پاکستان میں کرومیم ایسک کے ذخائر کی منظم تلاش امید افزا مواقع فراہم کرتی ہے.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جنوری ۔2025 )پاکستان میں کرومیم ایسک کے ذخائر کی منظم تلاش گھریلو صنعت اور برآمدات کے لیے ایک امید افزا موقع فراہم کرتی ہے کوہ دلیل مائننگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف جیولوجسٹ عبدالبشیر نے کہا کہ اس کان کنی کے حصے کو زیادہ پائیدار اور منافع بخش بنانا بہت ضروری ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ کرومیم ان الٹرامافک چٹانوں کے اندر پھیلے ہوئے اناج، رگوں یا مرتکز عدسوں کے طور پر ہو سکتا ہے کچھ معاملات میں کرومیم ایسک کو تلچھٹ کے ذرات یا کرومیم ایسک سے بھرپور تہوں کے طور پر منتقل اور جمع کیا جا سکتا ہے انہوں نے کہاکہ کرومیم ایک اہم ٹریس عنصر ہے کرومائٹ، یوواروائٹ اور کروکوائٹ مختلف ارضیاتی ماحول پر منحصر ہے کرومیم ایسک کے ذخائر کے ساتھ دیگر آلات یا متعلقہ معدنیات میں پائروکسین، زیتون، سرپینٹائن، میگنیسائٹ، ٹیلک، اور الٹرامفک چٹانوں سے وابستہ دیگر معدنیات شامل ہو سکتی ہیں. انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرومائٹ کے ممکنہ ذخائر کا تخمینہ تقریبا 4.5 ملین میٹرک ٹن ہے منظم تلاش کچھ اور ذخائر کو نمایاں کر سکتی ہے کرومیم ایسک کے ذخائر وڈھ، خضدار، بیلہ، خانوزئی، مسلم باغ، ژوب، وزیرستان، جیجل کمپلیکس، نسائی، گوال، راس کوہ پہاڑی سلسلے، گلستان، چمن، میانوالی اور شانگلہ میں پائے جاتے ہیں. انہوںنے کہاکہ کرومیم ایسک کے مختلف درجات مختلف صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ کرومیم مختلف صنعتی ایپلی کیشنز میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اس کا استعمال سٹینلیس سٹیل، دھاتی سیرامکس، مصنوعی یاقوت، ریفریکٹری میٹریل اور اینٹوں کو چلانے کے لیے سانچوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے اس کی انتہائی نوعیت کی وجہ سے، کرومیم کا استعمال مختلف دھاتوں کو الیکٹروپلیٹ کرنے اور چمکدار ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے یہ ڈائی مینوفیکچرنگ، پینٹ، پگمنٹ اور کیمیائی صنعت میں استعمال ہوتا ہے. ماہر ارضیات نے کہا کہ کرومیم وسیع پیمانے پر مختلف اسٹیل اور حرارت سے بچنے والے مرکبات تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان ایپلی کیشنز میں مزید استعمال کیا جا سکے جہاں اعلی درجہ حرارت، طاقت اور سختی کے خلاف مزاحمت اہم ہے کیمیکل گریڈ کرومیم کو کرومک ایسڈ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کیمیکل گریڈ کرومائٹ کے لیے چھوٹے پیمانے پر مقامی مارکیٹ موجود ہے غیر پروسیس شدہ میٹالرجیکل گریڈ کرومیم ایسک کی ایک بڑی مقدار برآمد کی جاتی ہے جس کی جانچ پڑتال ضروری ہے کرومیم ایسک کی پراسیس شدہ برآمد سے کان کنی کی صنعت اور خزانے سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچے گا. انہوںنے کہاکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں مقامی طور پر قائم پلانٹس زیادہ تر کروم ایسک کو 30 سے 45 اور 50فیصدتک اپ گریڈ کرتے ہیں حکومت کو معیار کو بہتر بنانے کے لیے مزید جدید ترین اپ گریڈیشن یونٹس قائم کرنے میں مدد کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ نکالنے اور پروسیسنگ کی جدید تکنیکوں کو بھی متعارف کرانے کی ضرورت ہے اس طرح کے طریقوں کی کمی کے نتیجے میں ناکاریاں، کم پیداوار، زیادہ لاگت اور کرومیم ایسک کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کی صنعت کی صلاحیت کو محدود کرنا پڑتا ہے پاکستان کو کرومیم نکالنے اور اس پر کارروائی کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت لچکدار پالیسیاں بنائے اور مراعات میں توسیع کرے. ماہر ارضیات اور کان کنی عمران بابر نے کہاکہ بلوچستان کرومیم کے ذخائر سے مالا مال ہے لیکن اس کی پروسیسنگ اور سائنسی کان کنی کے بارے میں آگاہی اور تربیت کا فقدان معاشی نقصان کا باعث بن رہا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کو کرومیم کی کان کنی کی ترغیب دینی چاہیے انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو غیر پروسیس شدہ کرومیم ایسک کی برآمد پر پابندی لگا دینی چاہیے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرومیم ایسک کے ذخائر انہوں نے کہا کہ کرومیم ایسک کی پاکستان میں کیا جاتا ہے کہ کرومیم نے کہاکہ کان کنی کے لیے
پڑھیں:
عالمی تجارتی جنگ اور پاکستان کے لیے مواقع
حال ہی میں امریکا نے عوامی جمہوریہ چین پر مزید محصولات بڑھا کر عالمی تجارتی جنگ کی لَو کو مزید تیزکردیا ہے، ادھر چین نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ اس تجارتی جنگ کو لڑے گا۔ امریکا نے دیگر بہت سے ملکوں پر ٹیرف میں اضافہ کر کے عالمی باہمی تجارت کو سست روی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ امریکی اقدامات سے بین الاقوامی تجارت کساد بازاری کا شکار ہو کر امریکی معیشت کو مہنگائی کے نرغے میں جھونک دے گا۔
امریکی صدر کے ٹیرف والی تجارتی جنگ نے عالمی معاشی صورت حال میں مخدوش حالات کو جنم دینا شروع کردیا ہے۔ تیل کی عالمی قیمت کم ہو رہی ہے، ڈالرکی عالمی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ کئی ملکوں کی اسٹاک ایکسچینج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن پر پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ٹیرف عائد کردیا گیا ہے، ان کی امریکا کے لیے برآمدات میں کمی ہوگی۔ اس صورت حال میں پاکستان پر بھی ٹیرف میں اضافہ کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بہت زیادہ کاروباری سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے پاکستان اپنے لیے بہتر حالات کا انتخاب کر سکتا ہے۔
پہلے ہم اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ عموماً پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات کا حصہ 16 سے 18 فی صد تک بنتا ہے اور یہ امریکا ہی ہے جس کی درآمدات کم اور برآمدی مالیت زیادہ ہے۔ یعنی پاکستان امریکا کو برآمدات کے مقابلے میں امریکا سے کم مالیت کی درآمدات کے نتیجے میں امریکا کے ساتھ تجارت پاکستان کے حق میں کر لیتا ہے۔
اب اس میں کمی کے خدشات لاحق ہو چکے ہیں۔ اب اس کے لیے جولائی تا دسمبر 2024 میں امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات جس کی مالیت 8 کھرب6 ارب 93 کروڑ روپے بنتی ہے اور شیئر 17.45 فی صد بنتا ہے اور پاکستان کے ٹاپ ٹوئنٹی ایسے ممالک جن کے لیے پاکستان کی زیادہ برآمدات کی جاتی ہیں، ان میں اس شیئر کے ساتھ امریکا تقریباً ہمیشہ سرفہرست ہی رہا ہے۔
اس طرح ایک اندازے کے مطابق امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 5 تا 6 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ اب اس میں بعض اندازے یہ پیش کیے جا رہے ہیں کہ 70 تا 80 کروڑ ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے اگر امریکا کا افراط زر جوکہ اب سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کی مانند ہوتا جا رہا ہے لہٰذا مہنگائی کا بڑھتا ہوا گراف پاکستانی برآمدات میں ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ کمی لا سکتا ہے، لیکن ان خدشات کے ساتھ امکانات بھی زیادہ ہیں۔ مثلاً پاکستان میں انھی دنوں بجلی کے نرخوں میں کمی ہوئی، ساتھ ہی عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں میں کمی کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اس طرح لاگت میں کمی کا فائدہ امریکی درآمد کنندگان کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ دوسرے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن پر پاکستان کی نسبت زیادہ ٹیرف عائد کردیا گیا ہے جیسے ویتنام پر۔ مثلاً ویتنام کی طرف سے امریکا کو کی جانے والی برآمدات کی مالیت 120 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی۔ اگرچہ اقتصادی سست روی کے باعث اس میں 12 فی صد کی کمی بھی ہوئی ہے، لیکن بہت سی برآمدات رہی ہیں جوکہ پاکستان بھی برآمد کرتا ہے اور دیگر ممالک بھی برآمد کرتے تھے جن پر اب زیادہ ٹیرف عائد کر دیا گیا ہے۔
اگر 120 ڈالر کا 10 سے 15 فی صد بھی پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگا، لیکن اس سلسلے میں امریکا میں آنے والی مہنگائی اور وہ ممالک جن کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں جیسے ویتنام کو ہی لے لیں اور دیگر کئی ممالک میں دیکھنا ہوگا کہ ان کی طرف سے کیا لائحہ عمل طے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ مذاکرات کے لیے 70 ممالک نے رابطہ کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستانی تجارتی وفد کی بھی اس سلسلے میں واشنگٹن یاترا کے موقع پر مذاکرات ہوں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عالمی تجارتی جنگ کو پاکستان نے امریکا میں ہی جا کر لڑنا ہے۔ اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ اول وہ تمام پاکستانی ایکسپورٹرز، امریکا کے امپورٹرز پاکستانی نژاد ، امریکی تاجر، پاکستان کے سفارتی اہلکار مختلف ریاستوں میں پاکستان کے تجارتی اتاشی یا کامرس سے متعلق افراد اور پاکستان کے معاشی حکام اور ملک کی تجارت خارجہ کے ماہرین اور دیگر مل کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر حکومت کی قیادت میں بھرپور کام کریں جدوجہد کریں، کوشش کریں اور حقیقی معنوں میں یہ کوشش اس طرح ہو سکتی ہے جیساکہ پاکستان کو پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی کن مصنوعات کے بارے میں وہاں کی مارکیٹ اور متاثرہ ممالک کی ایکسپورٹ کا جائزہ لے کر یہ تعین یا معلوم کر سکتا ہے کہ وہ کن اشیا کو امریکا کے لیے سستی برآمد کرنے کے لیے وہاں مارکیٹنگ کر سکتا ہے۔
اس کے لیے حقیقی معنوں میں کوشش اس طرح یا دیگر کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک ملک ہے جس کی مصنوعات میں سے فرنیچر، جوتے اور لیدر کی مصنوعات، کپڑے وغیرہ اب امریکا میں مہنگے ہوگئے ہیں تو اب پاکستانی اس کام کے لیے ان کے معیار کے مطابق وہ اشیا اگر قدرے یا مناسب سستی فراہم کرسکتا ہے تو یقینی طور پر امریکی امپورٹرز کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن ہماری مصنوعات کیسے ان کے معیار کے مطابق ہو سکتی ہیں۔
اس بات کے لیے کوشش کرنا ہوگی، سب کو ایک پلیٹ فارم پر رہ کر ہی تدبیر اور اچھے طریقے سے کام کرنے کی صورت میں پاکستان کی امریکا کے لیے برآمدات دو ارب ڈالر سے بھی زائد بڑھائی جا سکتی ہیں۔ بشرطیکہ پاکستان سے متعلقہ افراد تاجر، صنعتکار اور امریکا میں مقیم سفارتی عملہ تجارتی اتاشی اور دیگر مل کر یہ جنگ امریکا میں ہی لڑتے ہیں اور وہاں رہ کر صحیح سمت میں فائدہ مند کام کر لیتے ہیں تو اس عالمی تجارتی جنگ سے پاکستان اپنے لیے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔