’’اڑان پاکستان‘‘ وہ کامیابی کی کنجی جس پر شہباز شریف کی دسترس ہے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
لاہور (فیصل ادریس بٹ) وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے’’اڑان پاکستان‘‘ کے عنوان سے دس سالہ معاشی پروگرام پیش کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 2035ء تک ملکی معیشت کا حجم ایک کھرب ڈالر اور 2047ء تک تین کھرب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ جو بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی حکومت نے کبھی معاشی محاذ پر ایسے منصوبے پیش نہیں کئے ہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمی کے تینوں ادوار میں اسی طرح کے گیم چینجر پراجیکٹس لائے جاتے رہے ہیں۔ اڑان پاکستان پروگرام اور وژن سنٹرل ایشیا جیسے انقلابی منصوبے اصل میں نوازشریف کے ہی برین چائلڈ ہیں جن پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باوجود ملک کو معاشی لحاظ سے کامیاب کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم اپنی بے مثال محنت، لگن، وژن سے کامیاب کیا ہے اور اس کا کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں شہباز شریف کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا جنہوں نے اڑان پاکستان جیسا پروگرام متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں پانچ سیکٹرز انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ، زراعت، معدنیات، افرادی قوت اور بلیو اکانومی کے فروغ سے برآمدات کو سالانہ 60 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے تحت سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کرنے، درآمدات پر انحصار کم کرنے اور پائیدار ترقی کے اقتصادی امکانات کو بڑھانے کیلئے ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعات کو عالمی معیار کے طور پر برانڈ کرنے کیلئے کام کیا جائے گا اور ایسا بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ میڈ ان پاکستان پراڈکٹس کو پروموٹ کیا جارہا ہے اور یہی وہ کامیابی کی کنجی ہے جس پر شہباز شریف کی دسترس ہوچکی ہے اور اب پاکستان کو دنیا بھر میں اڑان بھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہباز شریف کی قیادت نے واضح کردیا ہے عزم وہمت سے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان میں معاشی پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل کرنا بہت ہی کٹھن و دشوار رہا ہے۔ سی پیک کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ان سب معاملات کے باوجود معیشت کو نہ صرف سنبھال لیا مہنگائی میں کمی کرکے عام آدمی کو ریلیف دے دیا اور اب مستقبل کا معاشی پلان بھی سامنے لے آنا شہباز شریف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ حکومت کے مطابق اڑان پاکستان پروگرام میں قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے متعلقہ قوانین کو آسان بنانے کے علاوہ مختلف مراعات بھی دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کو ترقی دینے کیلئے تحقیق، اختراع اور صنعتی ترقی کے حامل آئیڈیاز و منصوبوں کیلئے فنڈز اور گرانٹس کی شکل میں مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں عوامی شراکت داری کیلئے پبلک، پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں تاکہ نجی شعبے کو سرمایہ کاری کیلئے پیداواری مواقع فراہم کر کے غیر پیداواری شعبوں میں منجمد سرمائے کو گردش میں لایا جا سکے۔ اس پروگرام کے دیگر اہم اہداف میں یونیورسل ہیلتھ کوریج انڈیکس کو 12 فیصد تک بڑھانا، شرح خواندگی میں 10فیصد اضافہ، لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت میں 17 فیصد اضافہ، نوجوانوں کی بے روزگاری کو چھ فیصد تک کم کرنا اور گڈ گورننس کو فروغ دے کر حکومت کے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا شامل ہے۔ بنیادی اہداف کے تناظر میں یہ دس سالہ معاشی پروگرام خوش آئند ہے کیونکہ ماضی میں اس حوالے سے حکومتوں کو خاص طور پر تنقید کا سامنا رہا ہے کہ طویل المدت بنیادوں پر پالیسی سازی کا عمل ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ تاہم اس منصوبے کے آغاز سے قبل ان بنیادی مسائل کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے جن کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے۔ ان مسائل کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں حل کئے بغیر پاکستان میں ترقی یا معاشی استحکام ناممکن ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کا مجموعی جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ برآمدات کا مجموعی حجم 30 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معاشی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے جبکہ مینو فیکچرنگ سیکٹر کی شرح نمو منفی ہے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور 2026 تک یہ شرح 40 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ ایسے میں اس پروگرام کے تحت طے کیے گئے اہداف پاکستان کی معیشت کے موجودہ اشاریوں کے مقابلے میں قدرے غیر حقیقی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں قومی معیشت کے حجم کو ایک کھرب ڈالر کرنے کے ہدف کو امید یا خواہش قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ہدف حاصل ہونا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اس وقت حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے کردہ محصولات کی وصولیوں میں کمی کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں انرجی ٹیرف میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کا عمل کافی عرصے سے منجمد ہے۔ ایسے میں ایک سال کے اندر برآمدات کا حجم 30ارب ڈالر سے بڑھا کر 60ارب ڈالر کرنے کا ہدف حاصل کرنا کارے دارد ہے۔ تاہم اگر حکومت اس حوالے سے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس دس سالہ معاشی پروگرام کے اہداف حاصل کرنے کیلئے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر انہیں درپیش مسائل کو فوری حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے جس کیلئے ’’ای پاکستان‘‘ کے تحت فری لانسنگ انڈسٹری بالخصوص انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کیلئے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ کی فراہمی اور سپیڈ میں تعطل یا رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ سو ملین سے زیادہ صارفین تک موبائل کنیکٹویٹی بڑھانے، آرٹیفشل انٹیلی جنس پر مبنی جدید فریم ورک تیار کرنے اور سائبر سکیورٹی کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی۔ اسی طرح ٹیکنالوجی بیسڈ ’’سٹارٹ اپس‘‘ کو فروغ دینے کیلئے مناسب ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی آئی ٹی کمپنیاں اور سٹارٹ اپس بھی ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد مالیت کی عالمی کمپنیوں میں شامل ہو سکیں۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد مالیت کی 1500کمپنیوں میں سے 703 کا تعلق امریکہ اور 110 کا بھارت سے ہے جبکہ پاکستان میں بڑے سے بڑا کاروباری ادارہ یا گروپ بھی اس فہرست میں شامل نہیں۔ اسی طرح فرنیچر مینوفیکچرنگ، فیشن اور مذہبی سیاحت کے شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں پاکستان کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں جہاں پاکستان کے فرنیچر اور فیشن سے متعلقہ مصنوعات اور سروسز کی بہت زیادہ مانگ ہے وہیں مذہبی سیاحت کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں آباد مختلف مذاہب بالخصوس سکھ اور بدھ مت کمیونٹی کیلئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شعبوں کو صنعت کا درجہ دیا جائے تاکہ ان شعبوں میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے کھولے جا سکیں۔ جس طرح کی امید شہباز شریف نے پاکستان کو دی ہے اب اس پر اسی تیزی سے عمل درامد ہونا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی نقشے پر ایک مضبوط معاشی وخود مختار ریاست کے طور پر ہمیشہ قائم و دائم اور چمکتا و دمکتا رہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پروگرام کے تحت شہباز شریف کی اس پروگرام کے شہباز شریف نے اڑان پاکستان پاکستان میں کی ضرورت ہے ان پاکستان علاوہ ازیں کرنے کیلئے دینے کیلئے پاکستان کی ارب ڈالر کرنے کی دینے کی کو فروغ
پڑھیں:
رمضان شوگر مل ریفرنس وزیراعظم کے وکیل سے بریت کی درخواست پر دلائل طلب
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2025 )اینٹی کرپشن عدالت نے رمضان شوگر مل ریفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل سے بریت کی درخواست پر آئندہ سماعت پر دلائل طلب کر لیے ہیںاینٹی کرپشن کورٹ کے جج سردار محمد اقبال ڈوگر نے وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس پر سماعت کی، شہباز شریف کی جگہ ان کے پلیڈر انوار حسین حاضری کیلئے پیش ہوئے.(جاری ہے)
دوران سماعت معاون وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ شہباز شریف کے سینئر وکیل امجد پرویز آج دلائل کیلئے دستیاب نہیں مہلت دی جائے، عدالت نے آئندہ سماعت پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز سے بریت کی درخواست پر دلائل طلب کر لئے سابق وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز حاضری کیلئے عدالت پیش نہ ہوئے حمزہ شہباز کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز بیٹی کا چیک اپ کرانے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں عدالت حمزہ شہباز کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرے. عدالت نے حمزہ شہباز کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 جنوری تک ملتوی کر دی یاد رہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اینٹی کرپشن کورٹ میں بریت کی درخواست دائر کر رکھی ہے نئے نیب قانون کے تحت یہ کیس احتساب عدالت سے اینٹی کرپشن کورٹ منتقل ہوا ہے شہباز شریف پر سرکاری خزانہ سے رمضان شوگر ملز کے فائدہ کیلئے گندہ نالہ کی تعمیر کا الزام ہے.