Express News:
2025-04-15@09:51:43 GMT

اور ٹرمپ آگیا میدان میں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا حلف اٹھا کر کام شروع کر دیا ہے۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی انھوں نے بہت سے احکامات پردستخط کیے ہیںجو ان کی صدارتی پالیسی کے عکاس ہیں۔ ان احکامات میں فی الحال پاکستان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نہ کوئی اچھی بات ہے اور نہ کوئی بری بات ہے۔ فی الحال پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اس لیے حکومت پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ تا ہم تحریک انصاف کے لیے کافی فکر کی بات ہے۔ ان کو ٹرمپ سے جو امیدیں ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ٹرمپ کی کئی پالیسیاں ریاست پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔ اب آپ میکسیکو کے بارے میں ٹرمپ پالیسی کو دیکھیں، وہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر قانونی میکسیکنز کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج لگانے کے احکامات دیے ہیں۔ آپ اس کو پاک افغان سرحد کے تناظر مین دیکھیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں تو پاکستان کو غیر قانونی افغانوں کے نکالنے پر کیسے روک سکتے ہیں۔

پاکستان اب زیادہ سختی سے غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکال سکتا ہے۔ اگرا مریکہ میکسیکو سے لوگوں کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر فوج تعینات کر رہا ہے، سرحدی باڑ لگا رہا ہے، سرحد کو سیل کر رہا ہے، سرحدی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تو پاکستان اٖفغان سرحد کیوں نہیں بند کر سکتا ۔ ہم کیوں باڑ نہیں لگا سکتے۔

ہم کیوں بارڈر سیل نہیں کر سکتے۔ ہم کیوں نہیں دیوار تعمیر کرسکتے۔ امریکا نے میکسیکو کے لیے جو پالیسی بنائی ہے، پاکستان وہی پالیسی افغانستان کے لیے بنا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو کافی قدر مشترک نظر آئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو اب افغان سرحد پر کارروائی کے لیے امریکیوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ جب ٹرمپ نے جرائم پیشہ افرا د کو ان کے ممالک میں واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے تو پاکستان بھی جرائم میں ملوث افغانیوں کو ان کے ملک واپس بھیج سکتا ہے۔

ٹرمپ کی پالیسی میں افغانستان کی طالبان حکومت کے ڈالر بند کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہ بھی پاکستان کے لیے خوش آیند ہے۔ ان ڈالروں کی وجہ سے افغا ن طالبان پاکستان کے خلاف جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پناہ دینے اور وہاں سے حملوں میں ان ڈالروں کی گرمی شامل تھی۔ جیسے جیسے یہ ڈالر بند ہوںگے پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ بات کرنا اور اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں افغان طالبان کے بدلے ہوئے رویے بھی نظر آئیں گے۔ اس لیے ٹرمپ کی یہ پالیسی بھی پاکستان کے حق میں ہے۔ ہمیں اسے خوش آیند قرار دینا چاہیے۔

رچرڈ گرنیل کا صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹوئٹ سامنے آیا ہے۔ لیکن اس میں بانی تحریک انصاف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ انھیں وینز ویلا کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب ان کا پہلا ٹوئٹ ان کی اسائنمنٹ کے بارے میں ہی تھا۔ انھوں نے اب بانی تحریک انصاف کے بارے میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اگر وہ ایک ٹوئٹ کر دیتے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کو چار چاند لگ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انھوں نے ایک نہیں کافی ٹوئٹس کیے ہیں۔ لیکن بانی تحریک انصاف کے بارے میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ بانی کو بھول ہی گئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے امریکا میں سیاسی پناہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان سے ملک دشمن لوگ سیاسی پناہ کے لیے امریکا جاتے ہیں۔ اور وہاں سیاسی پناہ کے کیس دائر کرتے ہیں۔ کچھ صحافی جان بوجھ کر فوج اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرکے امریکا میں سیاسی پناہ کا کیس کرتے ہیں۔

وہاں سیاسی پناہ بند ہونے سے بھی پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ ملک دشمنوں نے امریکا کو جو جنت بنایا ہوا تھا، وہ ختم ہوگا۔ مجھے تو یہ بھی پاکستان کے مخصوص حالات میں بہتر لگ رہا ہے۔ کافی لوگوں کو امریکا سے بوریا بستر گول کرنا ہوگا۔ بلکہ انھیں اپنے سیاسی پناہ کے کیس مسترد ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے برطانیہ نے بھی سیاسی پناہ کے لیے قوانین سخت کیے ہیں۔ لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا اعلان کافی معنی خیز ہے۔

ٹرمپ اور یورپ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز نظر آرہا ہے۔ پیرس معاہدہ سے علیحدگی کے علاوہ نیٹو پر ٹرمپ کی پالیسی بھی یورپ کے لیے کافی خطرناک ہے۔ یورپ میں خطرہ کی گھنٹیاں نظر آرہی ہیں۔ یورپ کو اب نئے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ ورنہ جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ امریکا کی گود میں نظر آیا ہے۔

یورپ اور امریکا کے اتحاد نے دنیا میں امریکا کی حاکمیت قائم کرنے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔ کیا یورپ امریکا سے علیحدہ ہو سکتا ہے۔لیکن ایسے میں یورپ کے پا س کیاآپشنز ہیں۔ فرانس کے صدر نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ یورپ کو امریکی اسلحہ کے علاوہ بھی اسلحہ کے آپشنز دیکھنے ہوںگے۔ لیکن وہ کیا ہو سکتے ہیں؟ امریکا نے سرد جنگ میں یورپ کو روس کے خلاف بھر پور استعمال کیا ہے۔ ورنہ یورپ اور روس کے اچھے تعلقات بھی ہو سکتے تھے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسیاں کیا یورپ اور روس کے فاصلے کم کر دیں گی۔ کیا چین کو بھی یورپ کے قریب آنے کا موقع ملے گا؟ یہ سب بہت دلچسپ ہوگا۔ تا ہم پاکستان کا اس سارے تنازعہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

چین اور امریکا کے درمیان بھی معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ یہ جنگ پہلے بھی موجود ہے لہٰذا یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کی پالیسیاں چین کے لیے نئی نہیں ہوںگی۔ چین اس کے لیے تیار ہے۔ چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ اسے معاشی جنگ سے نبٹنا اور اس میں راستے نکالنا آتا ہے۔ وہ ڈپلومیسی سے راستے نکالتا ہے۔ اس نے اب تک راستے ہی نکالے ہیں۔ کیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن جہاں چین سے معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ وہاں روس کے لیے بھی بہت سے روشن امکانات ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے خاتمہ پر کیا امریکا سے کچھ رعائتیں حاصل کر لے گا۔ روس کو تیل بیچنا ہے۔

روس کو اپنے اوپر سے پابندیاں ختم کرنی ہیں۔ کیا ٹرمپ یہ سب راستے دیں گے؟ اس لیے یوکرین جنگ کا خاتمہ جہاں یورپ کے لیے اہم ہوگا۔ وہاں روس کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا مل رہا ہے۔ ٹرمپ کا پوٹن کے لیے نرم گوشہ کوئی خفیہ نہیں ہے۔ اس لیے روس کو معاشی نرمیاں مل سکتی ہیں۔ ٹرمپ کی یورپ پالیسی کا براہ راست فائدہ روس کو بھی ہوگا۔

ٹرمپ نے ابھی تک بھارت کے لیے بھی کوئی خاص نرم گوشہ نہیں دکھایا ہے۔ بائیڈن حکومت کا بھارت کے لیے کافی نرم گوشہ تھا۔ لیکن ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ مودی کی پالیسیوں سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی بھارت پالیسی پاکستان کے لیے بہت اہم ہوگی۔ ایسی خبریں آئی ہیں کہ مودی ٹرمپ کی حلف برداری میں جانا چاہتے تھے۔ لیکن مدعو نہیں کیا گیا۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ مدعو تھے۔ ابھی تک ٹرمپ نے بھارت کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی ہے۔

اس لیے پاکستان کے لیے ابھی ٹرمپ کوئی خطرناک نہیں ہیں۔ ہمیں ٹرمپ کو دوست ہی سمجھنا چاہیے۔ ابھی تک پاکستان مخالف کچھ نہیں ہے۔ ہم اہم نہیں ہیں۔ یہی ہماری خوش قسمتی ہے، اسی پر گزارہ کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے تحریک انصاف کے سیاسی پناہ کے بھی پاکستان کے بارے میں کی پالیسی انھوں نے یورپ کے نہیں ہے روس کو روس کے اس لیے کیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی

امریکا میں ٹیرف پالیسی کے امور اور اسٹاک مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی کے ہفتوں کے بعد معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی درجہ بندی میں کمی آئی ہے۔

اتوار کو جاری ہونے والے سی بی ایس نیوز کے 2,410 امریکیوں کے ایک نئے سروے کے مطابق،  44 فیصد رائے دہندگان نے معیشت کو سنبھالنے سے متعلق صدر ٹرمپ کے اقدامات کو سراہا جبکہ 40 فیصد نے ان کی افراط زر سے نمٹنے کے اقدامات کی منظوری دی۔

سروے کے مطابق دونوں حوالوں سے صدر ٹرمپ کی عوامی حمایت میں 30 مارچ کے مقابلے میں 4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، امریکی صدر کی مجموعی حمایت کی درجہ بندی اس ماہ کم ہوکر 47 فیصد تک گر گئی، جو مارچ میں 50 اور فروری میں 53 فیصد تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی جنگ میں امریکا اور چین آمنے سامنے، ٹرمپ نے بیجنگ کو دھمکی دے دی

جواب دہندگان کی سیاسی وابستگیوں کے لحاظ سے صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے منصوبوں کے بارے میں خیالات مختلف ہوتے ہیں، 91 فیصد تک، تقریباً تمام ریپبلکنز نے کہا کہ ٹرمپ کا ٹیرف اور تجارت پر واضح منصوبہ ہے۔

صرف 43 فیصد آزاد اور 16 فیصد ڈیموکریٹس نے بھی ایسا ہی کہا، مجموعی طور پر، 58 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ درآمدی اشیا پر نئے امریکی محصولات کی مخالفت کرتے ہیں۔

8 سے 11 اپریل تک شرکا کا سروے کیا گیا، 9 اپریل کو، ٹرمپ نے ’باہمی ٹیرف‘ پر 90 دن کے وقفے کا اعلان کیا، ایک قابل ذکر استثنیٰ کے ساتھ، زیادہ تر ممالک سے آنے والی اشیا کے لیے لیوی کو کم کر کے 10 فیصد کر دیا۔

مزید پڑھیں: امریکا سمیت یورپی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے خلاف مظاہرے، لاکھوں افراد سڑکوں پر

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ بڑھنے کے باعث چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر امریکی محصولات فی الحال 145 فیصد ہیں، لیکن جمعہ کے روز صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ درآمد شدہ اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور الیکٹرانکس کم از کم ابھی کے لیے مستثنیٰ ہوں گے۔

صدر ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل فرائیڈے پر لکھا کہ ہم اپنی ٹیرف پالیسی پر واقعی اچھا کام کر رہے ہیں، امریکا اور دنیا کے لیے بہت پرجوش!!! یہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

سروے کے مطابق، 51 فیصد امریکی ٹیرف اور تجارت کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اہداف کو پسند کرتے ہیں، لیکن صرف 37 فیصد ان کے نقطہ نظر کو منظور کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟

ٹرمپ کے ’باہمی ٹیرف‘ کے اعلان کے پس منظر میں کھربوں ڈالرز کے نقصان کے بعد، گزشتہ ہفتے صارفین کی دلچسپی میں کمی اور 90 دن کے وقفے کے ردعمل میں اسٹاک مارکیٹ پہلے گری اور بھی اوپر گئی، بڑے امریکی انڈیکس جمعہ کو اونچے درجے پر ختم ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹاک مارکیٹ افراط زر باہمی ٹیرف ٹرتھ سوشل فرائیڈے ٹیرف چین حمایت ڈالرز ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ریپبلکنز صدر ٹرمپ معیشت

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا عربی چینل الحرہ بند، ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈنگ روک دی
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • ٹرمپ کا دوٹوک اعلان: چین ہم سے بدسلوکی کرے گا تو ٹیرف سے نہیں بچے گا
  • معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی
  • ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • ٹرمپ ٹیرف پر پریشان ضرور مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • ٹرمپ ٹیرف پر پریشان ضرور مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • ایس آئی ایف سی کی کاوشیں، یورپی ملکوں کو برآمدات میں 9.4 فیصد اضافہ
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر