Daily Ausaf:
2025-01-22@11:13:15 GMT

سرمایہ داری کی گھٹیا مگر قابل فخر شکل

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ایک بار پھر امریکی جریدے فوربز نے ہم غربا کی عزت کا مذاق اڑایا ہے۔ دنیا بھر میں فوربز کو غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سب سے زیادہ حسرت اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے خود امرا کو بھی یہ میگزین اچھا لگتا ہو۔ کسی بھی میگزین یا اخبار کے سرورق پر چھپنے سے کچھ تو تفاخر اور اکڑ فوں پیدا ہوتی ہی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا کی ننانوے فیصد سے زیادہ اکثریت اس میگزین کی لسٹ میں دل ہی دل میں اپنا نام ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ خیر، اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ اس میگزین میں چھپنے والی دنیا کی 100امیر ترین شخصیات میں کچھ نام و ناموس اور تکبر و غرور کا مرض پیدا ہوتا ہے تو دنیا کی انتہائی اکثریت بھی ان کے خلاف کچھ حسد یا تعصب ضرور محسوس کرتی ہے۔ البتہ بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا بھی دنیا کے ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چایئے کہ دولت اور وسائل کے انبار لگانے کے لئے انسانی اخلاق و اقدار کو دو طرفہ طور پر ہی پس پشت ڈال دیا جائے۔
2025 ء کی امیر ترین شخصیت بھی ’’ٹیسل‘‘ اور ’’اسپیس ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک قرار پائے ہیں۔ مذہبی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ، ’’اللہ انہیں اور دے۔‘‘ لیکن سرمایہ داری میں یہ کہاں کا انصاف اور قانون و قائدہ ہے کہ پوری دنیا صرف ایک امیر ترین شخص کی دولت کو شمار میں لانے لگے۔ فوربز کی جانب سے جاری کی گئی دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں ایلون مسک پہلے نمبر پر ہیں جن کی مجموعی دولت 425.

2 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ پسماندہ اور کسی غریب ملک کی کرنسی میں کتنی دولت بنتی ہے اور اس سے کسی ایک شخص کی کتنی نسلیں گھر بیٹھ کر عمر بھر کھا سکتی ہیں یا اس سے کتنے سکول کالجز یا ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں اس کا حساب کتاب لگانا کافی مشکل ہے۔ البتہ ایسا صرف ’’سرمایہ داری نظام‘‘ میں ہوتا ہے کہ حکومت کو سود یا ٹیکس وغیرہ دے کر آپ جتنی چاہیں دولت اکٹھی کرسکتے ہیں۔
ایلون مسک کے بعد ’’ایمازون‘‘ کے مالک جیف بیزوس کا نمبر ہے جن کی مجموعی دولت 241 ارب ڈالرز ہے۔ جیف بیزوس نے 1994 ء میں ’’ای کامرس‘‘ کی بڑی کمپنی ’’ایمازون‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے بعد وہ آگے سے آگے بڑھتا گیا۔ امارت اور ’’کیپیٹل ازم‘‘ کا تو اصول بھی یہ ہے کہ ’’پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔‘‘ کہ جس کے پاس ایک بار دولت آ جائے اس کے پاس اور زیادہ دولت آتی ہے، حالانکہ دنیا کا آج مسئلہ ہی یہی ہے کہ لوگ امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں، اور یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
دنیا کے امیر ترین افراد کی اس فہرست میں تیسرے نمبر پر مارک زکر برگ ہیں، جو ’’میٹا کمپنی‘‘ کے مالک ہیں اور ان کی مجموعی دولت 217.7 ارب ڈالرز سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ چوتھے نمبر پر ایلیسن ہیں، جو کمپیوٹر سافٹ ویئر کی کمپنی “اوریکل” کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں اور ان کی دولت 209 بلین ڈالرز ہے۔ نومبر 2024 میں ان کی مجموعی دولت 228 بلین ڈالرز سے زیادہ تھی اور وہ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بننے کے لئے بیزوس کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے، لیکن دسمبر کے آغاز میں ان کے اثاثوں اور مالیت میں کمی آ گئی تھی۔ ایلیسن اوریکل کمپنی کے تقریباً 40 فیصد حصص کے مالک ہیں اور چیئرمین و چیف ٹیکنالوجی آفیسر اور ’’کوفائونڈر‘‘ کے طور پر اپنی ہی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔
امریکی میگزین ’’فوربز‘‘ کے حساب سے سرمایہ داری” کی اس دوڑ میں انسان کہاں تک آگے سے آگے بھاگتا رہے گا یا دنیا کی ہر سال کی یہ 100 افراد کی لسٹ انسان کے لالچ، حرص اور حسد و منافقت کو مزید ابھارتی رہے گی؟ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو دنیا میں دولت کا ’’ارتکاز‘‘ مزید پیچیدہ اور گھنائونی شکل اختیار کر لے گا۔ یہ دوڑ سرمایہ داری کی جنگ ہے جس میں دنیا کے انسانوں کی اکثریت ان سو انسانوں کے ہاتھوں میں جنس کے طور پر کام آتی ہے، جو جدید دنیا میں غلامی کی ایک گھٹیا مگر نئی اور قابل فخر شکل ہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی مجموعی دولت سرمایہ داری دنیا کے دنیا کی کے مالک ہیں اور

پڑھیں:

لاء کمیشن کیساتھ مودی حکومت قابل اعتراض رویہ کیوں اختیار کررہی ہے، کانگریس

جے رام رمیش نے کہا کہ 22ویں قانون کمیشن نے یکساں سول کوڈ کا جائزہ لینے کے ارادے کا دوبارہ اعلان کیا تھا، مگر اپنی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہی اس کمیشن کی مدت ختم کر دی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے 23ویں لاء (قانون) کمیشن کی تشکیل کا اعلان نہ کئے جانے پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سوال اٹھایا کہ آخر حکومت اس باوقار ادارے کے ساتھ ایسا قابل اعتراض رویہ کیوں اختیار کر رہی ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ 22ویں قانون کمیشن کو بغیر کسی رپورٹ پیش کیے 31 اگست 2024ء کو ختم کر دیا گیا۔ جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ 21ویں قانون کمیشن، جسے مودی حکومت نے مقرر کیا تھا، نے 31 اگست 2018ء کو 182 صفحات پر مشتمل ایک مشاورتی دستاویز جاری کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستانی ثقافت کے تنوع کا جشن منایا جانا چاہیئے اور اس عمل میں کسی بھی طبقے یا کمزور گروہ کو محروم نہیں کیا جانا چاہیئے، لہٰذا اس وقت یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی مطلوبہ۔

انہوں نے مزید کہا کہ 14 جون 2023ء کو جاری ایک پریس نوٹ میں 22ویں قانون کمیشن نے یکساں سول کوڈ کا جائزہ لینے کے ارادے کا دوبارہ اعلان کیا تھا، مگر اپنی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہی اس کمیشن کی مدت ختم کر دی گئی۔ جے رام رمیش نے کہا کہ 23ویں قانون کمیشن کا اعلان 3 ستمبر 2024ء کو کیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس کی تنظیم کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت قانون کمیشن جیسی معزز ادارے کے ساتھ ایسا قابل اعتراض سلوک کیوں کر رہی ہے۔ دوسری طرف اتراکھنڈ کابینہ نے پیر کو یکساں سول کوڈ کے قانون کی قواعد کو منظوری دے دی۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ قواعد کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کے نفاذ کی تاریخ کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ہم چاہتے ہیں قابل ترین لوگ ہی امریکا آئیں: ڈونلڈ ٹرمپ
  • لاء کمیشن کیساتھ مودی حکومت قابل اعتراض رویہ کیوں اختیار کررہی ہے، کانگریس
  • نئے سال میں دنیا کی امیرترین شخصیات کی فہرست جاری، پہلا نمبر بھی سامنے آگیا
  • الخدمت نے 2024میں خدمات کے کئی سنگ میل عبور کیے : نویدعلی بیگ
  • صحت سب سے بڑی دولت ہے
  • پہلے دن سے مذاکرات کا حامی نہیں تھا، پتہ ہے یہ قابل اعتبار لوگ نہیں، حنیف عباسی
  • برطانوی لوٹ مار: ہندوستان سے 64.82 ٹریلین ڈالر کی چوری
  • ارب پتی پہلے سے زیادہ تیزی سے امیر ہو رہے ہیں، آکسفیم
  • حلف لینے سے قبل جاری کی گئی کرپٹو کرنسی سے ٹرمپ کی دولت میں کتنے ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا؟