سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کے انتخابات کی قرارداد،پیپلزپارٹی نے جمہوریت دشمن و فسطائی رویہ اختیار کیا،محمد فاروق
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے عدالتی فیصلے ،اسمبلی سے منظور شدہ بل و قانون سازی کو ڈھائی سال سے زائد ہونے کے باوجود صوبے میں طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرائے جانے اور یونین کی بحالی کے لیے پیش کی جانے والی قرار داد پر پیپلز پارٹی کے موقف اور قرار داد کو مسترد کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی کی جمہوریت دشمنی اور بدترین فسطائیت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی وڈیرہ شاہی و جاگیردانہ سوچ اور آمرانہ ذہنیت کی حامل پارٹی ہے اسی لیے طلبہ کی قیادت اور ان کی طاقت سے خوفزدہ رہتی ہے، پیپلز پارٹی جمہوریت ، جمہوری حقوق اور سیاسی و جمہوری آزادیوں کی بات تو بہت کرتی ہے لیکن عملاً جمہوریت کش رویہ اور طرز عمل اختیار کرتی ہے ، بظاہر آمریت کی مخالف بننے کی کوشش کرتی ہے لیکن آمروں کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں ہٹانے کے بجائے اس کی حمایت کرتی ہے ، طلبہ یونین کے حوالے سے عدالتی احکامات، اسمبلی کی قانون سازی کے باوجود طلبہ کی یونین سازی اور طلبہ یونین کے انتخابات کا حق دینے پر تیار نہیں ۔ 11 فروری 2022 کو سندھ اسمبلی نے ”Sindh Students Union Act” منظور کیا تھا، جس کے مطابق تمام تعلیمی اداروں کو دو ماہ میں قواعد و ضوابط مرتب کرکے ہر سال طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد کرنا تھے لیکن ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سندھ بھر میں طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکا۔ طلبہ کو آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق یونین سازی کے بنیادی حق سے محروم رکھنا افسوسناک ہے۔24 اکتوبر 2024 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اپنے ایک فیصلے میں ملک بھر کی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کا حکم بھی جاری کیا اسکے باوجود حکم پر عملدرآمد نہ ہوناافسوس ناک اور قابل ِ مذمت ہے ،محمد فاروق نے کہا کہ پیپلز پارٹی روزِ اوّل سے آمروں کی سرپرستی میں پروان چڑھی ہے ، اس کو جب اور جہاں اختیار اور اقتدار ملا اس نے جمہوریت اور جمہوری اصولوں کو پامال کیا ہے اور اس کی حالیہ مثال کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہیں ، پیپلز پارٹی کسی صورت میں بھی سندھ اور بالخصوص کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دینا چاہتی تھی ، سندھ ہائی کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود ڈھائی ، تین سال تک تاخیری حربے استعمال کر کے مختلف رکاوٹیں ڈالتی رہی ، جماعت اسلامی کی تحریک و جدو جہد اور عوامی دبائو کے بعد اسے بلدیاتی انتخابات کرانا پڑے اور جب بلدیاتی انتخابات ہو گئے توعوامی رائے اور مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اور جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ محمد فاروق نے مزید کہا کہ طلبہ یونین ہمیشہ سے جمہوریت کی نرسری رہی ہیں اور ماضی میں طلبہ قیادت سے ہی ملک کو قیادت ملی ہے اور تعلیمی اداروں سے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلی ہیں لیکن بد قسمتی سے ایک طویل عرصہ ہو گیا طلبہ کوان کے جمہوری حقوق سے محروم اور طلبہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو دبایا گیا ہے ، طلبہ قیادت سے ہمیشہ آمروں کو خوف رہا ہے اور کیونکہ پیپلز پارٹی بھی وڈیرہ شاہی و جاگیردانہ سوچ اور آمرانہ ذہنیت کی حامل پارٹی ہے اسی لیے طلبہ کی قیادت اور ان کی طاقت سے خوفزدہ رہتی ہے ، ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر طلبہ یونین کے انتخابات یقینی بنائے جائیں اور طلبہ کو ان کا جائز وقانونی حق دیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں طلبہ یونین کے انتخابات بلدیاتی انتخابات پیپلز پارٹی محمد فاروق کے باوجود طلبہ کی کرتی ہے ہے اور
پڑھیں:
لاء کمیشن کیساتھ مودی حکومت قابل اعتراض رویہ کیوں اختیار کررہی ہے، کانگریس
جے رام رمیش نے کہا کہ 22ویں قانون کمیشن نے یکساں سول کوڈ کا جائزہ لینے کے ارادے کا دوبارہ اعلان کیا تھا، مگر اپنی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہی اس کمیشن کی مدت ختم کر دی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے 23ویں لاء (قانون) کمیشن کی تشکیل کا اعلان نہ کئے جانے پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سوال اٹھایا کہ آخر حکومت اس باوقار ادارے کے ساتھ ایسا قابل اعتراض رویہ کیوں اختیار کر رہی ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ 22ویں قانون کمیشن کو بغیر کسی رپورٹ پیش کیے 31 اگست 2024ء کو ختم کر دیا گیا۔ جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ 21ویں قانون کمیشن، جسے مودی حکومت نے مقرر کیا تھا، نے 31 اگست 2018ء کو 182 صفحات پر مشتمل ایک مشاورتی دستاویز جاری کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستانی ثقافت کے تنوع کا جشن منایا جانا چاہیئے اور اس عمل میں کسی بھی طبقے یا کمزور گروہ کو محروم نہیں کیا جانا چاہیئے، لہٰذا اس وقت یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی مطلوبہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 14 جون 2023ء کو جاری ایک پریس نوٹ میں 22ویں قانون کمیشن نے یکساں سول کوڈ کا جائزہ لینے کے ارادے کا دوبارہ اعلان کیا تھا، مگر اپنی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہی اس کمیشن کی مدت ختم کر دی گئی۔ جے رام رمیش نے کہا کہ 23ویں قانون کمیشن کا اعلان 3 ستمبر 2024ء کو کیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس کی تنظیم کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت قانون کمیشن جیسی معزز ادارے کے ساتھ ایسا قابل اعتراض سلوک کیوں کر رہی ہے۔ دوسری طرف اتراکھنڈ کابینہ نے پیر کو یکساں سول کوڈ کے قانون کی قواعد کو منظوری دے دی۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ قواعد کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کے نفاذ کی تاریخ کا اعلان جلد کیا جائے گا۔