18 امریکی ریاستیں پیدائشی شہریت کے لیے ڈٹ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
امریکا کی 18 ریاستوں نے پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کے خلاف صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو مسترد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کردیا ہے۔ پیدائشی شہریت کے حق میں کھڑی ہونے والی اِن امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔
جن ریاستوں نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے اُن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور سان فرانسسکو بھی شامل ہیں۔ یہ مقدمہ بوسٹن کی ایک وفاقی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جاری کیا جانے والا ایگزیکٹیو آرڈر امریکی آئین کے منافی ہے۔
ڈیموکریٹس کی حکومت والی ریاستوں کے علاوہ شہری حقوق کی انجمنوں نے بھی پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کے خلاف جاری کیے جانے والے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو مسترد کرنے ہوئے اُسے عدالتوں میں چیلنج کیا ہے۔ ان انجمنوں نے دیگر ایگزیکٹیو آرڈرز کو بھی چیلنج کیا ہے۔
جن انجمنوں نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈرز کو چیلنج کیا ہے ان میں دی امریکن سول لبرٹیز یونین، امیگرنٹس آرگنائزیشنز کے علاوہ ایک ایسی خاتون بھی شامل ہیں جن کے ہاں ولادت ہونے والی ہے۔ اِدھر ٹرمپ نے صدر کا منصب سنبھال کر قانونی کارروائیاں شروع کی ہیں اور اُدھر اُن کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔
ریاستوں کے اٹارنیز جنرل متحرک ہوگئے ہیں۔ نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میتھیو پلیٹکِن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُس کی طرف سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور حق تلفی کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کو چیلنج کرنے والے دیگر مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس محکمے کے حوالے سے بھی مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی ملازمت کو حاصل تحفظ کو چیلنج کرنے والے اقدامات کو بھی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔
میساچوسیٹس اور نیو ہیمپشائر کے ججوں کی طرف سے دی جانے والی کسی بھی رولنگ کا بوسٹن کی فرسٹ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں جائزہ لیا جائے گا جس کے پانچوں فعال ججوں کو ڈیموکریٹ صدور نے تعینات کیا ہے۔ امریکا میں یہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد معاملہ ہے۔
امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت ہر وہ شخص امریکی شہری ہے جو امریکی سرزمین پر پیدا ہوا ہو۔ اس حوالے سے تمام اپیلیں، شکایات اور مقدمات امریکی سپریم کورٹ کی 1898 کی ایک رولنگ کے تحت دائر کیے گئے ہیں جس کے مطابق امریکی سرزمین پر غیر امریکی شہری والدین کے ہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ امریکی شہریت کا حقدار ہے۔
اگر امریکی صدر ٹرمپ کے جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈر کو قبول کرکے نافذ کردیا گیا تو امریکا میں ہر سال پیدا ہونے والے بچوں میں سے ڈیڑھ لاکھ کو شہریت کے حق سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ بات میساچوسیٹس کے اٹارنی جنرل آندرے جوئے کیمبل نے بتائی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی طور پر حاصل حقوق سے کسی کو محروم کرنے کا حکم نامہ جاری کریں۔
اس وقت 17 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے 10 لاکھ باشندے سکونت پذیر ہیں جن کے ممالک کو طبعی نوعیت کی بربادی یا پھر خانہ جنگی اور پُرتشدد وارداتوں کے باعث پیدا ہونے والی ہنگامی حالت کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے والے سے بھی جاری کیا ہے۔ دی نیشنل ٹریژری ایمپلائیز یونین نے، جو ملک بھر میں وفاقی حکومت کے 37 فیصد ملازمین کی نمائندگی کرتی ہے، ایک وفاقی عدالت میں دائر کیے جانے والے مقدمے میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی دن ایک ایسا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کرکے سیاسی وفاداروں کو بھرتی کرنے کی راہ ہموار کی جانی ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت کسی بھی بچے کو امریکا کی شہریت اس وقت ملنی چاہیے جب اُس کے والدین میں کوئی ایک بھی امریکی شہری ہو، مستقل رہائش کے اجازت نامے یعنی گرینڈ ہولڈر کا حامل ہو یا پھر امریکی فوج میں خدمات انجام دیتا رہا ہو۔
اگر پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کا سلسلہ ختم کیا جانے لگا تو امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن میں بھارتی باشندے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دی جانے والی امریکی شہری چیلنج کیا شہریت کے دائر کیے کے خلاف گیا ہے کے تحت کیا ہے
پڑھیں:
تجارتی جنگ اور ہم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔
عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔
چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔
بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔
امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔
امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔
گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔
امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔
آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔
تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!