7 اکتوبر حملہ: ناکامیوں کی ذمہ داری قبول، اسرائیلی فوج کے سربراہ مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ہیرزی ہیلوی نے غزہ میں جنگ بندی کے چند روز بعد ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ہیلوی نے اعتراف کیا کہ وہ 7 اکتوبر (2023) کے روز فوج کی ناکامی کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ اس دن حماس کے حملے میں 1140 سے زیادہ اسرائیلی مارے گئے تھے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی فوج کے سربراہ نے ایک بیان میں بتایا کہ وہ 6 مارچ کو اپنی ذمے داریوں اور فوج کی قیادت کے منصب سے سبک دوش ہو جائیں گے۔ ہیلوی نے اپنا استعفیٰ وزیر دفاع یسرائیل کاتز اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو بھیجے گئے ایک سرکاری خط کے ضمن میں پیش کیا۔ ہیلوی نے واضح کیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے کندھوں پر عائد ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے کیا ہے۔
مزید پڑھیں: جماعت اسلامی 7 اکتوبر کو کیا کرنے جا رہی ہے؟
اسرائیلی فوج کے سربراہ نے مزید کہا کہ وہ بقیہ عرصے میں اندرونی تحقیقات پوری کرائیں گے اور سیکیورٹی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کی تیاری کو بڑھائیں گے۔ ہیلوی کے مطابق وہ سوچ سمجھ کر اور منظم طریقے سے فوج کی قیادت آئندہ سربراہ کے حوالے کریں گے بالخصوص جب کہ غزہ کی جنگ کے اہداف ابھی تک پورے نہیں ہو سکے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے گذشتہ برس موسم سرما میں مطالبہ کیا تھا کہ 7 اکتوبر (2023) کو حماس تنظیم کے حملے میں اسرائیلی جانب کی ناکامی کی سرکاری تحقیقات کرائی جائیں۔ گیلنٹ کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں انہیں اور وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے لیے حماس نے کیسے خصوصی فورس تیار کی؟
تاہم نیتن یاہو نے اس وقت گیلنٹ کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات جنگ ختم ہونے کے بعد کی جانی چاہیے، کیونکہ حکومت ہی ایک وسیع اختیارات والی سرکاری تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے، اور اس کے نتائج اہمیت اور وزن رکھتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
7اکتوبر اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ لیفٹننٹ جنرل ہیرزی ہیلوی نیتن یاہو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 7اکتوبر نیتن یاہو اسرائیلی فوج کے سربراہ نیتن یاہو فوج کی
پڑھیں:
غزہ سے حماس کے خاتمے میں ناکامی نے نیتن یاہو کو برا پھنسا دیا
غزہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2025ء)اسرائیل اورحماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی معاہدے سے بلاشبہ دونوں طرف کے اسیران کی رہائی ممکن ہو جائے گی اور اسرائیل کے بچے کھچے یرغمالیوں کے بحفاظت گھر واپس پہنچنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس معاہدے کے نتیجے میں ایک خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق وہ خطرہ یہ ہے کہ غزہ کے بر سر زمین حالات دنیا کے سامنے اس طرح آرہے ہیں کہ اسرائیلی فوج اس طویل تر جنگ کے باوجود اپنے اہم ترین اہداف غزہ سے حماس اور اس کے کردار کا خاتمہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جیسا کہ نیتن یاہو اپنے یہ اہداف دہرا دہرا کر کہتے رہے ہیں۔ اس طرح دہرا دہرا کہ سب سننے والوں کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ اسی چیز کو وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔(جاری ہے)
اس بارے میں ایک معروف تھنک ٹینک کے سینیئر کنسلٹنٹ اور پروفیسر یوسی میکلبرگ کی رائے ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت کے کئی اہم رہنمائوں کا ناراض ہو کر نکل جانا اور کئی کا جنگ بندی کی وجہ سے حکومت سے نکل جانے کی دھمکی دینے سے نیتن یاہو کئی حوالوں سے پھنس گئے ہیں۔
اس کے باوجود اس جنگ بندی معاہدے کے لیے نئے بن چکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھی اسرائیلی وزیر اعظم پر دبا تھا لیکن وہ پھنس سے گئے ہیں۔اس دوران یہ بھی ہو گیا کہ اسرائیلی میڈیا اور عوام کا فوکس بھی اسی طرف ہوگیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی اس جنگ کو ' ہینڈل ' کیسے کرتے رہی'پروفیسر یوسی میکلبرگ کے مطابق ایک طرف نیتن یاہو حکومتی اتحادیوں کو نہیں چھوڑنا چاہتے اور دوسری جانب وہ اقتدار چھوڑ کر عدالتوں میں کرپشن کیسز کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ یاد رہے نیتن یاہو ان دنوں چھٹی بار وزارت عظمی پر فائز ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیسز بھی بھگت رہے ہیں۔ اس لیے حکومت میں رہنا ان کی مجبوری ہے۔ انہیں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ امریکہ میں اب صدر جوبائیڈن نہیں ٹرمپ آگئے ہیں۔ اس لیے ان کی الجھن کا معاملہ سنگین ہے۔'پروفیسر یوسی میکلبرگ کا یہ بھی کہنا تھاسموٹریچ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیتن یاہو سے ناخوش ہے۔ بین گویر کی جماعت پہلے ہی حکومت چھوڑ گئی ہے۔ اگر یہ بھی حکومت چھوڑ جاتے ہیں تو نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کے لیے اکثریت برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ نئے انتخاب کی طرف جانے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عوام کی اکثریت انہیں اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتی ہے۔تھنک ٹینک کے سینیئر کنسلٹنٹ نے اسرائیلی جنگ کے ہدف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ' غزہ میں مکمل فتح اور حماس کے خاتمے کا ہدف ایک ذہنی اختراع تو ہو سکتی تھی عملی طور پر حاصل ہونے والا ہدف نہیں۔ اب جنگ بندی کے بعد اسرائیلی میڈیا نے بھی اپنا فوکس بدل لیا ہے۔ نیتن یاہو میڈیا کے سامنے آگئے ہیں۔ جو کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا جب تک حماس کا غزہ سے صفایا نہیں کر دیا جاتا۔ اب سب سے بڑا سوال اسی بارے میں ہونے لگا ہے۔اسی طرح دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا میڈیا نیتن یاہو کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ان سے ناخوش ہے۔ جبکہ عملیت پسندی سے تعلق رکھنے والا میڈیا بھی یرغمالیوں کو اس طرح واپس لانا ایک قیمت سمجھتا ہے۔ تاہم وہ یرغمالیوں کے واپس آنے کو اچھا جانتا ہے۔اسرائیلی عوام کی اکثریت اس جنگ بندی پر اس لیے خوش ہے کہ اس سے یرغمالی واپس آئیں گے۔ حتی کہ اس طرح بھی حماس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔پروفیسر یوسی میکلبرگ نے اس سوال پر کہ کیا نیتن یاہو نئے سرے سے جنگ شروع کر سکتے ہیں تاکہ غزہ میں اپنے اہداف حاصل کر لیں تو ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک ممکنہ منظر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہی ایک ممکنہ منظر ہوگا۔ بس ایک منظر ضرور ہے، یہی ایک منظر نہیں۔'