26ویں ترمیم میں ووٹ دینے والے سپریم کورٹ کی حالت دیکھ لیں، شیر افضل مروت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
فائل فوٹو۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ جنھوں نے 26ویں آئینی ترمیم میں ووٹ دیا تھا وہ سپریم کورٹ کی حالت دیکھ لیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا ایک بینچ کیس لگاتا ہے دوسرے دن توہین عدالت ہوجاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارا پہلا مطالبہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دوسرا جوڈیشل کمیشن ہونا چاہیے، صدر سے اپیل کے لیے ان کا وقت جلد آئے گا۔
عمر ایوب نے کہا کہ مذاکرات کے چوتھے راؤنڈ سے قبل جوڈیشل کمیشن کا قیام ضروری ہے،
شیر افضل مروت نے کہا کہ وزیر قانون اپنے میاں صاحبان کیلئے یہ موقع بچا کر رکھیں، جب نظام عدل بحال ہوگا تو شریف برادران کے کیسز دوبارہ سر اٹھائیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو ہم سڑکوں پر ہوں گے، یہ جعلی طریقے سے حکومت میں آئے ہیں تاکہ لوٹ مار کرسکیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ اس ملک میں عام آدمی کی جاسوسی پہلے سے ہو رہی ہے، کون سا ایسا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ٹیلیفون لائن ہے جو بگ نہیں ہے۔
ہم کوئی ریلیف نہیں انصاف مانگ رہے ہیں، صاحبزادہ حامد رضافیصل آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کو بند کرنے کا حساب دینا ہوگا۔
انھوں نے کہا میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں پی ٹی آئی کا پالیسی اسٹیٹمنٹ دیتا ہوں، میرا چہرہ ہر اس شخص کو پسند نہیں جو سمجھتا ہے کہ میں اس سے آگے نکل گیا ہوں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ کچھ بدبخت جو کچھ نہ کرسکے وہ آج میری ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، جب لوگوں نے خوف سے موبائل بند کیے اس وقت ہم دندناتے پھرتے تھے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: شیر افضل مروت نے کہا نے کہا کہ
پڑھیں:
میرے خلاف کوئی بات کرے گا تو جواب تو دوں گا: شیر افضل مروت
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ پارٹی کا رشتہ نہ ہوتا تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ میرے خلاف باتیں کرے۔
پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میرے خلاف کوئی بات کرے گا تو جواب تو میں دوں گا۔
شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی طرف پوری قوم کی نظر ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ ملک کو موجودہ صورتِ حال سے نکالنے کے لیے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں صاحبان کے درمیان ملاقات سے حکومت کی سنجیدگی کا اشارہ ملتا ہے۔