پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چلتے مقدمات واپس لینا شروع کر دے گی تو عدلیہ کی آزاد ختم: جسٹس منصور
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لینا شروع کردے گی تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہوگئی۔ جہاں محسوس ہو کہ فیصلہ حکومت کیخلاف ہوسکتا ہے تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے۔ یہ درست نہیں۔ سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ سماعت نے کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا۔ جسٹس عقیل نے استفسار کیا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی، اب ادراک کیسے ہوا؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اس پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا تھا یا آپ نے درخواست کی؟۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھاگیا؟۔ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا تھا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کمیٹی کو بھیجا گیا آفس نوٹ پیش کردیا۔ رجسٹرار آفس کا نوٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے مؤقف سے متضاد نکلا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا دیا تھا کہ کس بینچ میں لگنا ہے۔ رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کمیٹی نے آئینی ترمیم کے مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہوسکتے ہیں کون سے نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آگیا تو کمیٹی کا کام ختم ہوگیا۔ یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آگیا۔ آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈلا ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہورہا تھا، ٹیکس کیس میں کون سا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو مقدمہ واپس لے لیا۔ عدالت نے معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کئے گئے موقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے بتایا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے کہ اس کیس میں وہ لے سکتی ہے یا نہیں، مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا، اجلاس میں آنا لازمی نہیں۔ ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ایک مقدمہ سننے سے کیوں اتنی پریشانی ہوگئی کہ کیس ہی منتقل کر دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک ہے، جب کیس چل پڑے تو اس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہوجاتا ہے، کہا گیا کہ معاملہ ریسرچر کے پاس چلا گیا ہے۔ رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ریسرچر کا روز ذکر آرہا ہے، یہ ایک شخص نہیں پورا سیل ہے، سپریم کورٹ میں ریسرچ سیل موجود ہے، یہ آپ کے علم میں ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ مجھے نہیں علم تھا آپ کے اندر ایک وکیل بھی ہے، ہم تو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو سننا چاہتے تھے جس نے یہ سب کیا، آپ انتظامی افسر ہیں، پتہ نہیں آپ کو اس معاملے میں کیوں لایا جارہا ہے۔ رجسٹرار نے کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل بیماری کے باعث رخصت پر ہیں، جب ایڈیشنل رجسٹرار واپس آئیں گے تو وہ بھی عدالت کو جواب دیں گے۔ کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے خلاف جا سکتی ہے؟۔ کیا ججز کمیٹی کسی بینچ سے زیر سماعت مقدمہ واپس لے سکتی ہے؟۔ عدالت نے قانونی سوال پر حامد خان اور منیر اے ملک کو معاون مقرر کر دیا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کی ہدایت کر دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت اس نکتے پر بھی کروں گا کہ توہین عدالت کیس میں کمیٹی کے فیصلوں کا جائزہ لیا جا سکتا یا نہیں، اس وقت عدالت کے سامنے صرف توہین عدالت کا کیس ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ رجسٹرار نے کمیٹی فیصلے کو اپنے دفاع میں پیش کیا ہے، وہ کمیٹی فیصلہ درست تھا یا نہیں ہم اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کسی ڈی لسٹ کر دیا گیا۔.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے نے ریمارکس دیے کہ ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ میں توہین عدالت نے کہا کہ عدالت نے نے کمیٹی کمیٹی کو کمیٹی کا کورٹ نے سکتی ہے کر دیا
پڑھیں:
پی ٹی آئی رہنماؤں پر مائنز اینڈ منرل بل سے متعلق بیانات پر پابندی عائد
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں مائنز اینڈ منرل ترمیمی بل سے متعلق بیانات پر پابندی عائد کرتے ہوئے بل کی منظوری عمران خان کی اجازت سے مشروط کردی۔
نجی ٹی وی کے مطابق پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی نے معدنیات بل کی منظوری عمران خان کی اجازت سے مشروط کردی جب کہ بل پر بریفنگ کے لئے منتخب نمائندوں کا اجلاس چودہ اپریل کو طلب کرلیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے مائنز اینڈ منرل ترمیمی بل کے معاملے پر سخت ہدایات جاری کیں جب کہ کمیٹی نے صوبائی حکومت کو بلز پر جلد بازی نہ کرنے کی بھی ہدایات دے دی۔
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ بلز پر کسی کارکن یارکن نے بات کی تو اس کے خلاف کاروائی ہوگی جب کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر بل اسمبلی میں پیش نہ کرے۔
دوسری جانب، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے منرلز اینڈ مائنز ایکٹ 2025 کو مسترد کردیا۔
اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ منرلز اینڈ مائنز کا ایکٹ پہلے سے موجود ہے، نئے ایکٹ کی ضرورت ہی نہیں، یہ بل 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ہے جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہر صوبے کا اپنے قدرتی وسائل پر حق ہوگا۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل 2025 کے معاملے پر پی ٹی آئی رہنماؤں میں اختلافات سامنے آئے تھے۔
مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور عاطف خان کے درمیان واٹس گروپ میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔
عاطف خان نے پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے واٹس ایپ گروپ میں مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بل عوام کے حق میں نہیں ہے۔
مزیدپڑھیں:ڈائر وولف کے بعد قدیم ہاتھیوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ شروع