ترقی کے اعداد و شمار یا عوام کے خواب؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
پچھلی بار میں نے معیشت کے اعداد و شمار کے بارے میں لکھا تھا خاص طور پر جی ڈی پی جیسے اعداد و شمارکی حقیقت پر بات کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ اعداد و شمار حقیقی ترقی کی عکاسی کرتے ہیں؟ آج دل چاہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج جیسے اہم ادارے پر بات کی جائے جو بظاہر ترقی کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پیچھے چھپے حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) ایک مالیاتی مارکیٹ ہے جہاں کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو کاروباری اداروں کو اپنی کمپنیوں کے حصص عوامی سطح پر فروخت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ سرمایہ حاصل کرسکیں۔ اسٹاک مارکیٹس دنیا بھر میں معیشتوں کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ نہ صرف کاروباری اداروں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں بلکہ عوام کو بھی سرمایہ کاری کے مواقعے فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد شروع ہوئی۔ ابتدائی طور پر، لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں تین مختلف اسٹاک مارکیٹس تھیں۔ تاہم 2016 میں ان تینوں مارکیٹس کو ملا کر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) کی تشکیل دی گئی۔ اس ادارے کا مقصد معیشت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور کاروباری اداروں کے لیے مالی وسائل کا انتظام کرنا ہے۔
سال 2024 کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا کے ایس ای 100 انڈیکس اپنی تاریخ کی بلند ترین 118,735 پوائنٹس تک پہنچا۔ یہ سن کر کوئی بھی خوش ہو سکتا ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار ایک کامیاب معیشت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کیا یہ ترقی سب کے لیے ہے یا صرف چند افراد کے لیے؟ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کی کل تعداد تقریباً 3,50,000 ہے۔ یہ تعداد 25 کروڑ کی آبادی کے تناظر میں ایک قطرے کے برابر بھی نہیں۔ یہ حقیقت بتاتی ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی ترقی کا فائدہ صرف 0.
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بلند ترین پوائنٹس پر پہنچنے کی خبریں اخبارات میں نمایاں ہوتی ہیں لیکن ان خبروں میں ان ماؤں کا ذکر نہیں ہوتا جو اپنے بچوں کو بھوکا سلاتی ہیں۔ ان خبروں میں ان مزدوروں کا ذکر نہیں ہوتا جو دن بھر مشقت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی نہیں کما پاتے۔
یہ گراف ان بچوں کی زندگی کو نہیں دکھاتے جو تعلیم کے بجائے محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ یہ ترقی ان چند لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس سرمایہ ہے جنھوں نے پہلے ہی اپنی زندگیوں کو خوشحال بنا لیا ہے، لیکن جو لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے لیے یہ اعداد و شمارکوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسٹاک مارکیٹ کی ترقی اس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کہلا سکتی جب تک کہ اس کا فائدہ ان لوگوں تک نہ پہنچے جنھیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ وہی خواب ہے جو میں نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا اور آج اس خواب کو ایک نئے زاویے سے بیان کر رہی ہوں۔ ترقی کے یہ گراف اور اعداد و شمار اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہ لائیں۔ اگر اسٹاک مارکیٹ کی ترقی کا مطلب صرف چند لوگوں کی خوشحالی ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کامیابی بلاشبہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب یہ ترقی ہر شہری کی زندگی کو بہتر بنائے۔ ہمیں ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو صرف اعداد و شمار کی چمک دمک پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقی انسانی ترقی کا مظہر ہو۔ یہ ہمارا خواب ہے اور ہمیں اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے مل کرکام کرنا ہوگا۔
دنیا بھر میں اسٹاک ایکسچینجز کی تاریخ میں کئی مواقعے پر بحران آ چکے ہیں۔ 1929 کا وال اسٹریٹ کریش ایک ایسی مثال ہے جس نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثرکیا۔ اس بحران کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی جائیدادیں نیلام ہوگئیں اور عالمی سطح پر بے روزگاری کا ایک طوفان آیا۔ اسی طرح 2008 میں ہونے والی عالمی مالیاتی بحران کے دوران دنیا بھرکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید کمی آئی اورکئی بینک دیوالیہ ہوگئے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی ان بحرانوں سے بچا نہیں ہے۔
2005 کا زلزلہ اور 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران PSX میں بھی شدید مندی دیکھنے کو ملی۔ ان بحرانوں کے دوران سرمایہ کاروں کے لیے شدید نقصانات کا سامنا ہوا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے ان بحرانوں کے بعد اپنی اصلاحات کی اور اب یہ ادارہ تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت اور سرمایہ کار اس ترقی کوکس طرح عوام تک پہنچاتے ہیں، اگر سرمایہ کاری کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے اور عوامی سطح پر معاشی بہتری لائی جائے تو یہ ادارہ حقیقی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا فائدہ صرف چند سرمایہ کاروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے فوائد عوامی فلاح کے لیے بھی استعمال ہونے چاہئیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کامیابی ایک خوش آیند بات ہے لیکن یہ تب تک اہم نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی ترقی عوامی فلاح کی بنیاد پر نہ ہو۔ ہم ایک ایسے سماج کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں ہر فرد کو ترقی کے فوائد حاصل ہوں نہ کہ صرف چند سرمایہ داروں کو۔ اسٹاک مارکیٹ کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہوگا کہ اس کا فائدہ پورے سماج تک پہنچے اس کے بعد ہی یہ ترقی حقیقی ترقی کہلائے گی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس ترقی کے فوائد کو عوام تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی کامیابی کے نتائج صرف چند سرمایہ کاروں تک محدود نہ ہوں بلکہ اس سے حاصل ہونے والی دولت کا فائدہ غریب طبقے تک پہنچے تاکہ وہ بھی معاشی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ یہ ترقی اسی صورت میں حقیقی کہلائے گی جب وہ عوام کی زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی کا باعث بنے گی اور تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ترقی کے اعداد و شمار حقیقی طور پر عوام کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں کامیاب ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اسٹاک ایکسچینج اسٹاک مارکیٹ کی سرمایہ کاروں کی کامیابی کے دوران کا فائدہ کی ترقی یہ ترقی ترقی کے ترقی کا کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان امن اور ترقی کی راہ پر
صوبہ بلوچستان قدرتی ذخائر سے مالامال پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی معیشت آنے والے وقتوں میں گوادر ہی سے جڑی دکھائی دیتی ہے اور پاکستان کے مستقبل کی بنیاد بلوچستان کی ترقی، خوشحالی اور سالمیت پر منحصر ہے، لیکن اس کے باوجود سماجی اور اقتصادی اشاریوں کے اعتبار سے اسے نسبتاً پسماندہ صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم افواج پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں جن سے ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ ملک دشمنوں نے پاکستان خصوصاً بلوچستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں، ان پر کام کرنے والے ملکی وغیر ملکی انجینئروں، غیر مقامی مزدوروں اور ان پر استعمال ہونے والی مشینری کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح ترقیاتی عمل کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جا سکیں، مگر بلوچستان کی خوشحالی ریاست کی اولین ترجیح ہونے کی وجہ سے صوبے نے ترقی اور امن کی جانب سفر جاری رکھا ہوا ہے اور دوران ترقی کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں جبکہ بہت سے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ ان کامیابیوں میں پاک فوج اور دیگر اداروں جبکہ جنوبی بلوچستان میں ایف سی بلوچستان (سائوتھ) کا اہم ترین کردار ہے۔ رواں سال بلوچستان کا بجٹ 750 بلین مختص کیا گیا ہے جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے 520 بلین حکومت بلوچستان کو دے دئیے گئے جبکہ اسے رائیلٹی کی مد میں 254 ارب روپے کا سالانہ منافع بھی ہوتا ہے۔ پاک فوج نے ایک ادارہ جاتی اقدام کے ذریعے بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے تعلیم، صحت اور مواصلات اور دیگر شعبوں میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان کے انفرا سٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں، ترقیاتی منصوبے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا جائے گا جس سے بلوچ عوام کی زندگی بدل جائے گی اور اس وقت گوادر پورٹ کی وجہ سے گوادر علاقائی اور عالمی تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ یہی بات پاکستان دشمنوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی ہے، راقم اس بات کا ذکر اپنے گذشتہ متعدد کالموں اور مضامین میں کر چکا ہے کہ امریکہ اور بھارت سی پیک شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ وہ اس کے اثر سے نکل جائے گا اور دوسری جانب چین بڑی اقتصادی قوت بن جائے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دفاعی حوالے سے پاکستان کو چیلنج نہیں کر سکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت و حیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا اور یہ حقیقت ہے کہ دفاعی لحاظ سے پاکستان بھارت سے سو گناہ زیادہ مضبوط ہے، کیونکہ پاکستان کا دفاع ہمیشہ سے مضبوط ہاتھوں میں ہے، تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے امن اور ترقی کو سبوثار کرنے کے لیے بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی راء کے ایجنٹوں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور ماما قدیر جیسے سہولت کاروں اور غداروں کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دیا، اس سلسلہ میں سی پیک کو خصوصاً نشانہ بنایا گیا۔ سی پیک منصوبے کے تحت 2025 میں پاکستان کی معیشت میں تیزی آئے گی، جو قومی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت خصوصی اقتصادی زونز (SEZs)، توانائی کے نئے منصوبے، صنعتی ترقی اور جدید انفرا سٹرکچر کی تعمیر پر کام جاری ہے، جن سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل، پاکستان اور چین کے درمیان گہرے تعلقات کی علامت ہے۔ سی پیک پہلے مرحلے میں 43 منصوبے، جن کی مجموعی مالیت 25 ارب امریکی ڈالر ہے، کامیابی سے مکمل کیے گئے۔ یہ منصوبے نہ صرف پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد گار ثابت ہوئے بلکہ خطے کی مجموعی خوشحالی کے لیے بھی اہم ہیں۔ سی پیک کے تحت 8,800 میگا واٹ بجلی پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل کی گئی ہے، جس سے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ، سٹرکوں، پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے نہ صرف نقل و حمل کے نظام میں بہتری آئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افواج پاکستان کی مشترکہ کوششوں کی بدولت پندرہ سو کلو میٹر کی سڑکوں کا جال بچھا کر بلوچستان کے عوام کی بڑی منڈیوں تک رسائی یقینی بنائی گئی۔ سولہ ارب روپے کی لاگت سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل اور خصوصی اقتصادی زون کا قیام بھی افواج پاکستان کی کوششوں سے مکمل ہوا۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے ویژن 2030 کے تحت صوبے میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ پاک فوج اور حکومت پاکستان نے وقت کے تقاضوں کے مطابق بلوچستان میں محرومیوں کے خاتمے کے لیے مختلف شعبہ جات میں جامع حکمت عملی کے تحت تیزی سے کام کیا۔ خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبے بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا جس کا مقصد صرف مستحکم بلوچستان ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو اس صوبہ کی ترقی اور وہاں کے عوام کی خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتے۔ بلوچستان کی پسماندگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مسائل کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور ان میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کا ذکر نہیں کرتے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کی ترقی میں اہم ترین رکاوٹ وہاں امن و امان کی کاوشوں میں خلل ڈالنے کی کوششیں ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے دشمنوں کی آلہ کار بن کر بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتیں۔ دراصل ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ جیسے عناصر بلوچستان کے عوام کے دشمن ہیں، دشمن ممالک کی مالی مدد (فارن فنڈنگ) ڈالروں کے لیے اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر جلانے کے درپے ہیں۔ یہی عناصر ایک طرف بلوچستان کے سادہ لوح اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو شیطان کی طرح ورغلا کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ دوسری طرف ان کو ریاستی اداروں اوردوسرے صوبوںکے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کر کے ریاست کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں۔ معصوم بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے قاتلوں کو لاپتا افراد بنا کر ایک پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کی حقیقت محض ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔