الیکشن کمیشن کا کسی ایک سیاسی جماعت کیطرف جھکاؤ کا تاثر غلط ہے، ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کمیشن کا کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔
الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کے عادل بازئی سے متعلق اعلامیہ جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کے فیصلے کو دوبارہ ویب سائٹ پر آویزاں کردیا۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تبصرہ نگار اپنی رائے سے قبل ایک دفعہ فیصلے کو غور سے پڑھ کر فیصلہ کریں کہ کونسا ادارہ جانبدار ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن اسپیکر قومی اسمبلی سے ڈیکلیئریشن کی وصولی کے 30دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ ریکارڈ کے مطابق عادل بازئی آزاد امیدوارکی حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ نوٹیفیکیشن 15 فروری کو جاری ہوا۔ عادل بازئی نے 3 دن کی میعاد کے اندر 16 فروری کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کا بیان حلفی پارٹی قیادت کو جمع کروایا۔ عادل بازئی کا بیان حلفی 18 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن کو موصول ہوا۔
اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) نے 19 فروری 2024 کو عادل بازئی کی ن لیگ میں شمولیت کی منظوری دی۔ الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کی شمولیت سے متعلق قومی اسمبلی کو 25 اپریل 2024کو مطلع کیا۔ قومی اسمبلی نے اپنی ویب سائٹ پر نمبر256 پرعادل بازئی کانام مسلم لیگ (ن) کی فہرست میں شامل کیا۔عادل بازئی 25 اپریل سے 2 نومبر 2024 تک اپنی پارٹی وابستگی پر خاموش رہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ریفرنس دائر ہونے کے بعد2 نومبر 2024 کو عادل بازئی نے اس سے متعلق مقامی عدالت میں درخواست دائر کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کے متن کے مطابق عادل بازئی نے فنانس بل پر ووٹنگ کے دوران بل کے حق میں ووٹ نہیں دیا اور 26 ویں آئینی ترمیم کی رائے شماری کے وقت بھی حصہ نہیں لیا۔
عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرکے نشست خالی قرار دے دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عادل بازئی کی الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے مطابق
پڑھیں:
الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا ،عدالت
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔عدالت عظمیٰ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی
تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کرسکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حق رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمے داری نبھانے میں ناکام رہا۔اضافی نوٹ میں جسٹس عائشہ نے لکھا کہ چونکہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا اس لیے جب انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ تو دیکھا اور نہ ہی 16 فروری 2024ء کے حلف نامے کے حوالے سے اس کے مؤقف پر غور کیا سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے قبول کرلیا اور اور اس بنیاد پر کارروائی کی، اس عمل نے اپیل کنندہ کے انصاف اور شفاف سماعت کے حق کی خلاف ورزی کی اور ان لوگوں کے حقِ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی جنہوں نے اپیل کنندہ کو ووٹ دیا، یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ جو الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض اور آئین کے دیے گئے معیارات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور غیرجانبداری سے کام کرے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا ہے کہ انتخابات جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کیعمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے بصورت دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کا غیرجانب دار محافظ رہنا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا، عوامی ووٹ کی بالادستی اس تصور کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک جمہوری نظام میں اختیار اور قانونی حیثیت عوام کی رضامندی سے حاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔علاوہ ازیںایک دوسرے کیس میں عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر تیاری کے لیے مہلت دے دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے عمران خان کے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو متعلقہ فورم پر جانا چاہیے تھا، فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔وکیل نے موقف اپنایا کہ میں صرف اعتراضات دور کرنے آیا تھا آپ میرٹ پر بات کر رہے ہیں، جو 8 فروری کو ہوا تھا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک سارا الیکشن ہی غلط تھا؟ ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری ہوگی، پہلے بھی انتخابات دھاندلی کا ایشو اٹھا تھا، انکوائری کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا، 184 کے تحت دائرہ اختیار عدالت کا نہیں ہے۔وکیل نے کہا کہ یہ اس عدالت کی کمزوری ہے کہ ابھی تک سوموٹو نہیں لے سکی، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے الفاظ کا چناؤ دیکھ کر کریں۔عدالت نے وکیل کو مزید تیاری کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔