عوام کو حقیقی نمائندگی چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
دراصل بات یہ ہےکہ ہمیشہ کی طرح موجودہ قیادت بھی سرمایہ دارو، وڈیروں، سرداروں ، جاگیرداروں، چودھریوں پر مشتمل ہے۔ پچھلے پچھتر برسوں سے یہی سیاسی رہنما گھوم پھرکر یاتوحکومت میں ہوتے ہیں یا پھر کچھ دیر کے لیے حزب اختلاف میں نظر آرہے ہوتے جب تک ان کے مفادات متاثر نہ ہورہے ہوں جیسے ہی ان کے مفادات متاثر ہوتے نظر آتے ہیں یہ افراد فوری اپنی سیاسی جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں چلےجاتےہیں یا ’’پھر لےجائے جاتے ہیں‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی گاڑیوں سے اترتے ہیں اور قیمتی قالینوں پر اپنے جوتے رگڑتے ہوئےتقریر کرکےچلےجاتے ہیں، ان کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اسمبلیوں میں موجودہ قیادت پر اگرنظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ اس ملک پر چند خاندانوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور بعض حالتوں میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد اسمبلیوں میں بیٹھے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ غریب عوام کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے اور انہیں ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کیا ہے کہ اب ان میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ وہ اپنے لب کھول سکیں یا اپنا حق مانگ سکیں۔ اس حوالے سے الطاف حسین کے سابقہ بیانات کو پڑھا جائے تو ان کی بات میں بڑا وزن نظر آرہا ہوتا ہے کہ ’’پاکستان کے مخالف جاگیردار ملک پر قابض ہوگئے اور ملک جس نازک دورسے گزر رہا ہے اس میں وہی جماعت ملک کو بچا سکتی ہے جو عوام میں سے ہو، عوام کی سچی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو۔‘‘ انہوں نے متعدد بار ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ماضی کی باتیں بھول کر ایک دوسرے کو معاف کریں اور مل کر کام کریں۔‘‘ اس مثبت سوچ کو سراہنا چاہیے تھا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارا مستقبل اب اس بات سے وابستہ ہے لیکن افسوس اکثر سیاست دان اس پر سنجیدگی اختیار کرنے کے بجائے وہی پرانے گھسے پٹے بیانات دے کر گڑے مردوں کو اکھاڑنے کی کوشش کرتے اب بھی نظر آرہے ہیں۔
اس بات پر کسی کو بھی شک نہیں ہوناچاہیے اس وقت وطنِ عزیز میں صرف وہی جماعت اب کامیابی حاصل کر پائے گی جس سے غریب اور متوسط طبقے کو فائدہ پہنچے اور اسی طبقے سے لوگوں کو ایوانوں میں بھیجا جائے اگر عوام وطنِ عزیز میں حقیقی تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے تو انہیں پیشہ ور سیاست دانوں کو مسترد کرنا ہوگا اور اپنے اندر سےقیادت پیدا کرنی ہوگئی اور ہمیشہ کے لیے روایتی وڈیروں، جاگیرداروں، جن کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے سیاست کرتے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
میری اس بات پر غور کریں یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس بچے کو جوتی نصیب نہیں ہوتی جب وہ بچہ باپ بن جاتا ہے تو اس کے بچے بھی جوتی سے محروم ہی نظر آرہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پسماندہ علاقوں کے غریب عوام کا یہی حال نظر آرہا ہے۔ یہ غریب طبقہ ایک ایسی صورتِ حال سے دو چار ہیں جہاں وہ ظلم سہتے سہتے، غربت کی چکی میں پستے پستے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ان کو ظلم، ظلم ہی محسوس نہیں ہوتا، اب وہ اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنی تکلیفوں اور محرومیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس قابل ہو پاتے ہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔ یہ ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔
وطنِ عزیز کے غیور عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور تمام مفاد پرست سیاسی رہنماؤں اور ان کے مقاصد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور کسی بھی قسم کی احتجاجی سیاست کا حصہ نہ بنیں اور صرف اپنے مفاد کا خیال رکھیں اور اس کے لیے ہی جہدوجد کریں نہ کہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنی جان و مال کی قربانی دے کر بھی بےمول رہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب عوام الناس کو اپنے لیے سوچنا پڑے گا اگر آج نہیں سوچا تو ہم پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے، پھر اللہ نہ کرے کہ ہماری طرح ہماری آنے والی نسلیں بھی مزید پستی میں زندگی گزارنے والی بنیں اور مفاد پرست سیاست دانوں کو مزید پھلنے پھولنے کی مواقع دیں۔ اب یہ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں بھی نیک، ایمان دار اور دین دار حکمران مل پائے آمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں نظر آرہے کے لیے
پڑھیں:
’اوووو، اووووو‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے لوگوں کو بتایا کہ جاپانی احتجاج کرتے ہیں تو صرف ’ اووو اووو‘ کی آوازیں نکالتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی طرف سے یہ طنز اپوزیشن پر کیا۔ ان کا یہ کہانی سنانے کا مقصد تھا کہ ہماری اپوزیشن کو بھی احتجاج میں صرف ’اووو ، اووو‘ کرنا چاہیے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اپوزیشن نہ دھرنا کر سکتی ہے، نہ لانگ مارچ کر سکتی ہے نہ وفاق پر کے پی کے حکومت حملہ کر سکتی ہے۔ نہ نعرے لگا سکتی ہے نہ ڈنڈے لہرا سکتی ہے نہ روڈ بلاک کر سکتی ہے۔
نہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہونی چاہیے نہ حکومت کی کارکردگی پر بات ہونی چاہیے نہ اسمبلی میں تقریریں ہونی چاہئیں نہ بھوک ہڑتال کی دھمکی دینی چاہیے نہ خاموش انقلاب کی للکار سنانی چاہیے۔ شاید وہ کہنا چاہیتے تھے’اووو اووو ‘ سے زیادہ احتجاج کرنے والوں کو نو مئی کے مجرمان کے برابر تصور کیا جائے۔ ان کی زبانیں اور لگامیں دونوں کھینچ لینی چاہئیں۔
ہر قوم، فرد، فرقے کے احتجاج کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم کسی ایک طریقے کو مروج کرنے کی کوشش کرے اور سارا زمانہ اس جانب چل پڑے۔ وزیر اعظم ایک مثال دیں اور سارا معاشرہ سدھر جائے۔ سماج اس طرح نہیں بدلا کرتے۔ خاص طور پر ہمارا سماج جس میں ہر زمانے میں ایک نئے بیانیے کی پنیری لگی۔ ایک نئے طرز حکومت کی ترویج کی گئی، ایک نئے انقلاب کی نوید سنائی گئی۔
77برس گزر گئے بیانیہ کا چرخہ ہی فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ ملک بار بار پینترے بدل رہا۔ کبھی یہاں زراعت مستحسن ہوتی ہے، کبھی نیشلائزیشن معراج پاتی ہے، کبھی انڈسٹریلائزیشن کا بخار چڑھتا ہے، کبھی جہاد فرض اولین بنتا ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتقام کہلاتی ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتظام بن جاتی ہے، کبھی ووٹ کی عزت بیانیہ بنتی ہے اور کبھی تان ’تیرا باپ بھی دے گا آزادی ‘ پر ٹوٹتی ہے۔ اس کھچڑی میں ہمیں احتجاج کا نہ سلیقہ رہا نہ قرینہ آیا۔ گرچہ ’اووو اووو ‘ کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود نہیں مگر لوگ پھر اپنے اپنے طریقے سے ’اووو اووو ‘ کی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔
دیکھیے حکومت کے خلاف جس نے احتجاج کرنا ہو تو وہ فارم 47اور 45کی کہانی شروع کر دیتا ہے۔ شہباز شریف کی نقلیں اتارتے ہیں۔ ملک کی خاطر امداد مانگنے کو بھیک مانگنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔’مہنگائی شریف‘ ان کو کہا گیا ۔ دھرنے ان کے خلاف کیے۔ لانگ مارچ ان کے خلاف ہوئے۔ ایک صوبہ وفاق کے خلاف اس حکومت میں صف آرا ہوا۔ سول نافرمانی کی تحریک ان کے خلاف شروع ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو رقم بھیجنے سے اس دور میں منع کیا گیا۔ کارکردگی کے حوالے سے ان کو تختہ مشق بنایا گیا۔ بین الاقوامی ہزیمت کا سامان ان کے لیے اکٹھا کیا گیا۔ گرنیل نے ان کے خلاف ٹوئٹ کیے۔ یہ اس دور کی اپوزیشن کی ’اوووو اووو ‘ ہے۔
اب اگر اسی مثال میں حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں تبدیل کر کے دیکھیں تو 9مئی کے جواب میں گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں تھیں، صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ 26نومبر کو گولی نہیں چلنی چاہیے تھی صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان کے ساتھیوں کو گرفتار نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ صرف ’اووو اووو‘ کر کے ان کو معاف کر دینا چاہیے تھا۔ بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ نہیں آنا چاہیے تھا صرف ’اووو اووو‘ کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں بھی صرف ’اووو اووو‘ پر ٹرخانا چاہیے تھا۔
سچ پوچھیں تو اس دور میں احتجاج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی بہت ہوا۔ سلسلہ تو جنرل باجوہ سے شروع ہوا۔ کسی حاضر سروس آرمی چیف کے ساتھ وہ نہیں ہوا جو جنرل باجوہ کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو سکتا تھا ہوا۔ جتنی تضحیک توہین اور تذلیل ہو سکتی تھی ہوئی۔ جنرل باجوہ کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ یہ انصافی، جاپانیوں کی طرح صرف ’اووو اووو‘ آوازیں نکالیں اور ان کی جان چھوڑ دیں۔
190 ملین پاؤنڈ، المشہور القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم کو 14سال قید ہوئی۔ جہاں سب نے عمران خان کو ’مذہب کا بیوپاری‘ کہہ کر پکارا ۔ وہاں حکومت پر بھی ہر طرف سے گالیوں کی بارش ہوئی۔ اسٹیبلشممنٹ بھی تنقید کے بار تلے آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں ملک ریاض کے خلاف کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ حالانکہ 190 ملین پاؤنڈ بھی ان کے پکڑے گئے اور القادر یونیورسٹی بھی انہوں نے رشوت میں دی لیکن نہ ان کو عمران خان نے رگیدا، نہ حکومت نے گرفتاری کی دھمکی دی نہ اسٹیبلشمنٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف نہ میڈیا بولا نہ سوشل میڈیا پر کسی نے بات کی۔ نہ کسی نے ’اووو ‘ کی نہ ’آآآ‘ کی آواز نکالی۔ نہ کوئی ایف آئی آر ہوئی نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی نہ کوئی عدالت میں حاضری ہوئی نہ ایک دن کی بھی قید مقدر بنی۔
یوں لگتا ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی لڑائی میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے کسی اونچے پلازے کی چھت پر کھڑا اس سارے نظام پر قہقہے لگا رہا ہے، جس نظام میں سابق وزیر اعظم کو عمر قید دی جا سکتی ہے، حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکتی ہے، فوج کی تنصیبات پر آگ لگائی جا سکتی ہے لیکن ملک ریاض کے خلاف نہ احتجاج ہو سکتا ہے نہ ان سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے اس ملک میں سب کچھ ملک ریاض ہی ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس نظام نے کب پینترا بدلنا ہے اور کب صرف ’اووو اووو‘ کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعودعمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم جنرل قمر جاوید باجوہ شہباز شریف عمار مسعود عمران خان ملک ریاض حسین