مہا کمبھ میلے میں ہار بیچنے والی بھارتی لڑکی کے لیے شہرت ڈراؤنا خواب کیسے بنی؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
بھارت میں مہا کمبھ میلے میں ہار بیچنے والی مونا لیزا نامی نوجوان لڑکی جس کا تعلق بھارتی علاقے اندور سے ہے اس وقت سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے، اس کی مسکراہٹ اور گہری آنکھوں نے لاکھوں لوگوں کی توجہ حاصل کر لی ہے لیکن یہ شہرت مونا لیزا اور اس کے خاندان کے لیے اب ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔
مونا لیزا کی وائرل ویڈیوز اس کے لیے استحصال اور ذہنی اذیت کا باعث بن گئیں کیونکہ اس وجہ سے وہ اپنا کام جاری نہیں رکھ پائی اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور سیاح اس سے مالا خریدنے کی بجائے صرف سیلفیاں اور ویڈیوز بنانے آنے لگے جس کی وجہ سے اس کا روز مرہ کا کام متاثر ہوا۔
بہت سے لوگوں نے مونالیزا کو صرف ویوز اور لائکس حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا۔ اس وجہ سے مونالیزا نے خود کو کیمرے اور مداحوں سے دور کر لیا ہے اور اب اس کے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے واپس اندور بھیج دیا جائے کیونکہ شہرت کے باعث اسے نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے مہا کمبھ میلے میں ہار بیچنے والی لڑکی کیوں وائرل ہو رہی ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق مونالیزا ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں اس قسم کی عوامی توجہ کی توقع نہیں کی جاتی۔ روایتی گھروں میں لڑکیوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ سادہ زندگی گزاریں اس لیے جو بے پناہ توجہ انہوں نے حاصل کی وہ یقیناً ان کے لیے بے چینی کا سبب بنی ہوگی۔
واضح رہے کہ اندور کی لڑکی نے اپنی منفرد بول چال سنہری آنکھوں، گہری رنگت اور دلکش چہرے کی وجہ سے کافی توجہ حاصل کی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں ’مہا کُمبھ‘ میلے میں شرکت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔
کمبھ میلہ 13 جنوری سے شروع ہوا ہے اور یہ 26 فروری یعنی 45 دن تک جاری رہے گا۔ یہاں دنیا بھر سے ہندو عقیدت مند آ رہے ہیں۔ کمبھ میلہ ہر 12 سال بعد منعقد ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت کمبھ میلہ مونا لیزا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت کمبھ میلہ مونا لیزا مونا لیزا میلے میں کے لیے
پڑھیں:
ترقی کے اعداد و شمار یا عوام کے خواب؟
پچھلی بار میں نے معیشت کے اعداد و شمار کے بارے میں لکھا تھا خاص طور پر جی ڈی پی جیسے اعداد و شمارکی حقیقت پر بات کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ اعداد و شمار حقیقی ترقی کی عکاسی کرتے ہیں؟ آج دل چاہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج جیسے اہم ادارے پر بات کی جائے جو بظاہر ترقی کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پیچھے چھپے حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) ایک مالیاتی مارکیٹ ہے جہاں کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو کاروباری اداروں کو اپنی کمپنیوں کے حصص عوامی سطح پر فروخت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ سرمایہ حاصل کرسکیں۔ اسٹاک مارکیٹس دنیا بھر میں معیشتوں کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ نہ صرف کاروباری اداروں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں بلکہ عوام کو بھی سرمایہ کاری کے مواقعے فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد شروع ہوئی۔ ابتدائی طور پر، لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں تین مختلف اسٹاک مارکیٹس تھیں۔ تاہم 2016 میں ان تینوں مارکیٹس کو ملا کر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) کی تشکیل دی گئی۔ اس ادارے کا مقصد معیشت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور کاروباری اداروں کے لیے مالی وسائل کا انتظام کرنا ہے۔
سال 2024 کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا کے ایس ای 100 انڈیکس اپنی تاریخ کی بلند ترین 118,735 پوائنٹس تک پہنچا۔ یہ سن کر کوئی بھی خوش ہو سکتا ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار ایک کامیاب معیشت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کیا یہ ترقی سب کے لیے ہے یا صرف چند افراد کے لیے؟ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کی کل تعداد تقریباً 3,50,000 ہے۔ یہ تعداد 25 کروڑ کی آبادی کے تناظر میں ایک قطرے کے برابر بھی نہیں۔ یہ حقیقت بتاتی ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی ترقی کا فائدہ صرف 0.14 فیصد لوگوں کو پہنچ رہا ہے جب کہ باقی عوام ان اعداد و شمارکی چمک دمک سے محروم ہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ ترقی صرف ایک خواب ہے جو کبھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوتا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بلند ترین پوائنٹس پر پہنچنے کی خبریں اخبارات میں نمایاں ہوتی ہیں لیکن ان خبروں میں ان ماؤں کا ذکر نہیں ہوتا جو اپنے بچوں کو بھوکا سلاتی ہیں۔ ان خبروں میں ان مزدوروں کا ذکر نہیں ہوتا جو دن بھر مشقت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی نہیں کما پاتے۔
یہ گراف ان بچوں کی زندگی کو نہیں دکھاتے جو تعلیم کے بجائے محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ یہ ترقی ان چند لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس سرمایہ ہے جنھوں نے پہلے ہی اپنی زندگیوں کو خوشحال بنا لیا ہے، لیکن جو لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے لیے یہ اعداد و شمارکوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسٹاک مارکیٹ کی ترقی اس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کہلا سکتی جب تک کہ اس کا فائدہ ان لوگوں تک نہ پہنچے جنھیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ وہی خواب ہے جو میں نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا اور آج اس خواب کو ایک نئے زاویے سے بیان کر رہی ہوں۔ ترقی کے یہ گراف اور اعداد و شمار اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہ لائیں۔ اگر اسٹاک مارکیٹ کی ترقی کا مطلب صرف چند لوگوں کی خوشحالی ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کامیابی بلاشبہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب یہ ترقی ہر شہری کی زندگی کو بہتر بنائے۔ ہمیں ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو صرف اعداد و شمار کی چمک دمک پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقی انسانی ترقی کا مظہر ہو۔ یہ ہمارا خواب ہے اور ہمیں اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے مل کرکام کرنا ہوگا۔
دنیا بھر میں اسٹاک ایکسچینجز کی تاریخ میں کئی مواقعے پر بحران آ چکے ہیں۔ 1929 کا وال اسٹریٹ کریش ایک ایسی مثال ہے جس نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثرکیا۔ اس بحران کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی جائیدادیں نیلام ہوگئیں اور عالمی سطح پر بے روزگاری کا ایک طوفان آیا۔ اسی طرح 2008 میں ہونے والی عالمی مالیاتی بحران کے دوران دنیا بھرکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید کمی آئی اورکئی بینک دیوالیہ ہوگئے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی ان بحرانوں سے بچا نہیں ہے۔
2005 کا زلزلہ اور 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران PSX میں بھی شدید مندی دیکھنے کو ملی۔ ان بحرانوں کے دوران سرمایہ کاروں کے لیے شدید نقصانات کا سامنا ہوا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے ان بحرانوں کے بعد اپنی اصلاحات کی اور اب یہ ادارہ تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت اور سرمایہ کار اس ترقی کوکس طرح عوام تک پہنچاتے ہیں، اگر سرمایہ کاری کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے اور عوامی سطح پر معاشی بہتری لائی جائے تو یہ ادارہ حقیقی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا فائدہ صرف چند سرمایہ کاروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے فوائد عوامی فلاح کے لیے بھی استعمال ہونے چاہئیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کامیابی ایک خوش آیند بات ہے لیکن یہ تب تک اہم نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی ترقی عوامی فلاح کی بنیاد پر نہ ہو۔ ہم ایک ایسے سماج کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں ہر فرد کو ترقی کے فوائد حاصل ہوں نہ کہ صرف چند سرمایہ داروں کو۔ اسٹاک مارکیٹ کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہوگا کہ اس کا فائدہ پورے سماج تک پہنچے اس کے بعد ہی یہ ترقی حقیقی ترقی کہلائے گی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس ترقی کے فوائد کو عوام تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی کامیابی کے نتائج صرف چند سرمایہ کاروں تک محدود نہ ہوں بلکہ اس سے حاصل ہونے والی دولت کا فائدہ غریب طبقے تک پہنچے تاکہ وہ بھی معاشی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ یہ ترقی اسی صورت میں حقیقی کہلائے گی جب وہ عوام کی زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی کا باعث بنے گی اور تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ترقی کے اعداد و شمار حقیقی طور پر عوام کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں کامیاب ہیں۔