مدیحہ امام نے دبئی میں شادی سے قبل شوہر کا امتحان کیسے لیا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
پاکستانی اداکارہ اور سابق وی جے مدیحہ امام نے حالیہ انٹرویو میں اپنی محبت کی منفرد کہانی بیان کی۔
مدیحہ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے شوہر، بھارتی کاروباری شخصیت موجی بسر، کو دبئی میں سفر کے دوران پرکھا تھا تاکہ ان کے بارے میں مکمل اطمینان حاصل کرسکیں۔
مدیحہ نے بتایا، "میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ میں اس شخص سے ملنا چاہتی ہوں جس سے میں شادی کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ میں اسے جانچنے کے لیے دبئی میں وقت گزارنا چاہتی ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ سفر کے دوران کسی شخص کی عادات، رویے اور دوسروں کے ساتھ برتاؤ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ "جب آپ کسی کے ساتھ سفر کرتے ہیں تو بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ہم دبئی اور شارجہ گھومے اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھا۔"
مدیحہ اور موجی بسر نے مئی 2023 میں دبئی میں شادی کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا رشتہ طویل فاصلے کی وجہ سے مشکل ہے لیکن وہ محبت اور سمجھداری سے اسے کامیاب بنائے ہوئے ہیں۔
مدیحہ امام نے اپنے کیریئر کا آغاز وی جے کے طور پر کیا اور بعد میں اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں "مجھے وداع کر"، "دشمن جان"، "زخم"، اور 2017 کی بالی ووڈ فلم "ڈیئر مایا" شامل ہیں۔ مدیحہ نے حال ہی میں ڈرامہ سیریل "آئینہ" سے ڈائریکشن میں بھی قدم رکھا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) شمالی پاکستان میں سارا سال برف کی سفید چادر سے ڈھکے رہنے بلند و بالا پہاڑوں کے وادیوں میں رہائش پذیر اور پانی کی کمی سے دوچار کسانوں نے اپنے آئس ٹاور یا برفانی ستون تعمیر کر لیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سردیوں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور برف باری میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔
آن لائن مدد کی تلاشیہ علاقہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا مسکن بھی ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں وادی اسکردو کے کسانوں نے 2,600 میٹر (8,200 فٹ) تک کی بلندی پر اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن مدد تلاش کی۔
ایک مقامی کسان غلام حیدر ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر دریافت کیے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے سرحد کے اس پار دو سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر بھارتی علاقے لداخ میں ماحولیاتی کارکن اور انجینئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھیں، جنہوں نے تقریباً دس سال قبل یہ تکنیک تیار کی تھی۔اس تکنیک کے تحت پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد کر دینے والے درجہ حرارت کے دوران اس کا ہوا میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ''پانی کو ہوا میں اچھالا جانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘‘اس کے بعد یہ برف ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو بدھ مت کے مقدس اسٹوپاز سے ملتی جلتی ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، پھر جب موسم بہار میں درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو برف کا یہ ذخیرہ تسلسل سے پگھلنے لگتا ہے۔
برفانی چوٹیوں کی سر زمینگلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود اور کسی بھی ملک میں برفانی چوٹیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔
قدیم شاہراہ ریشم پر یہ اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں، جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان تک لے جاتی ہیں۔
افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس خطے میں پانی کی زیادہ تر فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے اور گرمیوں میں کسی حد تک برفانی تودوں کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) سے وابستہ محقق شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا، ''اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک یہاں شدید برف باری ہوتی رہتی تھی۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ کافی خشک ہے۔‘‘ پہلے آئس اسٹوپا کی تعمیر سات سال قبلاقوام متحدہ کے تحت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قائم منصوبے جی او ایل ایف۔ ٹو کے صوبائی سربراہ رشید الدین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پہلا ''آئس اسٹوپا‘‘ سن دو ہزار اٹھارہ میں بنایا گیا تھا اور اب بیس سے زائد دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان اسٹوپاز کی بدولت ''سولہ ہزار سے زائد باشندوں کو آبی ذخائر یا ٹینک بنائے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے سب بے بسکسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ اسٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لٹر پانی برف کی شکل میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘‘وادی کے ایک اور کسان علی کاظم نے کہا، ''اس سے پہلے ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان اسٹوپاز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘‘
قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو اگانے والے نوجوان بشیر احمد نے کہا کہ اسٹوپا بنانے سے قبل وہ مئی میں اپنی فصلیں بویا کرتے تھے۔
ان کا کہنا ہے، ''پہلے ہمارے پاس پیداوار کے لیے صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار فصل اگا سکتے ہیں۔‘‘پاکستان میں1981 اور 2005 کے درمیان اوسط درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات والے ممالک کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔
240 ملین کی آبادی والے اس ملک میں زیادہ تر باشندے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کو درکار پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے کا انحصار پڑوسی ممالک سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر ہوتا ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ایک اور مقامی رہائشی یاسر پروی نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی، پوری دنیا غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں برف کے اسٹوپاز کی تعمیر کے ذریعے ہم نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)