مارکیٹ میں اشیاء فراہم کرتے ہیں، مگر جب کسی چیز کی قیمت کم ہوتی ہے تو بڑھی ہوئی قیمتیں اُس تناسب سے کم نہیں کی جاتیں۔
صوبائی حکومتیں جن کے پاس انتظامیہ کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے، اور ہر صوبائی حکومت کے ماتحت ان گنت محکمے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا بنیادی مقصد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر چھاپے مارتی ہے اور انھیں جرمانے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن تھوک مارکیٹوں میں جہاں سے اشیاء کی ترسیل ہوتی ہے، جاتے ہوئے ان کے پَر جلتے ہیں۔ ملک کے تمام اضلاع میں مارکیٹ کمیٹیاں قائم ہیں، جو ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی کام کرتی ہیں۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی روزانہ اشیائے ضروریہ کے نرخ تو جاری کردیتی ہے، مگر اُس پر عمل کرانے کے لیے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا،جس کی وجہ سے اِن مارکیٹ کمیٹیوں کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اشیاء کے جو سرکاری نرخ مقرر کیے جائیں، بازار میں اُن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہر ضلع میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں، جن کا کام ہی یہ ہے کہ مصنوعی مہنگائی کو روکیں، لیکن اُن کی عدم فعالیت برقرار رہتی ہے۔ اربابِ اختیار کو اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں کام کرنے والے سرکاری افسران و اہلکار کو خود اتنا بااختیار نہ سمجھنے لگیں کہ انھیں قانون کی کوئی پروا ہی نہ رہے۔
درحقیقت مصنوعی مہنگائی نے پنجے گاڑھ لیے ہیں سرکاری نرخ ناموں کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ سبزی ، دالیں، پھل، گوشت سمیت دیگر اشیاء کی من مرضی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔ اگر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے تو حقیقت میں انفرادی لوٹ مار کو مہنگائی کا نام دیدیا گیا ہے۔ سبزی ودیگر اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی پر منافع کی شرح لا محدود ہے۔ ان کی قیمتوں کے تعین پر کسی کنٹرول کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث ناجائز منافع خوری عام ہے۔
دراصل ہمارے مالیاتی اور انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں جس پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگتی ہے جب کہ صدر، وزیرِ اعظم، وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی خود قربانی کیوں نہیں دیتے اور اپنے اخراجات اور مراعات کم کیوں نہیں کرتے؟ ایک جانب مشکل مالی حالات کا رونا رو کر حکومت کفایت شعاری اور سادگی کے بہانے سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کر رہی ہے تو دوسری جانب اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اربوں روپے کا ہوشربا اضافہ کر کے اپنے ہی دعوؤں کی نفی بھی کر رہی ہے۔ ایسے میں وفاقی کابینہ میں وزراء اور مشیروں کی ایک نئی فوج ظفر موج کا اضافہ گویا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔
جہاں تک ایک عام آدمی کا سوال ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔ ہر پاکستانی اس وقت مہنگی ترین بجلی، پٹرول اور گیس خرید رہا ہے جن کی قیمتیں وفاقی حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست انھی تینوں اشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف گیس، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری جانب بلا واسطہ اور براہ راست ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اس وقت دو وقت کی روٹی پورا کرنا ایک عام پاکستانی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایسے میں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی عام عوام کی پہنچ سے بہت دور نکل چکی ہیں۔
حقائق تو یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے مزید قرضے کا مطلب عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ۔ حکومت یہ جان چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے چکانے کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سارے عمل کا بوجھ پاکستانی عوام پر آئے گا بے دردی سے ان کی پیٹھوں پر مزید ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کے تازیانے برسائے جائیں گے، پہلے ہی اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لگ بھگ دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ جانیں آگے چل کر پھر کیا ہو گا۔
ہمارے ملک میں جہاں تک اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں توازن کا تعلق ہے، مرکز اور صوبوں میں منصوبہ بندی کے محکمہ جات موجود ہونے کے باوجود منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ مذکورہ محکمے عضو معطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ عملی طور پر ہوتا یہ ہے ہماری حکومتوں کے کرتا دھرتا، چند بیوروکریٹس کی ملی بھگت سے، پہلے تو اشیائے خورونوش کو برآمد کر کے مال بناتے ہیں۔ جب ملک میں ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو وہی اشیاء درآمد کر کے اپنی حرام آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ قیمتوں کے تعین کا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا بھی کوئی مخصوص میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہ اختیار ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کو دیا گیا ہے جس میں تاجر تنظیموں کو بھی نمایندگی دی جاتی ہے۔ قیمتیں مقرر کرنے کے لیے مذکورہ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جاتا ہے۔ دوران میٹنگ تاجروں کے نام نہاد نمایندے انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کے جو نرخ کمیٹی مقرر کر رہی ہے اس پر انھیں فروخت کرنا تاجروں کے لیے ممکن نہیں ہو گا، وہ پھر بھی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ تاجروں کے حقیقی نمایندے ہوتے ہی نہیں، بلکہ انتظامیہ کے من پسند اور چنیدہ احباب ہوتے ہیں۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے عام طور پر ضلعی افسروں کے ذریعے سے ملحقہ اضلاع کے مقرر کردہ نرخ لے لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کی روشنی میں مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کوئی شے کس قیمت پر مل رہی ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، آ ج بھی کوئی ڈپٹی کمشنر وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نرخ پر گوشت، دودھ یا دہی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کے اثرات منافع خوروں کے باعث عوام تک منتقل نہیں ہو پا رہے، جس کی ایک بڑی وجہ حکومتی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے نظام کا غیر فعال ہونا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کے لیے حکومت کو سوشل سیکیورٹی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔