الیکشن کمیشن کا کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا تاثر حقائق کے برعکس قرار
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا تاثرحقائق کے برعکس ہے۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کے نااہلی فیصلے کو دوبارہ ویب سائٹ پراپ لوڈ کردیا ہے، تبصرہ نگار رائے دینے سے قبل ایک بار فیصلہ پڑھ کرفیصلہ کریں کہ کون سا ادارہ جانبدار ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق عادل بازئی بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی رکن منتخب ہوئے نوٹیفیکیشن 15 فروری کو ہوا، 16 فروری 2024 کوعادل بازئی نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا بیان حلفی پارٹی قیادت کوجمع کرایا۔عادل بازئی کا (ن) لیگ میں شمولیت کا بیان حلفی 18 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن کو موصول ہوا، عادل بازئی کی ن لیگ میں شمولیت کی منظوری 19 فروری 2024 کو ای سی پی نے دی۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن اسپیکر سے ڈیکلیئریشن وصولی کے 30روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔
پنجاب کے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی، میٹرک کے مضامین کے گروپس میں اضافہ کر دیا گیا
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عادل بازئی نے دو نومبر تک اپنی پارٹی وابستگی پر خاموشی اختیار کی۔ریفرنس دائر ہونے کے بعد عادل بازئی نےمقامی عدالت میں درخواست دائر کی۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن
پڑھیں:
الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا ،عدالت
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔عدالت عظمیٰ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی
تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کرسکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حق رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمے داری نبھانے میں ناکام رہا۔اضافی نوٹ میں جسٹس عائشہ نے لکھا کہ چونکہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا اس لیے جب انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ تو دیکھا اور نہ ہی 16 فروری 2024ء کے حلف نامے کے حوالے سے اس کے مؤقف پر غور کیا سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے قبول کرلیا اور اور اس بنیاد پر کارروائی کی، اس عمل نے اپیل کنندہ کے انصاف اور شفاف سماعت کے حق کی خلاف ورزی کی اور ان لوگوں کے حقِ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی جنہوں نے اپیل کنندہ کو ووٹ دیا، یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ جو الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض اور آئین کے دیے گئے معیارات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور غیرجانبداری سے کام کرے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا ہے کہ انتخابات جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کیعمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے بصورت دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کا غیرجانب دار محافظ رہنا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا، عوامی ووٹ کی بالادستی اس تصور کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک جمہوری نظام میں اختیار اور قانونی حیثیت عوام کی رضامندی سے حاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔علاوہ ازیںایک دوسرے کیس میں عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر تیاری کے لیے مہلت دے دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے عمران خان کے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو متعلقہ فورم پر جانا چاہیے تھا، فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔وکیل نے موقف اپنایا کہ میں صرف اعتراضات دور کرنے آیا تھا آپ میرٹ پر بات کر رہے ہیں، جو 8 فروری کو ہوا تھا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک سارا الیکشن ہی غلط تھا؟ ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری ہوگی، پہلے بھی انتخابات دھاندلی کا ایشو اٹھا تھا، انکوائری کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا، 184 کے تحت دائرہ اختیار عدالت کا نہیں ہے۔وکیل نے کہا کہ یہ اس عدالت کی کمزوری ہے کہ ابھی تک سوموٹو نہیں لے سکی، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے الفاظ کا چناؤ دیکھ کر کریں۔عدالت نے وکیل کو مزید تیاری کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔