Daily Ausaf:
2025-04-16@15:21:23 GMT

تھانہ کلچر،حصولِ انصاف میں پہلی رکاوٹ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

تھانہ کے ساتھ لفظ کلچر مدتوں سے جڑا ہوا ہے۔ کلچر ظاہر ہے دو چار برس میں تو بنتا نہیں ہے۔تھانہ کلچر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔پاکستان میں اس کلچر کے خلاف گاہے بگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں اور کچھ نہ کچھ تبدیلی بھی آ رہی ہے لیکن سالوں کا بگاڑ دنوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔اس تھانہ کلچر کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں۔بہت سے لوگ ہیں۔سیاست کے ایوانوں سے بیوروکریسی کے آرام کدوں تک اور بڑے افسر سے سپاہی رینک تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔کمزور سسٹم ناصرف اس کلچر کو دوام بخشنے کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ اسے زندہ بھی رکھتا ہے۔اس لئے سسٹم بدلنے کی کوشش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔یہ سسٹم دو طرفہ ٹریفک کی طرح ہے جس میں ہر ذمہ دار اپنی کرپشن کی منزل تک حالت سفر میں ہے۔اس کلچر میں سیاسی یا مالی فوائد کی خاطر ایس ایچ او اور تھانے کا عملہ متعین کیا جاتا ہے۔اس کلچر میں ایک غیر متوازی غیر سیاسی نظام بھی ساتھ چلتا ہے جو اصل میں پیسہ کمانے کی فیکٹری ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ سرکاری نفری کے ساتھ ساتھ پولیس کے لئے کام کرنے والے فری لانسر جو پولیس کے لئے مخبری کا کام کرتے ہیں اور ریکوری کا بھی۔تاہم ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا۔بڑے صاحب اگر سخت ہوں تو تھانہ اپنے آپ کو راہ راست پر لے آتا ہے۔لیکن اگر بڑے صاحب ہی رشوت یا اپنا حصہ مانگ رہے ہوں تو پھر سمجھیں سب کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ ماضی میں ایس ایچ او کی تعیناتی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔تاکہ اس تعیناتی سے سیاسی لوگ،سیاسی فوائد حاصل کر سکیں اور مخالفین کو سبق سکھایا جا سکے۔اوپر کی سطح پر زیادہ حصہ پہنچانے کی یقین دہانی پر یہ تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں۔ہر تھانے کے محل وقوع کے مطابق اس کی کمائی کے ذرائع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔لیکن عمومی طور پر بازار میں لگنے والے سٹالز سڑک یا فٹ پاتھ پر واقع ہوں، منشیات کی فروخت،جسم فروشی اور جوئے کے اڈے پولیس کی کمائی کا بڑا ہدف ہیں۔جہاں سے روزانہ یا منتھلی بنیادوں پر رقم حاصل کی جاتی ہے۔اس رقم کے عوض انہیں ہر ناجائز کام کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
کراچی میں ایرانی تیل یا اسمگل شدہ سامان کی فروخت پولیس کی کمائی کے بنیادی ذرائع ہیں۔ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں جو تھانے کی سرپرستی میں شرفا کو تنگ کرتے ہیں۔پیسے بٹورتے ہیں جبکہ متعلقہ تھانے کو اس کمائی میں سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔جرائم پیشہ افراد یا کسی شخص سے جرم کے بدلے رعایت یا مقدمہ کا اندراج کئے بغیر رہائی اور جرم کے باوجود عدم گرفتاری ایسے کام ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن تھانوں میں باآسانی ہو رہے ہیں۔ایس ایچ او کو 24 گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ماتحت عملے کا بھی یہی معمول ہے۔ جس کے باعث وہ چڑچڑے اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ان کا رویہ سائلین کے ساتھ اچھا نہیں رہتا۔یہ شکایت عام ہے کہ تھانے میں آنے والوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔پولیس تھانوں میں تھرڈ ڈگری بھی استعمال کرتی ہے۔تھرڈ ڈگری کو سادہ لفظوں میں آپ بہیمانہ تشدد بھی کہہ سکتے ہیں۔جو پولیس ملزمان کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ چوری،ڈکیتی اور بدنام زمانہ گینگسٹر سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے خلاف پولیس کا رویہ انتہائی سخت ہوتا ہے۔تشدد کے دوران بعض ملزمان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے اور اکثر ایسے وقوعہ جات میں پولیس کو ایف آئی آر کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو مقتول ملزم کے لواحقین کی جانب سے اسی تھانہ میں درج کرائی جاتی ہے۔جہاں پولیس تشدد سے اس کی موت واقع ہوئی ہوتی ہے۔تاہم اکثر پولیس والے ایسے مقدمات کے اندراج پر سزائوں سے بچ جاتے ہیں کیونکہ جب انہی کے پیٹی بند بھائی مقدمہ کی تفتیش کرتے ہیں تو ایسے سقم چھوڑ جاتے ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نامزد پولیس اہلکار سزائوں سے صاف بچ جاتے ہیں۔ دوبارہ نوکری پر بحال ہو کر پھر سے اپنی ڈگر پر کار بند ہو جاتے ہیں جو افسوس ناک امر ہے۔
تھانوں میں کیا ہوتا ہے؟ اعلی افسران یہ جانتے ہیں لیکن ناجائز کاموں کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔اسی لئے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور تھانوں میں وہی کچھ ہوتا ہے جو تھانوں میں تعینات افسر و اہلکار چاہتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تھانہ کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جب تک لوگوں کی تھانوں میں رسائی آسان نہیں ہو گی اور شنوائی کے ذرائع مفقود ہوں گے،تھانوں پر سوال اٹھتے رہیں گے اور تنقید ہوتی رہے گی۔کمزور سسٹم نا صرف اس کلچر کو دوام بخشنے کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ زندہ بھی رکھتا ہے۔اسی لئے اس سسٹم کو بدلنے کی کوشش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔تھانے میں دو طرح کی اطلاعات کا اندراج ہوتا ہے،ایک وہ جو قابل دست اندازی جرم ہو جس کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ پولیس کسی عدالتی وارنٹ کے بغیر بھی گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے۔جبکہ ناقابل دست اندازی پولیس جرم ہو،جیسے اطلاع گمشدگی وغیرہ،تو صرف اطلاعی رپٹ درج کی جاتی ہے۔ایس ایچ او کو جرم کی نوعیت طے کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے یعنی وہ کسی جرم کی اطلاع یا کسی درخواست پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ یہ قابل ایف آئی آر جرم ہے یا اس کی اطلاع صرف رجسٹر میں درج کر لی جائے۔ایس ایچ او،ہیڈ محرر کی مدد سے قانونی دفعات کا بھی تعین کرنے کا مجاز ہے کہ کس جرم کو کس قانونی دفعہ کے تحت پرکھا جانا چاہیے۔ تفتیش کے بعد چالان پیش ہونے پر عدالت سب سے پہلے یہ جائزہ لیتی ہے کہ آیا جرم کے مطابق دفعات کا درست استعمال کیا گیا ہے یا نہیں؟ قابل دست اندازی جرائم کا دائرہ کار قانون نے طے کر دیا ہے۔جسے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کہا جاتا ہے۔جرم کے مطابق دفعات کے لاگو ہونے کا یہ قانون 1860 میں بنایا گیا تھا جس میں مختلف ادوار میں ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ پینل کوڈ تقسیم ہند سے قبل لارڈ میکالے نے بنایا تھا۔
ایف آئی آر درج کرانے کے لئے قانون نے واضح طریقہ کار طے کر دیا ہے۔اگر پولیس کسی بنا پر قابل دست اندازی پولیس جرم کے باوجود ایف آئی آر کے اندراج سے انکاری ہو تو درخواست دہندہ اندراج کے لیئے عدالتی راستہ اختیار کر سکتا ہے۔جس کے لئے وکیل کے توسط سے مقامی سیشن کورٹ میں 22/B، 22/A کے تحت پٹیشن دائر کی جاتی ہے۔پٹیشن دائر ہونے کے بعد متعلقہ سیشن جج پولیس سے وقوعہ کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتا ہے جس کے بعد مدعا علیہان اور الزام علیہان کے وکلا کی بحث سنی جاتی ہے۔جس کے بعد طے کیا جاتا ہے کہ ایف آئی آرکا اندراج ہو سکتا ہے یا نہیں؟ درخواست دہندہ کا الزام بادی النظر میں درست ثابت ہوتا نظر آئے تو سیشن کورٹ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کو اندراج مقدمہ کا حکم دے سکتی ہے۔جس کے بعد ایس ایچ او عدالتی حکم بجا لاتے ہوئے مقدمہ کے اندراج کا پابند ہوتا ہے۔تھانہ میں متعین ہیڈ محرر جو ہیڈ کانسٹیبل یا اے ایس آئی رینک کا افسر ہوتا ہے،عمومی طور پر سائلین کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتا ہے۔اکثر بدزبانی کی جاتی ہے جس سے عام لوگوں میں پولیس کا تاثر اچھا نہیں جاتا اور امیج خراب ہوتا ہے۔اس لئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو تھانہ کلچر بدلنے کی ضرورت ہے جب تک تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو گا، تھانوں میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آسکتی۔بڑے شہروں میں ماڈل تھانے بنائے گئے ہیں۔رپورٹنگ روم کو بھی عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بدل دیا گیا ہے۔مگر تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کے مزاج اور رویے کیسے بدلیں گے؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تھانوں میں کی جاتی ہے ایس ایچ او ایف آئی آر بدلنے کی جاتے ہیں کے مطابق ہے جس کے کے ساتھ کرتا ہے اس کلچر سکتا ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے کے لئے جرم کے کا بھی ہیں جو کے بعد

پڑھیں:

مودی حکومت تنازعہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، حریت کانفرنس

ترجمان حریت کانفرنس کا کہنا ہےکہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی جن کے ہاتھ گجرات کے 3000 مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تنازعے کے منصفانہ حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت حق خودارادیت کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے کر رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر ایک جائز جدوجہد کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی جن کے ہاتھ بھارت میں گجرات کے 3000 مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تنازعے کے منصفانہ حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوتوا ذہنیت کی حامل آر ایس ایس-بی جے پی حکومت تمام ہم خیال لوگوں کو فوج اور سول بیوروکریسی میں اعلی عہدوں پر لا رہی ہے اور انہیں کشمیریوں اور بھارت میں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں سمیت اقلیتوں کو کمزور کرنے کا ٹاسک دے رہی ہے۔

حریت ترجمان نے ان لوگوں اور تنظیموں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو کشمیر پر بھارتی قبضے اور اس کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے زیرسرپرست جماعتیں اور رہنما چاہتے ہیں کہ مزاحمتی قیادت کشمیر پر جمود کو تسلیم کرے لیکن کشمیری عوام اپنے ہزاروں شہداء کے مشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وادی کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ کالونیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے پنڈتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے آبائی مقامات پر واپس آئیں اور اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ رہنا شروع کریں۔ بیان میں علاقے میں جاری محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں، گھروں پر چھاپوں اور املاک کی ضبطگی کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے آزادی کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئی دہلی کی مسلط کردہ انتظامیہ کا فوجی طرز عمل عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج ہے اور دنیا کو مظلوم کشمیریوں کو بھارت کے ظالمانہ قبضے سے نجات دلانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت تنازعہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، حریت کانفرنس
  • اسلام آباد: خاتون ٹک ٹاکر کی پولیس افسران کی سیٹ پر ویڈیو، ایس ایچ او اور تھانہ محرر معطل
  • حقوق کے حصول کی تحریک میں آخر تک کھڑے رہینگے، علامہ علی حسنین
  • سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف، وجہ بھی سامنے آ گئی
  • منشیات فروشوں سے رابطوں پر سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف
  • اسلام آباد: منشیات فروشوں سے رابطوں پر سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف
  • آئی جی پنجاب کا پولیس کلچر ڈے پر ثقافت و روایات کے تحفظ کا عزم
  • ایس ایچ او تھانہ سبزی منڈی فواد خالد کی دلیرانہ کاروائی،ریکارڈ یافتہ اشتہاری ہلاک
  • دنیا امریکا پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی، وکٹر گاؤ
  • بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!