پاک افغان حکومتوں کا براہ راست رابطہ ضروری ہے، سکندر شیرپاؤ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
سکندر حیات خان شیرپاؤ— فائل فوٹو
قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر حیات خان شیرپاؤ نے کہا ہے کہ پاک افغان حکومتوں کا براہ راست رابطہ ضروری ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سکندر حیات خان شیرپاؤ نے کہا کہ دونوں ممالک میں تجارت اور دہشتگردی جیسے مسائل پر تعاون ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر اور وزیراعلیٰ کے پی کو علاقائی سیاست سے باہر آنا چاہیے، صوبے کے امن و امان کے مسائل سے متعلق تمام سیاسی قیادت متفق ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ شارک مچھلیوں نے کاٹ کاٹ کر انٹرنیٹ کیبل کا ستیاناس کر دیا ہے۔
سکندر شیرپاؤ نے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں سیاسی قائدین نے امن و امان پر خدشات کا اظہار کیا، آرمی چیف نے سیاسی قائدین سے مسائل کے حل کے لیے تجاویز طلب کیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آَئی بیرسٹر گوہر نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو کیسز کی غیر ضروری منتقلی سے روکنے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ میں کیسز کی منتقلی بغیر قانونی جواز کے کرنے سے روک دیا ہے عدالت کی جانب سے یہ واضح ہدایت دی گئی ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار آئندہ کسی بھی کیس کی ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے وقت عدالتی گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کیے گئے کیسز کو واپس دیگر بینچز میں بھیجنے کا عمل بھی روک دیا جائے عدالت نے حکم دیا کہ جب تک فل کورٹ ہائیکورٹ رولز سے متعلق مزید رائے نہیں دیتا تب تک انہی جاری کردہ گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کیا جائے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل بینچ نے اس معاملے پر بارہ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا عدالت نے واضح کیا ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل صرف اسی صورت میں سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ میں کیس بھیج سکتا ہے جب اس کے لیے واضح قانونی جواز موجود ہو جیسے کہ قانون کی تشریح درکار ہو یا ایک جیسے نوعیت کے کیسز سامنے ہوں عدالت نے یہ بھی ہدایت جاری کی ہے کہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق کیسز فکس کرنے یا مارک کرنے کا اختیار تو ڈپٹی رجسٹرار کے پاس ہے لیکن اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کوئی کیس واپس لے یا کسی اور بینچ کے سامنے مقرر کرے چیف جسٹس کے پاس روسٹر کی منظوری کا اختیار ہے لیکن کیسز کی مارکنگ اور فکسنگ کا عمل صرف ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے دائرہ کار میں آتا ہے فیصلے میں آصف زرداری کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جہاں عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ اختیار جج کے پاس ہے کہ وہ کیس سنے یا نہیں اور جب جج نے نہ تو معذرت کی اور نہ ہی جانبداری کا کوئی پہلو سامنے آیا تو پھر کیس کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں تھا عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ انتظامی سطح پر آفس کی جانب سے قائم مقام چیف جسٹس کی معاونت مناسب انداز میں نہیں کی گئی یہ عدالتی فیصلہ عدالتی نظام میں شفافیت اور قانونی دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے