مسلم لیگ (ن) کی ہر حکومت میں وزیر اور 2017 میں وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت پی ٹی آئی نہیں، سیاستدانوں کی ناکامی ہے۔
ہمیں ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے، اگر آئین پسند نہیں تو اس میں بہتر ہے ترمیم کرلی جائے مگر آئین کو توڑنا نہیں چاہیے اور آئین پر عمل ہونا چاہیے۔ عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر جس میں شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کے سوا کوئی تیسرا اہم و نامور سیاستدان موجود نہیں اور یہ پارٹی رجسٹرڈ بھی ہو چکی ہے کہ سربراہ شاہد خاقان عباسی اس لیے بھی منفرد اور سینئر سیاستدان ہیں۔
ان کے والد خاقان عباسی بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور وہ حلقے میں ذاتی رقم سے بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی مشہور و مقبول تھے۔ شاہد خاقان عباسی (ن) لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ 8 فروری کو میاں نواز شریف کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم الیکشن ہارگئے ہیں تو آج ملک اس دوراہے پر نہ ہوتا۔
شاہد خاقان عباسی 2024 کے انتخابات سے قبل اپنے متنازع بیانات کے باعث (ن) لیگ سے دور ہوگئے تھے مگر نواز شریف پھر بھی انھیں عزت دیتے ہیں۔ شاہد عباسی سیاستدان کے بجائے دانشور بن کر بیانات دیتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی طویل عرصے سے سیاست میں ہیں۔ ان کے سامنے ہی بانی پی ٹی آئی نے اپنی جماعت بنائی تھی جس کو 2011 تک عوامی مقبولیت 15 سالوں میں نہیں مل سکی تھی اور کرکٹ کی وجہ سے وہ مقبول بھی تھے مگر سیاست میں اس وقت تک ناکام رہے جب تک انھیں اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کرداروں کی خفیہ سرپرستی نہیں ملی تھی جو آئین کے خلاف تھی مگر پی ٹی آئی اس سرپرستی پر نازاں تھی اور 2014 میں پی ٹی آئی کے اپنے سرپرستوں کی مدد سے (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف طویل ناکام دھرنا بھی دیا تھا۔ اس وقت بھی ملک کے پرانے سیاستدان پی پی اور (ن) لیگ میں تھے جو باریاں لے کر حکومت بناتی تھیں اور تمام مشہور سیاستدان ان حکومتوں میں شامل ہوتے تھے اور اپنے اپنے مقصد میں کامیاب تھے جو ان کی ناکامی نہیں تھی۔
پی پی اور (ن) لیگ حکومتوں سے مایوس سیاستدانوں اور نامور شخصیات نے پی ٹی آئی کے قیام کو ابتدا میں ملک کے لیے بہتر سمجھ کر اس میں شمولیت بھی اختیار کی تھی اور انھیں بانی پی ٹی آئی سے بڑی توقعات تھیں مگر جب تک ان پر بالاتروں کا ہاتھ نہ آیا پی ٹی آئی ناکام تھی اور آج بھی ناکام ہے کیونکہ اس کے پونے دو سال سے چیئرمین جیل میں ہیں۔ پی ٹی آئی میں بالاتروں کی وجہ سے موقعہ پرست سیاستدان شامل ہوئے اور ان سے قبل جو لوگ پی ٹی آئی میں تھے وہ پی پی و (ن) لیگ سے مایوس ہو کر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ تھے۔
پی ٹی آئی میں (ن) لیگ کے برعکس پیپلز پارٹی کے زیادہ سیاستدان شامل ہوئے تھے جن کا نظریہ حصول اقتدار تھا اور وہ پی ٹی آئی میں آ کر کامیاب رہے اور جب 2018 میں بالاتروں نے پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی، اس میں بھی موقعہ پرستوں کو وزیر بننے کا موقعہ ملا ۔ موقعہ پرست سیاستدان کبھی ناکام نہیں رہتا مگر وفاداری ضرور بدلنا پڑتی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کو پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی ناکامی قرار دینے والے سابق وزیر اعظم کی منطق عجیب ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ نہیں سمجھ پائے۔ بھٹو، شریفوں پھر زرداری کی ذاتی شخصیات کی طرح پی ٹی آئی بھی اپنے بانی کی مرہون منت ہیں اور ان سب کی شناخت ان کی پارٹی کے منشور و اصول نہیں بلکہ قیادت ہے اور یہی کچھ پی ٹی آئی میں ہو رہا ہے جس کا منشور اور اصول دھرے رہ گئے اور صرف خان کی شخصیت ہی پی ٹی آئی ہے جن کی مقبولیت حکومت کرنے کی غلط پالیسی، من مانے اصول اور بیڈ گورننس اور انتقام کے باعث تقریباً ختم ہوگئی تھی جس کو پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھی تسلیم کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد اگر الیکشن ہو جاتے تو پی ٹی آئی شکست سے دوچار ہوتی۔
بانی پی ٹی آئی اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد سیاستدان بنے اور انھوں نے نواز شریف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا کیونکہ پی ڈی ایم حکومت میں (ن) لیگ، پی پی، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے حالانکہ ملک کی معاشی تباہی اور مہنگائی بانی پی ٹی آئی کی حکومت میں آئی اور وہی خراب صورت حال کے ذمے دار قرار دیے جاتے رہے۔
بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ باری لینے والوں کا اقتدار میں لایا جانا اور ان کے بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات ہیں اور ان کا کامیاب سوشل میڈیا ہے جو حکومت کو ناکام ثابت کرنے اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں مکمل کامیاب ہے۔
حکمران خود کو ملک و قوم کا خیر خواہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ آج بھی سیاستدانوں کی اکثریت موقعہ پرست اور سیاسی مفاد پرست ہے جو ہر حکومت میں فٹ ہو جاتے ہیں اور وفاداریاں بدل کر ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں جس میں انھیں کبھی ناکامی نہیں ہوئی کیونکہ ہر پارٹی انھیں قبول کر لیتی ہے اور اپنی قیادت سے زیادہ خود کو سمجھ دار سمجھنے والے پارٹی نظریے پر عمل کے داعی اور اصول پرست ہی ناکام ہوتے آئے ہیں جو صرف مشورہ دینا جانتے ہیں اور انھوں نے خود کبھی اقتدار میں رہتے ہوئے ان مشوروں پر عمل نہیں کیا جو انھیں اب یاد آ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کی شاہد خاقان عباسی ئی کی مقبولیت پی ٹی آئی میں حکومت میں ہیں اور تھی اور کی وجہ اور ان
پڑھیں:
مجھے سزا سنانے کا مطلب ہے ڈیل کر لوں مگر نہیں کروں گا: بانی پی ٹی آئی
راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ) بانی تحریک انصاف نے کہا ہے کہ مجھے سزا اس لیے سنائی گئی کہ کوئی ڈیل کر لوں۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ کوئی ڈیل نہیں کررہا ہے۔ جتنی دیر جیل میں رکھنا ہے، جتنے مرضی ایسے ججز لا کر بٹھا دیں، میں ڈیل نہیں کروں گا، مقدمات کا سامنا کروں گا۔ مجھے سزا اس لیے سنائی گئی کہ کوئی ڈیل کر لوں۔ اس فیصلے کا مذاکراتی کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی چاہتے تھے کہ یہ کیس ہائی کورٹ میں جائے اور اب یہ کیس ہائی کورٹ میں جائے گا۔ انہوں نے 2 مطالبات پر بات کرنے کو کہا ہے۔ بشری بی بی کو سہولت کاری پر 7 سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ بھی تو بتائیں کہ یہ کون سی سہولت کاری ہے۔ اس کیس میں زرداری اور نواز شریف نہیں لیکن بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو سزا دے دی گئی۔ علیمہ خان نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ میں جاکر یہ سارا کیس مزید کھلے گا اور یہ سارے نام آپ پھر سے سنیں گے۔ سپریم کورٹ نے بھی اعتراض اٹھائے تھے، اس قسم کے ججز آپ ہائی کورٹ میں بھرنے کی کوشش کررہے ہیں جو چوری، ڈاکا اور مینڈیٹ چور کو تحفظ دیں گے۔