Jasarat News:
2025-04-18@11:20:50 GMT

ایک گلاس دودھ روزانہ:آنتوں کے کینسر سے بچاؤ میں مددگار

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ایک گلاس دودھ روزانہ:آنتوں کے کینسر سے بچاؤ میں مددگار

لندن: طبی ماہرین کی تازہ تحقیق کے نتائج میں پتا چلا ہے کہ روزانہ ایک گلاس دودھ پینے سے آنتوں کے کینسر کا خطرہ 17 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔

برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور کینسر ریسرچ یوکے کے اشتراک سے کی گئی اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دودھ میں موجود کیلشیم آنتوں کی صحت کے لیے حفاظتی اثر رکھتا ہے۔ اس تحقیق میں 16 سال سے زائد عمر کی 5 لاکھ سے زیادہ خواتین کی خوراک کا تجزیہ کیا گیا۔

ماہرین نے تحقیق کے دوران کیلشیم پر مشتمل غذائیں، جیسے دودھ، پتوں والی سبزیاں اور نان ڈیری مصنوعات کو کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں مؤثر پایا گیا۔ اس کے برعکس زیادہ الکوحل اور پراسیسڈ گوشت کا استعمال بھی بیماری کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔

کینسر سے بچاؤ اور متعلقہ مریضوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق سگریٹ نوشی سے پرہیز، صحت مند وزن اور متوازن غذا آنتوں کے کینسر سے بچاؤ کے بہترین عوامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ خوراک میں 300 ملی گرام اضافی کیلشیم شامل کرنا بھی ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ معمولی غذائی تبدیلیاں صحت پر بڑے اثرات مرتب کر سکتی ہیں اور دودھ جیسے سادہ مشروبات آنتوں کی صحت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف

ایک نئی سائنسی تحقیق نے دعوی کیا گیا ہے کہ اربوں سال پہلے زمین نیلی نہیں، بلکہ سبز دکھائی دیتی تھی۔یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ آج سے تقریبا 2.4 ارب سال پہلے آرکین دور کے دوران زمین کے سمندر ہرے رنگ کی چمک رکھتے تھے۔

اس وقت زمینی ماحول میں آکسیجن موجود نہیں تھی اور سمندری فرش سے خارج ہونے والے آتش فشانی مادے سمندروں میں بڑی مقدار میں آئرن (لوہا )شامل کرتے تھے۔ قبل ازیں دنیا کے مشہور سائنسدان اور ٹی وی شو کوسموس کے میزبان کارل سیگن نے زمین کو پیل بلیو ڈاٹ(پھیکا نیلا نقطہ ) قرار دیا تھا جب وائجر1 خلائی جہاز نے زمین کی تصویر خلا سے لی تھی۔نئی تحقیق کے مطابق چونکہ اس وقت آکسیجن کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوہے کی ایک خاص قسم فیروس آئرن پانی میں حل ہوکر موجود ہوتی تھی، جس نے پانی کے رنگ کو متاثر کیا۔

جب بعد میں آکسیجن پیدا کرنے والے خردبینی جاندار (cyanobacteria) نمودار ہوئے تو انہوں نے فوٹوسنتھیسس کے عمل سے آکسیجن پیدا کی۔ اس آکسیجن نے پانی میں موجود آئرن کو فیرک آئرن میں تبدیل کر دیا، جو کہ پانی میں حل نہیں ہو سکتا اور زنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ فیرک آئرن جب پانی میں تیرتا تھا تو وہ سرخ اور نیلی روشنی کو جذب کرتا تھا جبکہ سبز روشنی کو گزرنے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے زمین کے سمندر اس وقت سبز رنگ کے دکھائی دیتے، اور اگر اس وقت کیمرے موجود ہوتے تو زمین خلا سے زمردی سبز نظر آتی۔ سائنسدانوں نے جدید جاندار سائانوبیکٹیریا کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کیا کہ وہ سبز روشنی جذب کرنے والے ایک خاص رنگ فائکوریتھروبیلن کو استعمال کریں۔

تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ جاندار سبز روشنی میں بہتر طور پر نشوونما پاتے ہیں، جس سے یہ مفروضہ تقویت پکڑتا ہے کہ ماضی میں زمین کی فضا اور سمندری ماحول ایسی ہی روشنی کے لیے سازگار تھا۔تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ سمندر کی گہرائی میں پانچ سے بیس میٹر تک بھی لوہے کے ذرات سبز روشنی کو گزرنے دیتے تھے، جس سے پیل گرین ڈاٹ زمین کا تصور مضبوط ہوتا ہے۔ یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر کائنات میں کوئی اور سیارہ خلا سے سبز نظر آئے، تو یہ اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ وہاں زندگی نے ابتدائی مرحلے میں قدم رکھ لیا ہے، خاص طور پر وہ زندگی جو فوٹوسنتھیسس جیسے عمل سے توانائی حاصل کرتی ہو۔ماہرین کا کہنا ہے کہ، ہماری تحقیق ایک نئے رنگ میں زندگی کے آثار دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان: روزانہ 675 بچوں کی صحت کے قابل علاج مسائل کے ہاتھوں موت
  • بھارت: کینسر میں مبتلا شوہر نے بیوی کو قتل کر کے خودکشی کر لی
  • کلونجی، بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ
  • سرکاری نرخ مسترد، ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کا دودھ کی قیمت میں اضافے کا اعلان
  • چہل قدمی کو عادت بنانے کا ایک اور بہترین فائدہ سامنے آگیا
  • کینسر ہوگا یا نہیں، یہ بات لائف اسٹائل کیسے طے کرتا ہے؟
  • ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف