WE News:
2025-01-22@06:52:02 GMT

جب 2 عظیم مصنفین نے 2 دن ایک ساتھ گزارے

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

گراہم گرین ممتاز ناول نگار تھے۔ ان کا نام نوبیل انعام کے لیے کئی بار شارٹ لسٹ ہوا۔ جب سنہ 1957 میں کاسترو کو اپنا انقلابی حملہ آغاز کیے چند ماہ ہوئے تھے، گرین نے انقلابیوں کی مدد کی۔

وہ خفیہ کوریئر کے ذریعے کاسترو کے باغیوں کو گرم کپڑے مہیا کرتے تھے۔ یہ باغی پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔ گرین کے بقول انہیں دلیر رہنماؤں سے خاص محبت تھی، جس کی وجہ سے انہیں کاسترو میں بھی دلچسپی تھی، بعد میں کاسترو سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

ایک ملاقات میں کاسترو نے گرین کو اپنی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ بھی تحفے میں دی جو گرین کے اس گھر کے ڈرائنگ روم میں لٹکی ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر انسان بھی موسم سرما سو کر گزار سکتے۔۔۔

وی ایس نیپاول بھی عظیم ناول نگار تھے۔ انہیں سنہ 2001 میں نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ وی ایس نیپاول نے اپنے سینیئر اور پسندیدہ ناول نگار گراہم گرین کے ساتھ فرانس کے جنوبی علاقے میں 2 دن گزارے جہاں گرین نے اپنے ادبی سفر، نظریات اور جنگ کے اثرات سے متعلق حیران کن اور دلچسپ باتیں کیں۔ یہ 1968 کا قصہ ہے۔ اس کی روداد نیپاول کی زبانی سنیے:

گراہم گرین فرانس میں 2 برس سے مقیم ہیں، فرانس کے بااختیار لوگ مصنف کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں، سفر کی سہولت ہے اور سفر گرین کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ ہمیشہ سے سیاسی مصنف تھے جو واقعات کے بڑے تسلسل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جب میں گرین سے ملا تو وہ کچھ دنوں کے لیے سیرا لون میں قیام پزیرتھے۔ ان کا ایک فلیٹ پیرس میں اور دوسرا اینٹبیز میں ہے۔ اینٹیبزکا فلیٹ کہ جہاں میں ان سے ملا چوتھی منزل پر ایک جدید بلاک میں واقع تھا۔ جہاں سلائیڈنگ والے شیشے لگے ہوئے تھے جو بیٹھک سے بالکونی تک جاتے تھے اور وہاں سے ساحل کا منظر کھلتا تھا۔

میں صبح 7 بجے وہاں پہنچا۔ گراہم گرین سبزی مائل پاجامے اور کھلی جیکٹ میں ملبوس تھے۔ ان کی ایک نئی کتاب تقریباً تیار تھی۔ یہ ایک سوانح تھی جوان کی زندگی کے ابتدائی 24 برسوں کے احوال پر محیط ہے۔ گرین بہت دھیمے انداز میں گفتگوکرتے تھے۔

مزید پڑھیے: ہم جدید سہولتوں کےدیوانے بھی ہیں اورمخالف بھی

انہوں نے بتایا کہ جنگ نے ان کی سفر کی خواہش کو ابھارا۔ ان کے بقول یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب انہوں نے محسوس کیا کہ برطانیہ رہنے کے لیے بہت چھوٹی جگہ ہے۔ جب ان کی 10 سال سے کام کرنے والی ملازمہ اچانک وفات پا گئی تو ان کے دل میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا۔ گرین کہتے ہیں کہ ’اگر وہ فوت نہ ہوئی ہوتی تو میرے لیے وہ جگہ چھوڑ نا کافی مشکل ہوتا۔ فرانس زیادہ سہولتوں کی حامل جگہ ہے اور کچھ حوالوں سے کم پریشان کن۔ فرانس میں اب بھی ایک متکبر طبقہ موجود ہے لیکن فرانس کے متوسط طبقے میں ایسے لوگ کم ہیں۔ ٹیکسی والا آپ کو صاحب کہتا ہے اور آپ اسے، میرے لیے یہ کافی اطمینان بخش ہے لیکن یہ سب شاید اس لیے ہے کیونکہ میں نے برطانیہ کو اس وقت چھوڑا جب تبدیلی آرہی تھی‘۔

فرانس کی اپنی طرح کی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے لیکن گرین کو کوئی پریشانی نہیں۔ یہ سرحد پر زندگی گزارنے والوں کے لیے معمول کا ایک حصہ ہے اور فرانسیسی سیاست وسیع اور ڈرامائی ہے۔

سنہ 1958 میں جنرل ڈیگال نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی جس میں شرکت کے لیے گرین فرانس آئےتھے۔ ان کا کوئی باقاعدہ پروگرام نہ تھا، وہ صرف اپنی دلچسپی کی وجہ سے گئے تھے اور ان کے پاس کوئی اجازت نامہ بھی نہ تھا لیکن انہیں کسی نے نہ روکا۔ ان کا خبر کا شعور بہت باکمال ہے اور گرین کے بقول’مجھے اخبارات کا مطالعہ ہمیشہ سے پسند ہے، اس پرمیرے دشمن شاید یہ کہیں کہ میں اپنے خیالات مذہبی کاموں اور اخبارات سے لیتا ہوں‘۔ اینٹیبز میں وہ روزانہ 3 روزناموں کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار اخبارات بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مقامی اخبارات پڑھتے ہیں۔

انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا لیکن زیادہ امید کے بغیر۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق بائیں بازو سے رہا اور یہ تفہیم ان کی اپنی ہے۔ افریقہ نے انہیں پریشان کیا جہاں انہیں لگتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام مزید 100 برس رائج رہے گا، وہ بیلجئم کے انخلا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ گرین امریکا کی جنوب ایشیا اور لاطینی امریکا میں پالیسیوں کے بھی سخت ناقد ہیں۔

مزید پڑھیں : اپنی ہر کتاب الگ کمرے میں بیٹھ کر مکمل کرنے والا ممتاز فکشن نگار

گرین  انڈین ناول نگار آر کے نارائن کی بہت تعریف کرتے ہیں جو میسور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ہی سنہ 1935 میں  نارائن کا پہلا ناول لندن پبلشرز کو دیا تھا۔ یہ عجیب دوستی ہے۔ گرین کے بقول’نارائن سبزی خور اور سیاست میں عدم دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ سنکسرت پڑھ پڑھ کروہ ادھیڑ عمر میں مکمل ہندوستانی بن گئے ہیں اور مجھے ہندو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں‘۔ نارائن کی دوستی کے سبب ہی گرین نے ایک انڈین ماہر نجوم سے کچھ برس قبل اپنا زائچہ بنوایا تھا۔ اس کی  داستان وہ کچھ یوں سناتے ہیں ’اس کی زبان بہت مرصع تھی۔ اس نے میری والدہ کی تاریخِ وفات مانگی لیکن میں نے اسے ان کی تاریخ پیدائش دی۔ اس نے کہا مجھ پر مالک کا احسان ہوگا۔ اوریہ بھی کہا کہ  میرے ارد گرد گاڑیاں ہی گاڑیاں رہا کریں گی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں 60 اور 100 سال کے درمیان وفات پاؤں گا جو کافی حد تک درست ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ میں 72 سال کی عمر میں وفات پاؤں گا۔ یہ حادثہ ایک بحری سفر سے واپسی پر ہو گا جو کافی مناسب بات ہے‘۔

گراہم گرین نے 30 کتابیں لکھیں (اس وقت تک)، حیران کن بات یہ ہے کہ انھوں نے نوجوانی میں ہر 9 ماہ میں ایک کتاب لکھی۔ گرین خود کہتے ہیں کہ’ایک لکھاری کے پاس اپنے آپ سے چھپانے کے لیے کوئی راز نہیں ہوتا اور گرین کے اپنے کام کے بارے میں تجزیے ان کی مسلسل کامیابی اور نقادوں کی یقینی دہانیوں سے الگ ہیں۔ ایک جیسی باتیں بار بار کہی جاتی ہیں، بندہ بور ہو جاتا ہے، انسان اپنے بارے میں اس طرح پڑھ نہیں سکتا، کیا ایسا نہیں؟ یہ ہمیشہ خود کو ایک مسخرہ محسوس کرانے والی بات ہے‘۔

جب میں اور گرین ریسٹورنٹ کی طرف گئے تومجھے وہ علاقہ کافی مانوس لگا۔ لیکن وہاں ایک سرپرائز تھا، انہوں نے ایک اونچے خوبصورت گھر کی طرف اشارہ کیا ’اس گھر میں پال گلیسو رہتا ہے، ایک بہترین کینیڈین‘۔ جب ہم ریسٹورنٹ پہنچے تو وہ سارا خالی تھا سوائے پیٹرن اور پیٹرونی کے جو ہمارا انتظار کرر ہے تھے۔ لیمونی ہماری منتظر تھی، یہ گرین کی پسندیدہ خوراک تھی۔ یہ ان 2 ریستورانوں میں سے ایک تھا جن میں گرین جاتے تھے۔ ہم اندر کے کمرے میں گئے۔ وہاں کا سربراہ لکڑی کی سل پر مچھلی لایا اور دکھائی، سلاد کے بعد اور وائن کے بعد تیار مچھلی پیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے: ایک مکینک سے نوبیل انعام کے حصول تک کا سفر

انہیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب گرین کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ ان کے پہلے ناول کی توبس 8 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور بعد کی کتابوں کے ساتھ تواتنا بھی نہ ہوا، The Power and the Glory  جو 10 سال بعد شائع ہوا، اس کی محض ساڑھے 3 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں لیکن The Comedians جو 1966 میں شائع ہوا کی 60 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے بعد تو کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔

نیپاول کے بقول جب گرین مجھے رات گئے اسٹیشن پر رخصت کرنے آئے تو کہنے لگے کہ کل ہیٹی کے کچھ انقلابی مجھ سے ملنے آئے تھے، انھوں نے بتایا کہ ان کی ریل کار 9.

50 پر چلتی ہے، سو ہم نے رات کا کھانا کھایا اور اوریہاں سٹیشن پر آگئے لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ ریل کار تو گھنٹہ پہلے یعنی 8.50 پر جا چکی ہے، مجھے بتائیں اگر آپ اپنی ریل کار کو اچھی طرح منظم نہیں کر سکتے تو ایک انقلاب کو کیسے منظم کریں گے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

فرانس فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار آر کے نارائن ناول نگار گراہم گرین وی ایس نیپاول

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار ا ر کے نارائن نوبیل انعام گراہم گرین انہوں نے کے بقول گرین کے ہے لیکن کے ساتھ کہ میں نہ تھا ہیں کہ کے بعد کے لیے ہے اور یہ بھی

پڑھیں:

اہم دینی و ملی مسائل ایک نظر میں

میزبان کا پہلا سوال صحابہ کرامؓ کے قرآن کریم کے ساتھ تعلق کے بارے میں تھا جس پر گفتگو کا آغاز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے کیا کہ ’’جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے تو ایسے آدمی کو بنائے جو وفات پا چکا ہے کیونکہ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’اقتدا کے قابل صحابہؓ کی جماعت ہے جو دل کے انتہائی نیک اور علم میں گہرے تھے‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اس دور کے حالات کے بھی اولین راوی ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا کو ایمان کی دعوت اس طرح دی کہ ’’ان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘ اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا تم اصحابِ رسول ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں ورنہ وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دین اور حق و صداقت کا معیار قرآن کریم نے قرار دیا ہے۔
ایک اور پہلو یہ عرض کیا کہ دین کی بنیاد قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور جماعتِ صحابہ کرامؓ ہے۔ اس حوالے سے کہ قرآن کریم اصول و ضوابط ہیں جس کی عملی شکل جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے، جبکہ صحابہ کرامؓ کی جماعت اس کی اجتماعی اور سماجی صورت ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ اس کا ترجمہ میں یوں کیا کرتا ہوں کہ جو قرآن پاک میں تھیوری کے طور پر ہے، وہ سنت میں پریکٹیکل کے طور پر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کسی صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ہم صحابہؓ کا احترام کرتے ہیں لیکن صحابیؓ کون ہے، اس کی ’’تعریف‘‘ ہونی چاہیے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ وہ ہو چکی ہے، اسے اب ری اوپن نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرامؓ وہی ہیں جنہیں امت چودہ سو سال سے صحابہؓ سمجھتی ہے اور جن کا محدثین نے اسمائے رجال کی کتابوں میں صحابہؓ کے طور پر درجہ بندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں اہلِ بیت بھی ہیں، مہاجرین بھی ہیں، انصار بھی ہیں، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان میں درجہ بندی ضرور ہے لیکن بطور حجت اور آئیڈیل ہونے میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
ابو زرعہ رازیؒ کا قول ’’اذا رايت الرجل ينتقص احداً من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اسی حوالے سے ہے کہ اگر کسی کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا عیب بیان کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ دین کے گواہوں کو مجروح کر رہا ہے۔ اس پر تدوینِ قرآن کریم کا واقعہ بھی ذکر کیا کہ جب حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر فرمایا کہ حفاظ کرام شہید ہوتے جا رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حافظ یونہی شہید ہوتے گئے تو قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے، آپ حضورؐ کے بڑے کاتب رہے ہیں اس لیے آپ قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ دیں۔
حضرت زید بن ثابتؓ اپنا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ میں خود حافظ تھا لیکن بہرحال میں ایک شخص تھا، تو میں نے یہ اصول طے کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت، کوئی سورت اور کوئی ترتیب جو میں نے حضورؐ سے سن رکھی ہے، اس پر اپنے علاوہ دو گواہ اور تلاش کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ اس کا ذکر میں حضرت صدیق اکبرؓ سے کیا تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم جمع کرنے اور تقابل کرنے میں تقریباً‌ چھ مہینے لگے۔ کسی کے پاس ہڈی پر کچھ لکھا ہوا تھا، کسی کے پاس پتے پر، کسی کے پاس کھال پر۔ سارا قرآن کریم مکمل کر لیا لیکن دو مقامات پر مجھے اپنے علاوہ صرف ایک گواہ مل رہا تھا جو حضرت خزیمہ بن ثابتؓ تھے۔ ایک سورۃ یونس کی آخری دو آیات تھیں ’’لقد جاءکم رسول من انفسکم…الخ‘‘ اور ایک سورۃ الاحزاب کی آیت ’’من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ…الخ‘‘ تھی۔ فرماتے ہیں کہ بہت کوشش کی لیکن کوئی اور گواہ نہ ملا تو میں یہ معاملہ لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں چلا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ کون ہے؟ میں نے بتایا تو فرمایا کہ وہ ’’شہادتین‘‘ والا خزیمہ؟ جس کی گواہی کو حضور نبی کریمؐ نے دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی وہی۔ فرمایا، پھر تو کام ہو گیا۔
اس لیے صحابہ کرامؓ ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں اور ان کو مجروح کرنے کا مقصد دین کی بنیادیں ہلانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
میزبان کا اگلا سوال صحابہ کرامؓ پر ہونے والے تبرا کے بارے میں تھا کہ اس پر حکومت کیوں ایکشن نہیں لیتی اور علماء کرام کیوں خاموش ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حکمران کچھ نہیں کرتے تو ان کی اپنی مصلحتیں ہیں لیکن اہلِ علم نے ہر دور میں اعتراضات کا جواب دیا ہے، آپ کسی بھی دور کا لٹریچر دیکھ لیں۔ البتہ آج کے حالات میں اس کے دو پہلو قابل غور ہیں۔
ایک یہ کہ آج کسی قدغن اور پابندی کے بغیر آزادئ رائے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے اس نے بہت سی زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے اور ’’کل جدید لذیذ‘‘ کے مصداق پر ہر کوئی ہر کسی مسئلہ پر بحث کر رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم جو علماء کہلاتے ہیں، ہمیں مطالعے کا ذوق نہیں رہا، ہم بھی سنی سنائی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں متقدمین سے، امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر اب تک ہمارے اہلِ علم نے مسائل اور سوالات کا جواب نہ دیا ہو۔ مثلاً‌ اس مسئلہ پر امام ابن تیمیہؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے بہت کام کیا ہے، میں نوجوان علماء سے کہا کرتا ہوں کہ ان کا مطالعہ کریں اور پھر اگر کوئی سوال رہ جائے تو اس کا حل تلاش کریں۔
دراصل ہمارے ہاں مطالعہ کی کمی کے ساتھ ساتھ سنی سنائی باتوں سے متاثر ہونے اور انہیں بلاوجہ موضوع بنانے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً‌ مجھ سے آج ہی ایک صاحب نے سوال کیا کہ فلسطین کے دو گروپوں میں جو اختلاف ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ میں نے کہا کہ بھائی اگر نہر میں ڈوب رہا ہو تو اس کو پہلے نکالا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ڈوبنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے۔ اصل صورتحال دیکھے بغیر سوال جواب اور بحث مباحثے کا رواج سا بن گیا ہے جس کا نتیجہ ادھورے سوالوں کے ادھورے جوابات کی صورت میں سامنے آتا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے میں نوجوان علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پہلے مطالعہ کریں، اپنے بزرگوں کو پڑھیں، کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب موجود نہ ہو، لیکن اس کے لیے مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال آج کے حالات میں علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تھا۔ علماء کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھیں کیونکہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ جو اپنے زمانے والوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کتابی علم اور مباحث کو جانتے ہیں لیکن جس معاشرے پر ان کا اطلاق کرنا ہے اس کو نہیں جانتے۔ اس کی مثال میں نے یہ عرض کی کہ ایک بیج کو میں جانتا ہوں اور اس کے تقاضے سمجھتا ہوں لیکن اس زمین کو نہیں جانتا جس میں وہ زمین بویا جائے گا۔ اس لیے کتاب کا علم تو لازمی بات ہے لیکن اس کے ساتھ سوسائٹی سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور تفقہ دراصل اسے ہی کہتے ہیں۔
میزبان نے سوال کیا کہ دینی مدارس نے تو ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن آج کے ماحول اور اس سوشل میڈیا کے دور میں علماء کرام کو بطور خاص کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا کہ علماء کرام جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں اس کی نفسیات سمجھیں اور اس کی فریکونسی میں بات کریں۔ دوسری بات یہ کہ مسائل میں اختلاف بہرحال ہوتا ہے، جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف بھی ہو گا، اور اختلاف نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اختلاف کو اختلاف سمجھیں، جھگڑا نہ بنائیں۔ میں علماء کرام کو باہمی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ علاقے کے علماء کبھی آپس میں مل بیٹھ کر چائے پی لیا کریں۔ علاقے کے لوگوں کو مقامی علماء کرام اکٹھے بیٹھے چائے پیتے ہوئے اور خوش دلی سے گپ شپ کرتے نظر آجائیں تو سمجھیں آدھا کام ہو گیا۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • شہدادپور: انجمن دائرہ اسلام ویلفیئر کے زیر انتظام پروگرام 30 جنوری کو ہو گا
  • نوجوانوں کی تعلیم و تربیت؛ گرین اسکلز ٹریننگ پروگرام کیلیے یونیسیف سے معاہدہ
  • امریکا کو پھر سے عظیم بناؤں گا، آج کا دن امریکی شہریوں کی آزادی کا دن ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاراچنار کے راستے فوراً کھولے جائیں، علامہ عارف حسین واحدی
  • غزہ کی فتح عظیم اور تاریخی ہے، ہماری انگلی ٹریگر پر ہے، سید بدرالدین حوثی
  • چین اور امریکہ دونوں عظیم ملک ہیں، چینی نائب صدر
  • صحرائے تکلمکان کے گرد گرین بیلٹ
  • سبزہ زار :شیر کے حملے سے شہری شدید زخمی، تحقیقات جاری 
  • اہم دینی و ملی مسائل ایک نظر میں