اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جنوری ۔2025 )وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پچھلے چھ ماہ کے دوران برآمدات میں 11 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ خوش آئند ہے اور اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے سالوں میں ملکی معیشت قدرے مستحکم ہوسکے گی .

(جاری ہے)

ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چھ ماہ میں ملک کی مجموعی برآمدات 16 ارب 63 کروڑ امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہیں تاہم اسی عرصے کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھا ہے اور چھ ماہ میں درآمدات میں بھی 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس سے پاکستان کی درآمدات بڑھ کر 27 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں جبکہ ملک کا تجارتی خسارہ تقریباً ساڑھے گیارہ ارب ڈالر بنتا ہے.

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق برآمدات میں اضافے کو بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کم قرار دیا جارہا ہے پاکستان فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس کے صدر عاطف اکرام شیخ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں یورپی ممالک کو پاکستانی برآمدات میں تقریباً چار ارب ڈالر کا بڑا اضافہ انتہائی خوش آئند ہے یورپی یونین کی جانب سے ترجیحی درجہ ملنے یعنی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی بدولت بیشتر پاکستانی مصنوعات کو یورپی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری اور ترجیحی داخلے کی اجازت ہے برطانیہ، نیدرلینڈز، فرانس، جرمنی اور بیلجیم سمیت شمالی اور مشرقی یورپ پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی بنے ہوئے ہیں.

عاطف اکرام شیخ کا کہنا ہے کہ بہتر معاشی پالیسیوں کی بدولت صنعتوں کی بحالی اور اقتصادی ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے حکومت بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو فعال کرے اور انہیں برآمدات میں اضافے کے لیے ٹارگٹس سونپے جائیں انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر برآمدات میں اضافے اور صنعتی ترقی کے لیے توانائی کی قیمتوں اور شرح سود میں مزید کمی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں.

ملک کے سب سے بڑے برآمدی سیکٹر یعنی ٹیکسٹائل میں بھی گزشتہ سال کی نسبت ریکوری دیکھی جارہی ہے تجزیہ کار محمد سہیل کے خیال میں اس کے کے پیچھے متعدد عوامل موجود ہیں جن میں گزشتہ سال کپاس کی زیادہ بہتر فصل کے علاوہ بنگلہ دیش میں حالیہ عرصے میں اندرونی تنازعات اور چین پر ٹیرف کی وجہ سے ان دونوں بڑے ٹیکسٹائل برآمدی ممالک کے آرڈرز پاکستان کو ملنا شامل ہیں.

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکسٹائل کے شعبے کی مدد کے لیے کلیدی اقدامات پر عمل درآمد کرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ برآمدات میں مزید اضافے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے، اسمال اور میڈیم سائز انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے آسان اقساط پر قرض فراہم کیے جائیں اور انفرااسٹرکچر کے مسائل کو دور کیا جائے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے برآمدات میں اضافے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

’’اڑان پاکستان‘‘ وہ کامیابی کی کنجی جس پر شہباز شریف کی دسترس ہے

لاہور (فیصل ادریس بٹ) وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے’’اڑان پاکستان‘‘ کے عنوان سے دس سالہ معاشی پروگرام پیش کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 2035ء تک ملکی معیشت کا حجم ایک کھرب ڈالر اور 2047ء تک تین کھرب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ جو بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی حکومت نے کبھی معاشی محاذ پر ایسے منصوبے پیش نہیں کئے ہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمی کے تینوں ادوار میں اسی طرح کے گیم چینجر پراجیکٹس لائے جاتے رہے ہیں۔  اڑان پاکستان پروگرام اور وژن سنٹرل ایشیا جیسے انقلابی منصوبے اصل میں نوازشریف کے ہی برین چائلڈ ہیں جن پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باوجود ملک کو معاشی لحاظ سے کامیاب کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم اپنی بے مثال محنت، لگن، وژن سے کامیاب کیا ہے اور اس کا کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں شہباز شریف کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا جنہوں نے اڑان پاکستان جیسا پروگرام متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں پانچ سیکٹرز انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ، زراعت، معدنیات، افرادی قوت اور بلیو اکانومی کے فروغ سے برآمدات کو سالانہ 60 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے تحت سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کرنے، درآمدات پر انحصار کم کرنے اور پائیدار ترقی کے اقتصادی امکانات کو بڑھانے کیلئے ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعات کو عالمی معیار کے طور پر برانڈ کرنے کیلئے کام کیا جائے گا اور ایسا بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ میڈ ان پاکستان پراڈکٹس کو پروموٹ کیا جارہا ہے اور یہی وہ کامیابی کی کنجی ہے جس پر شہباز شریف کی دسترس ہوچکی ہے اور اب پاکستان کو دنیا بھر میں اڑان بھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہباز شریف کی قیادت نے واضح کردیا ہے عزم وہمت سے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان میں معاشی پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل کرنا بہت ہی کٹھن و دشوار رہا ہے۔ سی پیک کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ان سب معاملات کے باوجود معیشت کو نہ صرف سنبھال لیا مہنگائی میں کمی کرکے عام آدمی کو ریلیف دے دیا اور اب مستقبل کا معاشی پلان بھی سامنے لے آنا شہباز شریف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ حکومت کے مطابق اڑان پاکستان پروگرام میں قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے متعلقہ قوانین کو آسان بنانے کے علاوہ مختلف مراعات بھی دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کو ترقی دینے کیلئے تحقیق، اختراع اور صنعتی ترقی کے حامل آئیڈیاز و منصوبوں کیلئے فنڈز اور گرانٹس کی شکل میں مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں عوامی شراکت داری کیلئے پبلک، پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں تاکہ نجی شعبے کو سرمایہ کاری کیلئے پیداواری مواقع فراہم کر کے غیر پیداواری شعبوں میں منجمد سرمائے کو گردش میں لایا جا سکے۔ اس پروگرام کے دیگر اہم اہداف میں یونیورسل ہیلتھ کوریج انڈیکس کو 12 فیصد تک بڑھانا، شرح خواندگی میں 10فیصد اضافہ، لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت میں 17 فیصد اضافہ، نوجوانوں کی بے روزگاری کو چھ فیصد تک کم کرنا اور گڈ گورننس کو فروغ دے کر حکومت کے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا شامل ہے۔ بنیادی اہداف کے تناظر میں یہ دس سالہ معاشی پروگرام خوش آئند ہے کیونکہ ماضی میں اس حوالے سے حکومتوں کو خاص طور پر تنقید کا سامنا رہا ہے کہ طویل المدت بنیادوں پر پالیسی سازی کا عمل ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ تاہم اس منصوبے کے آغاز سے قبل ان بنیادی مسائل کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے جن کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے۔ ان مسائل کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں حل کئے بغیر پاکستان میں ترقی یا معاشی استحکام ناممکن ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کا مجموعی جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ برآمدات کا مجموعی حجم 30 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معاشی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے جبکہ مینو فیکچرنگ سیکٹر کی شرح نمو منفی ہے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور 2026 تک یہ شرح 40 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ ایسے میں اس پروگرام کے تحت طے کیے گئے اہداف پاکستان کی معیشت کے موجودہ اشاریوں کے مقابلے میں قدرے غیر حقیقی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں قومی معیشت کے حجم کو ایک کھرب ڈالر کرنے کے ہدف کو امید یا خواہش قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ہدف حاصل ہونا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اس وقت حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے کردہ محصولات کی وصولیوں میں کمی کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں انرجی ٹیرف میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کا عمل کافی عرصے سے منجمد ہے۔ ایسے میں ایک سال کے اندر برآمدات کا حجم 30ارب ڈالر سے بڑھا کر 60ارب ڈالر کرنے کا ہدف حاصل کرنا کارے دارد ہے۔ تاہم اگر حکومت اس حوالے سے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس دس سالہ معاشی پروگرام کے اہداف حاصل کرنے کیلئے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر انہیں درپیش مسائل کو فوری حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے جس کیلئے ’’ای پاکستان‘‘ کے تحت فری لانسنگ انڈسٹری بالخصوص انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کیلئے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ کی فراہمی اور سپیڈ میں تعطل یا رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ سو ملین سے زیادہ صارفین تک موبائل کنیکٹویٹی بڑھانے، آرٹیفشل انٹیلی جنس پر مبنی جدید فریم ورک تیار کرنے اور سائبر سکیورٹی کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی۔ اسی طرح ٹیکنالوجی بیسڈ ’’سٹارٹ اپس‘‘ کو فروغ دینے کیلئے مناسب ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی آئی ٹی کمپنیاں اور سٹارٹ اپس بھی ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد مالیت کی عالمی کمپنیوں میں شامل ہو سکیں۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد مالیت کی 1500کمپنیوں میں سے 703 کا تعلق امریکہ اور 110 کا بھارت سے ہے جبکہ پاکستان میں بڑے سے بڑا کاروباری ادارہ یا گروپ بھی اس فہرست میں شامل نہیں۔ اسی طرح فرنیچر مینوفیکچرنگ، فیشن اور مذہبی سیاحت کے شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں پاکستان کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں جہاں پاکستان کے فرنیچر اور فیشن سے متعلقہ مصنوعات اور سروسز کی بہت زیادہ مانگ ہے وہیں مذہبی سیاحت کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں آباد مختلف مذاہب بالخصوس سکھ اور بدھ مت کمیونٹی کیلئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شعبوں کو صنعت کا درجہ دیا جائے تاکہ ان شعبوں میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے کھولے جا سکیں۔ جس طرح کی امید شہباز شریف نے پاکستان کو دی ہے اب اس پر اسی تیزی سے عمل درامد ہونا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی نقشے پر ایک مضبوط معاشی وخود مختار ریاست کے طور پر ہمیشہ قائم و دائم اور چمکتا و دمکتا رہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
  • تجارتی تحفظ پسندی اور عالمی معاشی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے، اقتصادی ماہرین
  • ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملک بھر میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
  • ’’اڑان پاکستان‘‘ وہ کامیابی کی کنجی جس پر شہباز شریف کی دسترس ہے
  • خام مال کی بڑھتی قیمتوں اور زائد پیداواری لاگت کے باوجود ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں اضافہ
  • روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ
  • سونے کی قیمت میں 500 روپے کا بڑا اضافہ
  • 2 دہائیوں میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں 20 فیصد تک کمی ہوئی
  • رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ