اسلام ٹائمز: طلباء کی طرف سے اپنی فکری اور ذہنی نشوونما کیلئے مندرجہ ذیل سرگرمیوں کا کوئی باقاعدہ سلسلہ شروع کرنے کے شوق کا اظہار بھی کیا گیا، جیسے متن شناسی، سوشل سائنسز سے آشنائی، اسلامی فن و ثقافت، انسانی تہذیب و تمدن، زبان و ادب (شاعری، تقریر، خطابت، تحریر)، اسلام میں قصص اور داستان گوئی و داستان نویسی کا فن، ادب اطفال، فکشن اور فینٹسی سے اجمالی آشنائی، مصنوعی ذہانت (AI)، صحت و صفائی، فرسٹ ایڈ۔۔۔ رپورٹ: مزمل حسین
(انچارج دارالتحقیق جامعہ الرّضا)

جامعہ الرضا بارکہو، اسلام آباد میں دارالتحقیق کی باقاعدہ فعالیت کا آغاز نومبر 2024ء میں جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے تعاون سے ہوا۔ اس شعبے کا مقصد طلباء کی علمی، تحقیقی اور عملی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور انہیں جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ آغاز میں ہی ادارے کے شعبہ تحقیق سے متعلقہ اساتذہ کرام نے چند ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی، تاکہ شعبہ تحقیق کے امور کو منظم انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔ ابتدائی طور پر راقم الحروف کو شعبہ تحقیق کا انچارج مقرر کیا گیا۔ شعبہ تحقیق کی پہلی سرگرمی کے طور پر ان طلباء کی نشاندہی کی گئی، جو تعلیم و تربیّت کا از خود شوق دوسروں کی نسبت زیادہ رکھتے تھے۔

اس کیلئے چند مرتبہ مختلف طریقوں سے سروے کیا گیا اور ان طلباء کی مہارتوں کو مزید نکھارنے اور بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی گئی۔ پہلے مرحلے میں ان طلبا کیلئے کمپوٹر سے آشنائی کا کورس شروع کیا گیا۔ اس کورس کیلئے ابتدا میں ہی ماہانہ تقریباً 40 گھنٹوں کا وقت طے کیا گیا تھا۔ جس میں طلبہ کو کمپیوٹر کے بنیادی استعمال کے ساتھ ساتھ مائیکروسافٹ آفس (ورڈ، ایکسل، پاور پوائنٹ) کے بنیادی کام سکھائے گئے۔ یہ فقط کمپیوٹر سے آشنائی کا کورس ہی نہیں تھا بلکہ اس سے جامعۃ الرضا کی پہلے سے موجود کمپیوٹر لیب کو فعال کیا گیا۔

علاوہ ازیں اسی کورس کے دوران طلباء میں کی دیگر صلاحیتوں مثلاً 1۔ روش تحقیق، 2۔ مباحثہ، 3۔ فنِ خطابت، 4۔ تحریری صلاحیتوں اور گفتگو کی مہارتوں کی جانچ پرکھ اور ان کی سطح کی میزان کا تعیّن بھی ساتھ ساتھ کیا جاتا رہا۔ یہ کورس مکمل ہونے کے بعد مدرسے کے طلباء کی ایک بڑی تعداد نے دارالتحقیق کی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے شوق کا اظہار کیا، جس کی روشنی میں شعبہ تحقیق کی سرگرمیوں میں کو مزید وسعت دینے کے لیے 8 جنوری 2025ء کو شعبہ تحقیق کے مسئولین کی ماہانہ وار نشست ہوئی، جس میں گذشتہ مہینے کی فعالیت کا جائزہ لیا گیا اور ادارے اور طلباء کی ضرورت کے پیشِ نظر مندرجہ ذیل مزید شعبہ جات اور مسؤلین کا انتخاب کیا گیا:

1۔ کمپیوٹر تعلیم:
وہ طلبہ جو پہلے تربیت حاصل نہ کرسکے، ان کے لیے دوبارہ مواقع فراہم کیا جائے۔ جنہوں نے پہلے کورس کیا ہے، وہ اپنا پریکٹیکل منظم انداز میں جاری رکھیں، تاکہ بھول نہ جائیں۔

2۔ مطالعاتی و تربیتی فلمیں و ڈاکومنٹریز:
بہت ساری ایسی معلومات اور تربیتی سرگرمیاں ہیں، جن میں تاریخی و مستند ڈاکومنٹریز اور فلمیں بہت زیادہ مفید اور موثر ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے کو  منظم انداز میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

3۔ مقالہ نویسی اور مضمون نویسی:
ایک دینی طالب علم کی زندگی میں مقالہ نویسی اور مضمون نویسی کی اہمیت سے ہر شخص باخبر ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر اس شعبے کیلئے مسئول کا تعیّن بھی کیا گیا اور باہمی مشورے سے اس کے آغاز کا شیڈول بھی مرتب کیا گیا۔

4۔ فنِ خطابت:
فن خطابت اور دینی طلباء لازم و ملزوم ہیں۔ خطابت کو  پُرکشش لیکن تحقیقی اور علمی انداز میں سیکھنے کیلئے اس شعبے کے آغاز پر اتفاق کیا گیا۔

5۔ مختلف ادیان، مسالک اور اسلامی علوم و فقہی تقسیم کار سے آشنائی:
دینی طلبا کی ذہنی و قلبی وسعت کیلئے مختلف ادیان، مسالک اور اسلامی علوم و فقہی تقسیم کار سے آشنائی ضروری ہے۔ اس کیلئے بھی باقاعدہ سوچنے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مختلف سرگرمیوں کو یقینی بنانے کیلئے ایک مسئول کا انتخاب کیا گیا۔

6۔ اسکاؤٹنگ اور سپورٹس:
جامعۃ الرضا کے طلباء کو سپورٹس اور اسکاوٹنگ کی معیاری سہولیات اور امکانات کی فراہمی کیلئے حسبِ امکان شرائط کو فراہم کرنے کیلئے بھی ایک مسئول کا انتخاب کیا گیا۔

یاد رہے کہ طلباء کی طرف سے اپنی فکری اور ذہنی نشوونما کیلئے مندرجہ ذیل سرگرمیوں کا کوئی باقاعدہ سلسلہ شروع کرنے کے شوق کا اظہار بھی کیا گیا، جیسے متن شناسی، سوشل سائنسز سے آشنائی، اسلامی فن و ثقافت، انسانی تہذیب و تمدن، زبان و ادب (شاعری، تقریر، خطابت، تحریر)، اسلام میں قصص اور داستان گوئی و داستان نویسی کا فن، ادب اطفال، فکشن اور فینٹسی سے اجمالی آشنائی، مصنوعی ذہانت (AI)، صحت و صفائی، فرسٹ ایڈ۔۔۔

چنانچہ اس کیلئے "پرورشِ فکر" کے عنوان سے ایک الگ شعبے کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے ایک دوست کو ٹاسک دیا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام سرگرمیاں جامعۃ الرضا کے طلباء نے اپنے ذوق و شوق سے شروع کی ہیں اور ان کا وقت بھی وہ خود ہی منظم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان ساری سرگرمیوں کی مدیریت بھی خود طلباء ہی کرتے ہیں، جس سے ان کی مدیرانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کو بھی نکھرنے کا موقع مل رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: طلباء کی تحقیق کی کیا گیا اور اس اور ان

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے

ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے تین ججز، اٹارنی جنرل پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس معاملے پر ہمارے سامنے سات درخواستیں آئی ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سینیر ہیں پہلے ان کو سن لیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رائٹ آف آرڈیننس منیر اے ملک کو دیا جاتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور مقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو عدلیہ کی آزادی کے آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دونگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہی سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔منیر اے ملک نے کہا کہ اصغر اعوان کیس میں سینارٹی کے اصول کو سول سرونٹ کے طور اجاگر کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر چار درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی، جس ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، پھر جس ہائی کورٹ میں آنا ہوتا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے سے استفسار کیا کہ آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے، یا سینارٹی پر، منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر اور پانچ ججوں کے وکیل منیر اے ملک کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
وکیل نے کہا کہ جج کا ٹرانسفر عارضی طور پر ہو سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایسا کہیں زکر نہیں ہے، صدر مملکت نے نوٹیفکیشن میں اضافی مراعات کا بھی کہیں زکر نہیں کیا، یہاں عدم توازن مراعات کا معاملہ نہیں ہے، وہ الفاظ جو آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ عدالتی فیصلے کے زریعے آئین میں شامل نہیں کر سکتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آپ ہم سے نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے، آئین میں نئے الفاظ شامل کرتے ہوئے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا، اس کے ساتھ ہی عدالت عظمی نے ہائی کورٹ کے 3 ججز جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔عدالت عظمی نے ججز کو کام کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی، عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو بھی نوٹس جاری کر دیا، مزید ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس کردیے۔سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن پاکستان کو بھی نوٹس جاری کیا، چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار آفسز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن الگ سے وکیل کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے۔
آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن کو ہائی کورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان تعینات کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب ہے، منیر اے ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس 18 اپریل کو بلایا گیا ہے، ٹھیک ہے ہم کیس سترہ اپریل کو سنیں گے۔آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد کی، عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا اسکوپ موجود ہے؟۔
منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا زکر ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کئے گئے؟ کیا حلف میں زکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟۔
منیر اے ملک نے استدلال کیا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا زکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری کاذکر آتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لیکر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • زرعی سکالر شپ پروگرام ،گلگت بلتستان سمیت ملک بھر سے 300 طلباء کی چین روانگی
  • پاکستان کے زرعی گریجوایٹس اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جا رہے ہیں، شہباز شریف
  • اسلام آباد کو دنیا کا خوبصورت شہر بنانے اور سیاحت کے فروغ کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا
  • وزیر اعظم کا سمندر پار پاکستانیوں کیلئے اسلام آباد میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان
  • وزر اعظم کا سمندر پار پاکستانیوں کیلئے اسلام آباد میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان
  • اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کردی گئیں: وزیراعظم
  • ‘اوورسیز پاکستانیز کنونشن’ اسلام آباد میں جاری، وزیراعظم اور آرمی چیف کی تقریب میں شرکت
  • اقوامِ متحدہ امن مشن وزارتی کانفرنس کی تیاری کیلئے 2روزہ کانفرنس کل سے اسلام آباد میں ہوگی
  • ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • بشریٰ بی بی کی جیل میں بہتر سہولتوں کیلئے درخواست، فریقین سے جواب طلب