یونین کی محنت اجتماعی جدو جہد ہی کا نتیجہ ہے، شکیل شیخ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) ٹریڈ کارپوریشن ایمپلائز یونین سی بی اے کی الیکشن میں زبردست کامیابی اور چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری پر نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شکیل احمد شیخ ، این ایل ایف حیدرآباد زون کے صدر عبد القیوم بھٹی، سینئر نائب صدر مبین احمد راجپوت، سیکرٹری اعجاز حسین، انفارمیشن سیکرٹری محمد احسن شیخ اور دیگر نے سی بی اے یونین کے صدر محمد علی، جنر ل سیکرٹری فہیم عباسی کو شاندار کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپکی محنت اور جدو جہد اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں انتھک جدو جہد کرنے پر این ایل ایف خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اس موقع پر شکیل احمد شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونین کی محنت اور اجتماعی جدو جہد ہی کا نتیجہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ جو کہ محنت کشوں کے معاملات اور مراعات کے سلسلے میں پیش رفت ہے اس کو پایا تکمیل کو پہنچنے پر بھی انتظامیہ کا بھی اعتماد یونین کو حاصل ہے ٹریٹ کارپوریشن ایمپلائز یونین سی بی اے ایک تاریخ ساز ریکارڈ رکھتی ہے اور حیدرآباد کی قدیم یونین ہونے کا اعزاز بھی اس یونین کو حاصل ہے موجودہ قیادت ، موجودہ صدر محمد علی اور جنرل سیکرٹری فہیم عباسی کی قیادت میں سی بی اے یونین ملازمین کے بہتر مستقبل کے لیے بھی کوشاں ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سی بی اے
پڑھیں:
کنفیوژن 26 ویں ترمیم کی سماعت سے انکار کا نتیجہ، بیرسٹر اسد رحیم
اسلام آباد:بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا ہے کہ ساری کنفیوژن 26 ویں ترمیم کی آئینی حیثیت کیخلاف سماعت سے انکار کا نتیجہ ہے۔
عدلیہ کا ڈھانچہ مکمل تبدیل کرنیوالی اس ترمیم کے فوری سماعت ہونا چاہیے تھی، اس کے برعکس 3ماہ سے سرد خانے میں پڑی رہی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے بینچز اپنے دائرہ اختیار کے حدود پرمحو حیرت ہیں۔
سپریم کورٹ کی صورتحال پر ردعمل میں ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ معاملے پر آئینی بینچ میں سماعت کی تاریخ مقرر کرنا حل نہیں کیونکہ اس بینچ کی آئینی حیثیت ہی چیلنج کی گئی ہے، ایک آئینی بینچ اپنی حیثیت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ موجودہ صورتحال 1997 میں سپریم کورٹ پر حملے سے زیادہ ابتر ہے، 26 ویں ترمیم اور اس کے حامیوں نے اعلیٰ عدلیہ اور اس کا کردار انتظامیہ کے ماتحت کر دیا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے اندر امتیاز پیدا کرکے ججوں میں گروپ بندی کر دی گئی ہے جس میں بعض جج دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں، جس کا نتیجہ میں چیف جسٹس سمیت بیشتر کو عدالتی نظرثانی سے روک دیا گیا ہے۔