ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی منظر نامہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکا کا صدر بنتے ہی متعدد ایگزیکٹیو احکامات جاری کر دیے۔ٹرمپ نے 2021 میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے الزام میں سزا پانے والے اپنے 1500 حامیوں کی سزائیں معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکا کی جنوبی سرحد پر ’ قومی ایمرجنسی‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مقصد میکسیکو سے غیرقانونی تارکین وطن کے امریکا میں داخلے کو روکنا ہے۔ ایک دوسرے آرڈر میں امریکی فوج کو ’سرحدوں کو سیل‘ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ملک میں منشیات آنے اور انسانی اسمگلنگ کو روکا جاسکے۔
ایک حکم نامے میں سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں منظور کیے گئے 80 کے قریب قوانین کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے ، انھوںنے پیرس کلائمیٹ معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا بھی حکم جاری کردیا ہے جس کے تحت امریکا آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کا مزید حصہ نہیں رہے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اب اس نئے دور میں بھی کئی مسائل اور معاملات موجود ہیں انھیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی،جیسے اسرائیل فلسطین جنگ،اسرائیل کے لبنان پر حملے اور ایران کو دھمکیاں،ایران امریکا تعلقات،ان کی اپنی چھیڑی ہوئی امریکا چین معاشی جنگ،پونے تین برسوں سے جاری روس یوکرین جنگ،بین الاقوامی معیشت،افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں، موسمیاتی تبدیلیاں اور پاک امریکا تعلقات۔ سب سے اہم مسئلہ دنیا میں دہشت گردگروپس اور غیر ریاستی عناصر کا خاتمہ ہے ، کیونکہ ان ہی کی وجہ سے دنیا بھر میں جمہوریت کا عمل انتہائی کمزور ہوا ہے۔
نومنتخب صدر ٹرمپ کو2017 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف جغرافیائی سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے، عالمی منظرنامے پرایٹمی طاقتوں کی سرحدوں پر مشتمل تین سلگتی جنگیں ہیں اسرائیل کا ہمسائے ممالک، پاکستان کا افغانستان اور یوکرین کا روس کے ساتھ تنازع ہے۔دوسری طرف افغانستان میں طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے ۔ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگیں ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ میں زیادہ ضروری کاموں کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی یوکرین کے تنازع کو حل کر لیں گے۔
اگرچہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یوکرین کی جنگ جنوری میںہی ختم ہو گی یا نہیں۔ ایک تجزیہ یا رائے یہ بھی ہے کہ یوکرین جنگ کا فوری خاتمہ اس لیے ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کے روسی صدر پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔یوکرین جنگ کے خاتمے کو امریکی معاشی صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی جنگ کے خاتمے اور استحکام کی بات کی ہے، غزہ کی تعمیر نو کا بھی ذکر کیا ہے یہ ایک بڑا چیلنج ضرور ہوگا کیونکہ جنگ بندی کے فیصلہ پر عمل درآمد مشکل ہوگا لیکن اگر وہ چاہیں گے تو ایسا ہو پائے گا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی میں انتہائی محاذ آرائی پر مبنی نقطہ نظر کو ترجیح دی اور چین پر دباؤ بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ انھوں نے توسیع پسندانہ خارجہ پالیسی کا اشارہ دیا ہے، جس میں کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کے اقدامات اور ممکنہ طور پر فوجی یا معاشی ذرائع سے پاناما نہر اور گرین لینڈ کا ممکنہ حصول شامل ہے۔
انھوں نے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرکے خلیج امریکا رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس کی نشاندہی صارفین کے اعتماد میں تیزی سے کمی کی وجہ سے ہوئی ہے جو معاشی سست روی کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ جاپان میں حکمراں جماعت ایل ڈی پی اپنی پارلیمانی اکثریت کھو چکی ہے۔ جرمنی میں حکومت گر چکی ہے۔ روس یوکرین کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور برطانیہ کو اہم سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔
بیجنگ سے گیارہ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر امریکی معیشت پھل پھول رہی ہے، نیویارک اسٹاک ایکس چینج (این وائی ایس ای) ریکارڈ بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے جو سرمایہ کاروں کے مضبوط اعتماد کی عکاسی ہے۔ امریکی ٹیک سیکٹر اعتماد اور امید سے بھرا ہوا ہے۔ صارفین کا اعتماد زیادہ ہے اور بے روزگاری کم ہے۔ 13ارب پتی افراد پر مشتمل کابینہ میں دولت اور نجی شعبے کی مہارت کا امتزاج ہے، جس میں آگے بڑھنے کی پالیسیوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نئے وزیر خارجہ مارکو روبیو امریکا کی خارجہ پالیسی میں شعلہ انگیز اور غیرمتزلزل برتری لانے کے لیے تیار ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو خاصی بڑی امداد دی تھی، تاہم ٹرمپ ایسے موڈ میں نہیں۔ وہ امریکی مدد ایسے کسی بھی ملک کو لٹانے کے حق میں نہیں۔ یوکرین روس جنگ ختم ہوگئی تو امکانات ہیں کہ آئل، گیس پرائسز کچھ کم ہو جائیں، اس کا پاکستان میں صارفین کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی بنیادی طور پر ٹرمپ کا انیشیٹیو تھی، اس پر عملدرآمد بھی ان کی حکومت ہی کرائے گی۔ دوسری جانب ٹرمپ کے ایجنڈے میں خاصا کچھ مقامی ہے، وہ امریکی حکومت کے اخراجات گھٹانے کی کوشش کریں گے، اس مقصد کے لیے ایلون مسک سے استفادہ کیا جائے گا۔مقامی امریکیوں کی معیشت بہتر بنانے کے لیے بہت سے سکل بیس ٹریننگ پروگرام شروع ہوں گے، نئی جابز نکالی جائیں گی اور جدید اکانومی کے بدلتے رجحانات کی طرف نوجوانوں کو لے جایا جائے گا۔ٹرمپ کو ایلون مسک جیسے وژنری کی خدمات حاصل ہیں جو آوٹ آف باکس سوچ سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اْٹھاتے ہی انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی قبضہ گروپوں اور افراد پر بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پابندیاں ختم کر دیں۔ یہ پابندیاں اْن 78 ایگزیکٹو احکامات میں شامل ہیں جنھیں ٹرمپ نے دفتر سنبھالتے ہی منسوخ کر دیا ہے۔سابق صدر جو بائیڈن کے ایک بڑے پالیسی اقدام کے تحت متعدد اسرائیلی قابضین اور اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور اْن کے امریکی اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے، یہ قابضین یا اسرائیلی آبادکار مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف پْرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 1,660 افغانوں کے لیے پروازیں منسوخ کردیں، جنھیں امریکا میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے کلیئر کر دیا گیا تھا۔ اس فیصلے نے بطور پناہ گزین وہاں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں دیگر افغانوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ گروپ میں بچے بھی شامل ہیں جو امریکا میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں اور وہ افغان شہری بھی جنھیں طالبان سے انتقام کا خطرہ ہے کیونکہ انھوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اس فیصلے نے ان ہزاروں دیگر افغانوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، جنھیں امریکا میں پناہ گزینوں کے طور پر آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی لیکن انھیں ابھی تک افغانستان یا پاکستان سے پروازیں نہیں ملیں۔یقیناً ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس فیصلے سے لوگوں کو طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ افغانستان کو مستقبل میں دی جانے والی مالی امداد کا دارومدار طالبان رہنماؤں کی جانب سے امریکی فوجی ساز و سامان کی واپسی پر ہوگا، جب کہ طالبان نے اربوں مالیت کا امریکی اسلحہ واپس کرنے کے ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان 2021ء میں افغانستان سے نکلنے کے دوران امریکی فوجیوں کے پیچھے چھوڑا گیا کوئی بھی فوجی سازوسامان واپس نہیں کرینگے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہتھیار واپسی کی بجائے، داعش سے لڑنے کے لیے امریکا مزید جدید اسلحہ دے، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی طیارے، سازوسامان اور آلات واپس نہ کیے تو تمام مالی امداد بند کر دینگے، افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔افغانستان میں وارلاڈز اور دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے، ورنہ افغانستان کے پڑوسی ممالک دہشت گردی کا شکار رہیں گے۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس نئے دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھ سکیں گے اور کیا عالمی سطح پر کچھ امن اور سکون پیدا ہو سکے گا؟ ان سوالات کے جوابات ظاہر ہے آنے والا وقت ہی دے گا۔حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔کانگریس اور سینیٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انھیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمت عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ ٹرمپ نے انتہائی جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کی ہے، جس سے بین الاقوامی منظر نامہ غیر مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ سے امریکا کئی ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم اور غیر متوقع جنگی حربے استعمال کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی امریکا میں کی وجہ سے کا سامنا کے ساتھ ٹرمپ کے دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ، 2 امریکیوں کے بدلے ایک افغان شہری رہا
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ، 2 امریکیوں کے بدلے ایک افغان شہری رہا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
کابل (آئی پی ایس )افغان حکومت نے امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا اعلان کردیا۔ افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں قید افغان جنگجو خان محمد امریکی شہریوں کے بدلے رہائی پانے کے بعد وطن واپس پہنچ گیا ہے۔ خان محمد تقریبا دو دہائیاں قبل امریکا میں گرفتار ہونے کے بعد عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، اس پر دہشت گردی اور منشیات کی فروخت کا الزام تھا۔
افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ افغان قیدی کی رہائی کی ڈیل قطرکی ثالثی میں ہوئی۔ وزارت خارجہ نے افغان قیدی کی رہائی کے بدلے رہا کیے جانے والے امریکی شہریوں کی تعداد واضح نہیں کی تاہم امریکی میڈیا کے مطابق افغان قیدی کی رہائی کے بدلے 2 امریکی شہریوں رائن کوربیٹ اورولیم میک کینٹی کو رہا کیا گیا ہے۔