ہمیں اپنے گھروں میں واپسی کیلئے اسرائیل کی اجازت کی ضرورت نہیں، لبنان شہری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں جنرل جوزف عون کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز عالمی و بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کریں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کے عبوری وزیراعظم "نجیب میقاتی" نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ جنرل "گاسپر جفرز" نے انہیں اطلاع دی کہ تل ابیب، بیروت کے ساتھ 60 روزہ جنگ بندی کے اختتام پر جنوبی لبنان میں اپنی موجودگی کو مزید چند روز تک بڑھا سکتا ہے۔ یہ بیانات ایسی صورت حال میں جاری ہو رہے ہیں جب صیہونی میڈیا اسرائیلی سیکورٹی حکام کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے متعدد مرتبہ اس بات کا پردہ چاک کر چکا ہے کہ تل ابیب، جنگ بندی کے معاہدے میں طے شدہ مدت میں لبنان سے باہر نہیں نکلے گا بلکہ وہ لبنانی سرزمین میں واقع اسٹریٹجک مقامات پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ دو روز قبل جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کا "الناقورہ" میں ایک اجلاس ہوا جس میں صیہونی فوج کے نمائندوں نے لبنانی سرزمین سے طے شدہ مدت میں انخلاء کے موضوع پر بات کرنے سے اجتناب کیا۔ آگاہ ذرائع کے مطابق، اس اجلاس میں شریک تمام افراد بھانپ گئے کہ صیہونی فریق، لبنان سے انخلاء کی ڈیڈ لائن میں چند روز کی توسیع چاہتا ہے۔
دوسری جانب لبنان کے صدر جنرل "جوزف عون" نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز عالمی و بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کریں۔ جنرل جوزف عون نے کہا کہ انہیں ان روابط کا مثبت جواب ملا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جنگ بندی میں صیہونی انخلاء سے مربوط لبنانی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے موضوع پر لبنانی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ان تبدیلیوں کے تناظر میں ایک بات سامنے آتی ہے کہ لبنان کے سرحدی علاقوں کی عوام 60 روزہ جنگ بندی کے اختتام کے بعد اپنے گھروں میں واپسی کے لئے اسرائیل یا اس جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی اجازت کے منتظر نہیں۔ کیونکہ 27 نومبر 2024ء کو جنگ بندی سے اب تک بہت سارے لبنانی شہری اپنے گھروں میں واپس آ چکے ہیں۔ تاہم صیہونی فوجی درجنوں دیہاتوں اور شہروں کو خالی کروانے کے ساتھ ساتھ جنوبی لبنان کے باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے راستے میں رکاوٹیں حائل کر رہے ہیں۔
مذکورہ بالا رپورٹس کے تناظر میں جنوبی لبنان کے شہریوں نے اپنی فوج کو مطلع کر دیا ہے کہ آئندہ اتوار کو اسرائیل کو لبنان سے انخلاء کے لیے دی گئی دو ماہ کی مہلت ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے قصبوں اور دیہاتوں میں زبردستی داخل ہو جائیں گے، چاہے اسرائیل پیچھے نہ ہٹے۔ اسی طرح مقامی منتظمین کی جانب سے سرحدی دیہاتوں اور شہروں کے مکینوں کے نام ایک پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں ایک مقرر کردہ مقام پر جمع ہونے اور راستے کی رہنمائی کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اتوار کی صبح تک اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار ہو جائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے گھروں لبنان کے کے ساتھ
پڑھیں:
اسرائیل غزہ کے اسپتالوں کو نشانہ کیوں بناتا ہے؟
غاصب صیہونی رژیم نے غزہ پر جارحیت کے دوران اب تک دسیوں اسپتالوں اور طبی مراکز کو فضول بہانوں سے جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے جس کے بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کا مقصد فلسطینیوں کی نسل کشی، قومی صفایا اور انہیں جبری جلاوطن پر مجبور کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور اس میں اسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی وسیع پیمانے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دراصل اکتوبر 2023ء سے ہی غزہ کے اسپتال اور طبی مراکز صیہونی بربریت کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم مختلف قسم کے فضول بہانوں سے غزہ کے طبی مراکز پر بمباری کرتی آئی ہے جبکہ آزاد ذرائع اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان ان دعووں کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ حال ہی میں صیہونی فوج نے الاہلی العربی اسپتال (المعمدانی) کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے جو اس وقت غزہ میں کام کرنے والا واحد اسپتال ہے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اسپتال کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے اور ایمرجنسی شعبے سمیت میڈیکل اسٹور، لیبارٹری اور آکسیجن پیدا کرنے والے حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ غاصب صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کے آغاز سے ہی اسپتالوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا جن میں غزہ کا سب سے بڑا اسپتال الشفاء بھی شامل تھا۔ 16 نومبر 2023ء کے دن صیہونی فوج نے الشفاء میڈیکل کمپلکس پر حملہ کیا اور دعوی کیا کہ وہاں اسلحہ ہے اور اسپتال کے نیچے حماس کی سرنگیں بھی موجود ہیں۔
غاصب صیہونی فوجیوں نے الشفاء اسپتال کی عمارت اور مختلف حصوں کو مسمار کر دیا لیکن انہیں وہاں وہ نہیں ملا جس کا وہ دعوی کر رہے تھے۔ جب انہیں سمجھ آئی کہ ان کا جھوٹ عیاں ہو چکا ہے تو اسپتال میں سیکورٹی پر مامور غزہ پولیس کا اسلحہ ایک جگہ جمع کیا اور صحافیوں کو بتایا کہ یہ اسلحہ حماس کے مجاہدین کا ہے۔ اس کے بعد صیہونی فوج وہاں سے پیچھے ہٹ گئی۔ 18 مارچ 2024ء کے دن صیہونی فوج نے اچانک دوبارہ الشفاء اسپتال پر حملہ کیا اور دو ہفتے تک انتہائی بربریت سے عام فلسطینی شہریوں کا قتل عام کرتے رہے۔ اس حملے میں الشفاء اسپتال مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ ناروے کا ڈاکٹر میڈس گیلبرٹ جس نے 16 سال تک الشفاء میڈیکل کمپلکس میں کام کیا تھا اس بارے میں کہتا ہے کہ صیہونی رژیم کا دعوی مکمل طور پر جھوٹا تھا اور وہاں انہیں نہ تو کوئی اسلحہ ملا اور نہ ہی حماس کی سرنگیں یا ہیڈکوارٹر ملا۔ گیلبرٹ نے مزید کہا: "میں نے 16 سال تک الشفاء میڈیکل کمپلکس میں کام کیا ہے۔ میں اس کے چپے چپے سے واقف ہوں اور ہر جگہ کی تصاویر اور ویڈیوز بنا چکا ہوں۔ میں نے اسپتال کے عملے سے بات چیت کی ہے اور وہاں راتیں گزاری ہیں۔ اس مدت میں کبھی بھی میں نے وہاں کوئی فوجی مرکز یا سرگرمی نہیں دیکھی۔"
غاصب صیہونی فوج نے اسی بہانے غزہ کے دیگر اسپتالوں کو بھی کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے جن میں انڈونیشیا اسپتال اور کمال عدوان اسپتال بھی شامل ہیں۔ صیہونی فوج نے بیت حانون اسپتال کو بھی جان بوجھ کر تباہ کر دیا۔ صیہونی فوجیوں نے کمال عدوان اسپتال پر حملہ کر کے وہاں کے سربراہ حسام ابو صفیہ سمیت پورے عملے کو قیدی بنا لیا تھا۔ کمال عدوان سے زخمیوں اور مریضوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دیا گیا اور اس کے بعد اسپتال کو تباہ کر دیا۔ غزہ کے دیگر اسپتال جیسے الصداقہ اسپتال، القدس اسپتال، شہداء الاقصی اسپتال، ناصر اسپتال اور ابو یوسف النجار اسپتال بھی صیہونی جارحیت سے نہیں بچ پائے ہیں۔ تقریباً تمام تجزیہ کار اس بارے میں متفق ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ کے اسپتالوں اور طبی مراکز کو جان بوجھ کر تباہ کر رہی ہے جس کا واحد مقصد غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر یہاں سے جلاوطن کرنا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں کسی قسم کی کوئی سہولت باقی نہ رہے اور وہ زندگی کے قابل ہی نہ رہے تاکہ فلسطینی وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہو جائیں۔ لہذا صیہونی فوج غزہ سے فلسطینیوں کے قومی صفایا کرنے کی خاطر پانی اور بجلی کے انفرااسٹرکچر اور طبی مراکز کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔