چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے منصب سنبھالنے کے بعد بلوچستان کے شہرگوادر سمیت مختلف شہروں میں گئے۔ ان کی اس دورے میں ڈسٹرکٹ ججوں کے علاوہ وکلاء تنظیموں کے نمایندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
ان کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ لاپتہ افراد کے مقدمات مختلف ہائی کورٹس میں برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔ قانوناً لاپتہ افراد کے لواحقین آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت متعلقہ ہائی کورٹ میں داد رسی کے لیے رجوع کرسکتے ہیں۔ تاہم حقائق ظاہرکرتے ہیں کہ متعلقہ عدالتوں سے ریلیف حاصل نہیں ہو رہا ہے۔
پولیس ایکٹ کے تحت کوئی فرد لاپتہ ہوجائے تو اس کے لواحقین 24 گھنٹے میں متعلقہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آرکا حق رکھتے ہیں مگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے گزشتہ پورے سال کے دوران کراچی، کوئٹہ،گوادر اور تربت میں دھرنے دیے لیکن یہ مسئلہ تاحال موجود ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایک رولنگ میں لاپتہ افراد تعریف کی یہ کی گی تھی کہ کوئی بھی شہری جس کو سرکاری اہلکار اغواء کریں، وہ لاپتہ شخص کہلائے گا۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے سرکاری اہلکاروں کے خلاف گزشتہ 15 برسوں میں مقدمات درج کرانے کی کوششیں کی گئی ہیں، ان میں سے کچھ کو کامیابی حاصل ہوئی مگر مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہوا۔ چند سال قبل کراچی میں ایک شہری نے اپنے لاپتہ عزیزکی بازیابی کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت کے حکم پر نامعلوم اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ متعلقہ پولیس نے اخبارات میں اشتہار بھی شایع کرایا تھا، اس پر متعلقہ افسران زیرِ عتاب آگئے تھے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے احکامات کے تحت سابق جسٹس جاوید اقبال کی سربراہمی میں ایک کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن نے بہت سست روی سے اپنے فرائض انجام دیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سابق جسٹس جاوید اقبال پر عدم اعتماد کیا مگر جب سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کر رہے تھے تو وفاقی انتظامیہ نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پر مشتمل کمیشن کی معیاد میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ وفاقی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی پیروی کررہی ہے اور اس اہم ترین مسئلے کی اہمیت کو نظرانداز کر رہی ہے۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں شہریوں کو قانونی تقاضوں کے بغیر لاپتہ کرنے کی ایک یا دو وارداتیں اخبارات میں رپورٹ ہوتی تھیں مگر نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بلوچستان میں مری قبیلے کے افراد کے لاپتہ ہونے کے اطلاعات سامنے آنا شروع ہوئیں۔ نائن الیون کی نیویارک میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی افواج کے کابل پر حملہ اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد خیبر پختون خوا سے بعض افراد کے لاپتہ ہونے کی خبریں آنے لگیں۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی اور افغانستان کے القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کو گرفتارکر کے امریکا کے حوالے کیا گیا۔ ان میں سے کچھ کو گوانتاناموبے بجیل میں رکھا گیا۔ گزشتہ سال ہی ایک پاکستانی شہری کو 10 سال کے عرصے بعد اس قید خانہ سے رہائی ملی۔
بلوچستان میں اس صدی کے پہلے دونوں عشروں میں متعدد افراد لاپتہ ہوئے۔ لواحقین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرکردہ ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے ان افراد کی تعداد بہت زیادہ ظاہرکی ہے۔ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں سے بھی لوگوںکے لاپتہ ہونے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم سے ملنے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک بھر میں 5 ہزار سے لے کر 7ہزار افراد پورے ملک میں لاپتہ ہیں۔
ایوانِ بالا سینیٹ میں لاپتہ افراد کا مسئلہ مسلسل زیرِ بحث آرہا ہے۔ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جان بلیدی نے گزشتہ ہفتے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ انھوں نے سینیٹ کے اراکین کو بتایا کہ ساحلی شہر گوادر میں تمام جماعتوں کے اتحاد کی اپیل پر احتجاج ہورہا ہے ۔ یہ لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی اور گوادر کے ماہی گیروں کے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
جان بلیدی نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر احتجاج کو روکنے کے لیے سویلین اسپیس کو کم کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی معاملات سیاسی بات چیت سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹروں کی تقاریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ وزیراعظم اور موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ہم یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی ریاست جمہوری اصولوں پر کاربند ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ تارڑ صاحب نے یاد دلایا کہ امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے مگر وفاق اس بارے میں مکمل تعاون کے لیے تیار ہے اور وفاق آئین کی شق 245 کے تحت امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے کسی بھی صوبہ میں مداخلت کرسکتا ہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ لاپتہ افراد کے مقدمات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ میں لاپتہ افراد کی تعداد 135 کے قریب مقدمات حل طلب ہیں۔
یورپی یونین نے حکومت پاکستان پر بار بار زور دیا تھا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ سابق حکومت نے اس بارے میں مسودہ قانون تیارکیا تھا مگر اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اچانک ایک دن یہ اعلان کردیا کہ یہ مسودہ سینیٹ سیکریٹریٹ سے لاپتہ ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہوا ہے۔
وفاقی حکومت نے ہائی کورٹس کے ایسے فیصلوں کی بنیاد پر ایک پالیسی تیار کی تھی جن میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا طریقہ کار واضح کیا گیا تھا، مگر بلوچستان کے متاثرہ خاندان یہ معاوضہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان خاندانوں کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں معاوضہ نہیں، اپنے پیارے واپس چاہئیں۔ وفاقی حکومت کو اب اس بارے میں واضح لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں لاپتہ افراد ہائی کورٹ کے لیے کے تحت کہا کہ
پڑھیں:
کیا وفاقی حکومت سپر ٹیکس کی رقم اس طرح سے صوبوں میں تقسیم کر سکتی ہے؟ جج آئینی بینچ
سرپم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا ہے کہ کہ کیا سپر ٹیکس کا پیسہ صوبوں میں وفاقی حکومت تقسیم کرتی ہے، رقم 8 روپے ہو یا 8 ٹریلین کیا، اس طرح تقسیم کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کی غیر موجودگی میں وکلاء سے کہا کہ دلائل دے لیں، وکلا نے کہا کہ مخدوم علی خان سینئر ہیں جب تک وہ ختم نہیں کریں گے، ہم دلائل نہیں دیں گے، کوشش کریں آپ دلائل جلدی ختم کر لیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں اپنے دوست خواجہ حارث کو فالو کرتا ہوں کوشش کروں گا جتنی جلدی ختم کر سکوں، مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ انکم ٹیکس آمدن پر لگایا جاتا ہے اس میں کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا، ٹیکس کا سارا پیسہ قومی خزانے میں جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپر ٹیکس کا پیسہ صوبوں میں وفاقی حکومت تقسیم کرتی ہے، مخدوم علی خان نے استدلال کیا کہ وزیر خزانہ کی تقریر کے مطابق سپر ٹیکس کا پیسا بےگھر افراد کی بحالی کے لیے استعمال ہونا تھا، 2016 میں سپر ٹیکس شروع کیا گیا 2017 میں ایک سال کے لیے توسیع کی گئی، 2019 میں توسیع کے لفظ کو "onwards" کر دیا گیا۔
مخدوم علی خان نے دلیل دی کہ 2016 میں جس مقصد کے لئے ٹیکس اکھٹا کیا گیا تھا اس میں صوبوں میں تقسیم نہیں ہونا تھا، ٹیکس سے متعلق تمام اصول 1973 کے آئین میں موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ رقم آٹھ روپے ہو یا آٹھ ٹریلین کیا اس طرح تقسیم کی جا سکتی ہے، وکیل حافظ احسان نے جواب دیا کہ یہاں معاملہ رقم کی تقسیم کا نہیں ہے، رقم کی تقسیم کے حوالے سے عدالت نے کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔
مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت تک ایک روپیہ بھی بےگھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس میں فرق ہے، آمدن کم ہو یا زیادہ انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 113 کے مطابق کم سے کم آمدن پر بھی ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مخدوم صاحب آپ کو مزید کتنا وقت چاہیے، مخدوم علی خان نے کہا کہ میں پرسوں تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے مسکراتے ہوئے مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اپنے دوست کو اس معاملے میں فالو نہیں کرنا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، مخدوم علی خان کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔