ایکسپورٹ کے شعبہ میں پاکستان دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا سے بھِی پیچھے رہ گیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جنوری2025ء) ایکسپورٹ کے شعبہ میں پاکستان دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا سے بھِی پیچھے رہ گیا، پاکستان اپنی ایکسپورٹ میں نمایاں اضافہ کرنے میں ناکام، دیگر ممالک کی ایکسپورٹ جی ڈی پی کا 27 فیصد ، پاکستان کی ایکسپورٹ جی ڈی پی کا 10 فیصد تک پہنچ سکیں۔ تفصیلات کے مطابق عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں مسلسل گراوٹ کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
پاکستانی معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی ایکسپورٹ گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان مسلسل گراوٹ کا شکار رہی ہے اور اس میں 20 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایکسپورٹ میں کمی کی بنیادی وجہ تجارتی پالیسی ہے، جہاں دیگر ممالک تجارتی رکاوٹوں کو کم کر رہے ہیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی معیشتوں کو مربوط کر رہے ہیں۔(جاری ہے)
پاکستان مخالف سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اس وقت پاکستان کے ٹیرف عالمی اوسط سے کم از کم دو گنا اور مشرقی ایشیا کے ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور سی پیک منصوبوں سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا، ڈومیسٹک ریفارمز کے بغیر کسی بھی ملک نے برآمدات کو بڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان برآمدات کے شعبے میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا، بنگلادیش، بھارت اور حتیٰ کہ مصر کی برآمدات بھی پاکستان سے زیادہ ہیں، دیگر ممالک کی برآمدات جی ڈی پی کا 27 فی صد ہیں، جب کہ پاکستان کی برآمدات 10 فی صد تک محدود ہیں۔ ایک دستاویز کے مطابق 2010 سے 2024 تک ہر سال جی ڈی پی شرح کے لحاظ سے برآمدات کم ہوئی ہے، 2010 میں برآمدات جی ڈی پی کا 13 فی صد تھیں، 2024 میں 10 فی صد رہ گئیں۔ بھارت کی برآمدات جی ڈی پی کا 22 فی صد، بنگلادیش کی 13 فیصد ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی ایکسپورٹ کی برا مدات دیگر ممالک جی ڈی پی کا پاکستان کی کے مطابق
پڑھیں:
کراچی چیمبر کا برآمدات دوست پالیساں وضع کرنے کا مطالبہ
کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) اور پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اگلے5 سالوں کے لیے کاروبار دوست اسٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک (ایس ٹی پی ایف) اور ٹیکسٹائل اینڈ اپیرل پالیسی تیار کرے جس میں ایسے قابل عمل اور حقیقت پسندانہ اقدامات شامل ہوں جن پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جا سکے جیسا کہ 2020-25 کی مدت کے لیے اعلان کردہ متعدد اقدامات ادھورے رہ گئے ہیں۔پی ایچ ایم اے وفد کے کراچی چیمبر کے دورے کے دوران صدر کے سی سی آئی محمد جاوید بلوانی اور مرکزی چیئرمین پی ایچ ایم اے محمد بابرخان نے اس بات پر زور دیا کہ اس سال ختم ہونے والی دونوںاہم پالیسیوں کو بہتر بنایا جائے۔ان پالیسیوں میں موجود ابہام کو ختم کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے پچھلے 5 سالوں میں متعدد مسائل حل نہیں ہوپائے۔دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ جامع اور مؤثر فریم ورک کو یقینی بنانے کے لیے ان پالیسیوں کو کلیدی اسٹیک ہولڈرز بشمول کے سی سی آئی، پی ایچ ایم اے اور مختلف برآمدی ایسوسی ایشنز کے ساتھ قریبی مشاورت کے ذریعے حتمی شکل دی جائیں تاکہ ایک جامع اور مؤثر فریم ورک تیار کیا جا سکے۔اس موقع پر زونل چیئرمین (ساؤتھ) پی ایچ ایم اے فیصل ارشد شیخ، سینئر نائب صدر کے سی سی آئی ضیاء العارفین، نائب صدرفیصل خلیل احمد، سابق چیئرمین پی ایچ ایم اے عبدالجبار غازیانی، زونل وائس چیئرمین (ساؤتھ) پی ایچ ایم اے بشیر غفار، سلمان اسحاق اور کے سی سی آئی منیجنگ کمیٹی کے اراکین کے علاوہ دیگر پی ایچ ایم اے کے نمائندے بھی اجلاس میں موجود تھے۔پی ایچ ایم اے کے مرکزی چیئرمین بابر خان نے کہا کہ یورپی یونین کے جی ایس پی پلس نے پاکستان کو متعدد مصنوعات کی کیٹیگریز میں بنگلہ دیش جیسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس اسٹیٹس نے یورپی یونین سے پاکستان تک کاروبار کی مسلسل روانی کو یقینی بنایا ہے جس سے ملک کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔جی ایس پی پلس اسٹیس ملنے کے بعد سے پاکستان کی50 فیصد سے زائد برآمدات یورپی یونین کے لیے ہیں۔