یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش کی خبریں بے بنیاد ہیں، ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے کہا ہے کہ ادارے کی بندش کے حوالے سے چلنے والی خبر حقیقت کے برعکس ہے، اسٹورز ابھی بند نہیں ہوئے وفاقی حکومت نے فیصلہ کرنے کے لئے ابھی صرف کمیٹی بنائی ہے۔
اپنے بیان میں ترجمان نے کہا ہے کہ کمیٹی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے آپریشنز، ملازمین، رمضان ریلیف پیکیج اور اثاثہ جات کے متعلق تفصیلی رپورٹ مرتب کرے گی، رپورٹ کو منظوری کے لیے وزیراعظم پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے گا اس کے بعد اس کا فیصلہ ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے تمام اسٹورز کھلے ہیں اور صارفین کو معیاری اشیائے خوردونوش رعایتی نرخوں پر فراہم کی جا رہی ہیں، رمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے وزیراعظم ریلیف پیکج کے تحت سبسڈائزڈ اشیاء کی فراہمی بھی زیر غور ہے جو بہت جلد منظور ہو جائے گی عوام بغیر کسی دقت کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر معیاری خریداری کے لیے تشریف لائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوٹیلیٹی اسٹورز
پڑھیں:
2024ء میں بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے 7608کیسز رپورٹ ہوئے ، روزانہ کی بنیاد اوسطاً21واقعات رپورٹ
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اپریل2025ء)سال 2024میں بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے 7608کیسز رپورٹ ہوئے ، روزانہ کی بنیاد اوسطاً21واقعات رپورٹ ہوئے ، بچوں پر تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح اکثر کیٹیگریز میں 1فیصد سے بھی کم رہی۔سربراہ ایس ایس ڈی اوسید کوثرعباس نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 2024ء میں جنسی زیادتی کے 2954، اغوا ء کے 2437، جسمانی تشدد کے 683واقعات رپورٹ ہوئے ،بچوں کی سوداگری کے 586، چائلڈ لیبر کے 895اور کم عمری کی شادی کے 53کیسز رپورٹ ہوئے ۔جسمانی و جنسی تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح صرف 1فیصد، اغوا ء میں 0.2فیصد ،بچوں کی سوداگری میں سزا کی شرح 45فیصد اور چائلڈ لیبر میں 37فیصد رہی ۔ کم عمری کی شادی کے کیسز میں کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق ملک بھرمیں سب سے زیادہ پنجاب میں بچوں پر تشدد کے 6,083کیسز رپورٹ ہوئے ،پنجاب میں جنسی زیادتی کے 2,506کیسز میں صرف 28مجرموں کو سزا ملی ،خیبر پختونخوا ہ میں 1102کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ جنسی و جسمانی تشدد میں کسی کو سزا نہیں ملی ۔
سندھ میں 354کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سزا کی شرح صفر رہی ، بلوچستان میں صرف 4سزائیں ہوئیں ۔ سید کوثر عباس نے کہا کہ بچوں پر تشدد کے اصل واقعات رپورٹ شدہ اعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ انہوںنے بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتوں، قانونی اصلاحات اور لازمی رپورٹنگ کی تجویز پیش کرتے ہوئے بچوں پر تشدد کی رپورٹنگ میں ناکام اداروں پر جرمانے عائد کرنے کی سفارش بھی کی ۔