انڈونیشیا؛ مٹی کا تودہ گھروں پر گرنے سے 19 افراد جاں بحق اور متعدد لاپتا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
انڈونیشیا میں مسلسل بارشوں کے باعث ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ میں متعدد گھر دب گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے شہر جاوا میں بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔ موسلا دھار بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی ہوئے۔
لینڈ سلائیڈنگ میں مرکزی شاہراہ ٹوٹ گئی اور ملبہ گھروں اور کھیتوں میں گر گیا۔ پورا گاؤں ملیا میٹ ہوگیا۔
امدادی کاموں کے دوران لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہیں۔ 19 افراد کی لاشیں نکالی گئی ہیں جب کہ متعدد افراد تاحال لاپتا ہیں جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔
مٹی کا تودہ گرنے سے ٹوٹنے والی سڑک سے علاقے کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ امدادی ٹیم 4 کلومیٹر پیدل چل کر جائے وقوعہ پر پہنچی۔
مسلسل بارش اور موسم کی خرابی کے باعث متاثرہ علاقے میں امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کا سلسلہ مزید چار پانچ روز تک جاری رہے گا۔ شہری بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حکومت چاہتی تو لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت چاہتی تو لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔
لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ نیا کمیشن سربراہ جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر کو مقرر کردیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت قانون سازی کے ذریعے لاپتا افراد ٹریبونل بنانا چاہتی ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمرکس دیے کہ لاپتا افراد ٹریبونل کے لیے تو قانون سازی کرنا پڑے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون سازی کے لیے کابینہ کمیٹی کام کر رہی ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کتنے عرصے میں قانون سازی کا عمل مکمل ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون تو پہلے سے موجود ہے۔ کسی کو لاپتا کرنا جرم ہے۔ کسی نے جرم کیا ہے تو ٹرائل کریں۔ جرم نہیں کیا تو اس کو چھوڑ دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت ایک مرتبہ لاپتا افراد ایشو کو سیٹ کرنا چاہتی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ حل کرنا ہوتا تو لاپتا افراد کا معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔
جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ اب تک کمیشن نے کتنی لاپتا افراد کی ریکوریاں کی ہیں؟ کیا بازیاب ہونے والے آکر بتاتے کہ وہ کہاں تھے؟، جس پر رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن نے بتایا کہ بازیاب ہونے والے نہیں بتاتے کہ وہ کہاں پر تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد کی قانون سازی کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ حکومت مسئلہ حل کرے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا نہیں کہہ سکتے۔
بعد ازاں عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔