Express News:
2025-01-22@04:37:24 GMT

تعلیم کا عالمی دن مصنوعی ذہانت کے تناظر میں

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

حیدر آباد:

3دسمبر 2018ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی جس میں 24 جنوری کو ’’تعلیم کا عالمی دن‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا جس کا موضوع امن اور ترقی کے لیے تعلیم کا کردار قرار پایا۔ یونیسکو تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے طور پر شعبۂ اقوام متحدہ کے اہم افراد کے ساتھ مل کر اس دن کو سالانہ منانے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

24 جنوری2019ء کو تعلیم کا پہلا عالمی دن منایا گیا۔ تعلیم کے عالمی دن پر اقوام متحدہ کا سائنسی، ثقافتی اور تعلیمی ادارہ یونیسکو دنیا بھر میں نفرت پر مبنی اظہار کے پھیلاؤ کو روکنے میں اساتذہ کے بنیادی کردار کو اجاگر کررہا ہے۔ اس دن پر یونیسکو نے کہا ہے کہ تعصب، تفریق اور تشدد کو ہوا دینے والے بیانیوں کا مقابلہ کرنے میں تعلیم کی خاص اہمیت ہے۔

تعلیم کے عالمی دن پر یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے Audrey Azoulay نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ تعلیم کو انسانی وقار اور امن کی اقدار کے فروغ کا ترجیحی ذریعہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر نفرت الفاظ سے شروع ہوتی ہے تو امن کا آغاز تعلیم سے ہوتا ہے۔ انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس سے دنیا کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر تبدیل ہوجاتا ہے اور تعلیم سے ہی یہ تعین ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسا طرزعمل رکھتے ہیں۔

بین الاقوامی یوم تعلیم 2025 کا تھیم ہے ’’AI اور تعلیم ‘‘ آٹومیشن کی دنیا میں انسانی ایجنسی کا تحفظ‘‘

’’مصنوعی ذہانت اور تعلیم، چیلینجز اور مواقع ‘‘ یہ تھیم تعلیم کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتی ہے تاکہ لوگوں کو مہارتوں اور علم سے آراستہ کیا جاسکے۔ شعبۂ تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال وہ موضوع ہے جو اس وقت پوری دنیا میں زیربحث ہے۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ایسے ڈیجیٹل پروگرام مرتب کیے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے طالب علم کی تعلیمی استطاعت، مہارت، حصول علم کی رفتار، اہداف تک رسائی وغیرہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹم استاد کے بغیر بھی طلباء کی مشکلات کو دور کرسکتا ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ فوری طور پر جواب دے سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے مواد کی ترقی، نصاب کی ڈیزائننگ، آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز اور انتظامی کاموں کے لیے AIکی مہارتوں، کو استعمال کررہے ہیں۔ AI تحقیقی مقالے ترتیب دینے میں پریزنٹیشنز اور نوٹس بنانے اور دیگر انتظامی امور کے لیے کارآمد ہے۔ AI ایک کثیرالضابطہ شعبہ ہے جو کمپیوٹر سائنس، ریاضی، انجنیئرنگ اور نظری سائنس کو یکجا کرکے ایسی ذہین مشینیں بناتی ہے جو انسانوں اور ماحول کے ساتھ تعامل کرسکیں۔

یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گذشتہ نو سال میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں مجموعی طور پر چار کروڑ کا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ ترقی ہر جگہ یکساں نہیں ہے اور امیر و غریب ممالک کے مابین اس حوالے سے بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ امیر ممالک ہر سال ہر بچے کی تعلیم پر اوسطاً 8,543 ڈالر صرف کرتے ہیں جب کہ متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں حکومتیں فی بچہ اوسطاً 55  ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015ء اقوام متحدہ کی جانب سے تعلیم کے حق کو پائے دار ترقی کے لیے ضروری قرار دیے جانے کے بعد اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں ہونے والا اضافہ تسلی بخش نہیں ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں اسکول جانے کی عمر میں 33 فی صد بچے اور نوعمر افراد تعلیم سے محروم ہیں جب کہ اچھی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح تین فی صد ہے۔ یونیسکو کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں حکومتی سرمایہ کاری کا فقدان بچوں کو اسکول سے محروم رکھنے کا سبب ہے۔

جن ممالک پر قرضوں کا بوجھ ہے وہاں اور بھی خراب صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افریقہ میں بہت سے ممالک ہر سال قرضوں کی واپسی پر جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ ان کے تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ ان ممالک میں دی جانے والی مدد 2019ء میں 9.

3 فی صد تھی جو 2022ء میں کم ہوکر 7.6فی صد رہ گئی۔

یونیسکو جی 20(G20) ممالک کے سربراہ برازیل کے تعاون سے فروغ تعلیم کے لیے مخصوص مالیاتی طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جس میں تعلیمی ترقی کے لیے ممالک کو قرضوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔ ہماری دنیا تاریخ کے ایک منفرد موڑ پر ہے جو بے مثال رفتار سے بدل رہی ہے۔ بدلتی ہوئی تبدیلی کے اثرات سماجی، ماحولیاتی اور تکنیکی رجحانات تعلیمی نظام کو بدل رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے دنیا بھر میں ہر شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ AIکی وجہ سے دنیا بھر میں ترقی کے نئے دروازے کھلے ہیں۔ کوئی ملک سائنسی و فنی علوم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔

AIکے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں۔ یہ استعمال کرنے والے پر ہے کہ وہ اس کا مثبت یا منفی استعمال کرتا ہے۔

AIکی مدد سے ہر طالب علم اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق تعلیمی مواد تیار کرسکتا ہے۔ طلباء کسی بھی تصور کو سمجھ کر نمایاں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔ AIکی مدد سے وقت کی بچت کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ طلباء کو اپنی کارکردگی کے لیے فوری رائے میسر آجاتی ہے۔ اس طرح طلبا کو اپنی غلطیاں سمجھنے اور انہیں سدھارنے کا موقع ملتا ہے اور ان کے سیکھنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ انہیں نتائج کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اگر کسی طالب علم کو ہوم ورک کرتے وقت کوئی کانسپٹ سمجھ نہ آئے اور استاد موجود نہ ہو تو وہ AI کی مدد لے سکتا ہے۔

وہ AI ٹولز سے پوچھ سکتا ہے کہ ’’یہ مساوات کیسے حل کی جائے؟‘‘ طلبہ اپنی مضمون نگاری کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اس ٹیکنالوجی سے مدد لے سکتے ہیں۔ ترجمہ کرنے کے لیے AI فوری طور پر آپ کی مدد کرتا ہے۔ اس کی مدد سے طلباء مختلف زبانوں میں مواد تیار کرکے اسے پوری دنیا کے طلباء تک پہنچا سکتے ہیں اور غیرملکی زبانوں کے مواد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تعلیمی نصاب کو اپ ڈیٹ اور بہتر بنایا جاسکتا ہے جس سے تعلیمی معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔

 AI نظام معذور طلبا کے لیے بھی بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً نابینا طلبا کے لیے AI پر مبنی ٹیکسٹ ٹو اسپیک ٹولز اور سماعت سے محروم طلبا کے لیے AI پر مبنی سائن لینگویج، ٹرانسلیشن ٹولز، مصنوعی ذہانت کے ذریعے کوئی بھی زبان سیکھنا ماضی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

 اساتذہ بھی مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ایک کام یاب معلم بننے کے لیے ایک معلم کو جدید رجحانات، تکنیکوں اور ذرائع کا علم ہونا ضروری ہے جنہیں استعمال کرکے وہ طلباء کو بہترین انداز میں پڑھاسکتے ہیں اور انہیں مستقبل میں کام یاب بناسکتے ہیں۔ اساتذہ کو مصنوعی ذہانت اور اس کے استعمال کی مہارتوں سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تعلیمی روبوٹ کی ایجاد نے سب کو حیران کردیا ہے۔

یہ روبوٹ کسی بھی سوال کا جواب فوری طور پر دیتے ہیں۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ سہیلی اے آئی ٹیچر جو تمام مضامین پر مہارت رکھتی ہے، کو ایک نجی تعلیمی ادارے میں متعارف کرادیا گیا ہے۔ اس کو ’’مس عینی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مس عینی مصنوعی ذہانت کی مدد سے تخلیق کردہ ایک روبوٹک ٹیچر ہے۔ وہ طالبات کے سوالات کا بروقت جواب دیتی ہے اور تقریباً تمام مضامین بڑی مہارت سے پڑھاتی ہے۔

مس عینی پاکستان کی پہلی اے آئی ٹیچر ہے جو کراچی کے ایک نجی اسکول میں مونٹیسوری سے لے کر میٹرک تک کے طلباء کو پڑھاتی ہے۔ بچے بھی مس عینی سے بہتر متاثر ہوئے ہیں اور پڑھائی میں ان کی دل چسپی مزید بڑھ گئی ہے اگر اس طرح کے AI ٹیچرز سرکاری اسکول میں بھی متعارف کرائیں تو تعلیمی معیار کو بہتر کرنے اور دیگر درپیش مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ طلباء کے مطابق روبوٹک کلاسز میں پڑھنے کا مزہ ہی الگ ہے۔

 پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں روایتی طریقہ تعلیم نافذ ہے اسی وجہ سے پاکستان کا معیار تعلیم ناقص ہے۔ خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو محدود وسائل، عدم مساوات اور قابل اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے فروغ کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے کیوںکہ مستقبل قریب میں پورا عالمی ڈھانچا AI پر منتقل ہوجائے گا۔ تعلیمی میدان میں مصنوعی ذہانت کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک موبائل یا لیب ٹاپ اور انٹرنیٹ کی مدد سے گھر بیٹھے آپ دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں اور ماہرین سے کسی بھی مضمون کو سیکھ سکتے ہیں۔

تعلیم کی ترقی میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ کی سست رفتار بھی ہے۔ سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سےAI کا استعمال بھی متاثر ہورہا ہے۔ طلباء بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے پہلے ہی بے حال ہیں جب کہ دوسری طرف انٹرنیٹ کی سست رفتار کے باعث طلباء امتحانات کی تیاری میں پریشان نظر آتے ہیں۔

تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ حکومت انٹرنیٹ تک معیاری اور سستی رسائی کو یقینی بنائے۔ تعلیمی اداروں میں انٹرنیٹ کی آسان اور سستی فراہمی کے حوالے سے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ بلاشبہہ 2025ء مصنوعی ذہانت میں زیادہ سرمایہ کاری اور تعلیمی ترجیحات کا سال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں عملی تعلیم اور تحقیق پر زور دیا جائے۔ تعلیمی بجٹ کو دگنا کیا جائے۔ ٹیوشن کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ یکساں جدید نصاب تعلیم رائج کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ تعلیم کا پورا نظام تبدیل کیا جائے۔ 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت اقوام متحدہ فوری طور پر انٹرنیٹ کی اور تعلیم ممالک میں کی مدد سے گیا ہے کہ تعلیم کا سکتے ہیں تعلیم کے عالمی دن کے لیے AI ترقی کے ہے اور اور ان

پڑھیں:

تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کا معاملہ، سپریم کورٹ کا تمام صوبوں کو نوٹس

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کے معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان، تمام صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاجبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ریگولیٹری قانون نہیں ہوگا تو پھر مسئلہ ہوگا۔

 طلباء یونین ایک نرسری ہے انہی لوگوں نے مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہےجبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ طلبہ یونیز پر پابندی نہیں بلکہ انتخابات پرپابندی ہے۔1983میں توآئین بھی معطل تھاتو طلباء یونینز کومعطل کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن کی کیاضرورت تھی۔

کیا تعلیمی اداروں میں پولیکل سائنس کے مضامین پڑھانے پر پابندی لگادیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا تعلیمی ادارے سیاست کے لئے بنے ہیں اسی لئے توگڑبڑشروع ہوئی ہے، بچے اپنی فلاح وبہبود کے لئے یونین بناتے ہیں سیاست کے لئے نہیں، تعلیمی اداروں میں سیاست کاکیا کام ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں سیاسی ونگ بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے تھے اورقتل وغارت ہوتی تھی۔تشددکی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ 30،35سال سے رینجرز تعینات ہے اوروہی حالات کوکنٹرول کرتی ہے اگر رینجرز کوہٹادیا جائے تودوبارہ لڑائی جھگڑے شروع ہوجائیں گے جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں لڑائی جھگڑے صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہوتے ہیں۔

 ایک بہت بڑے لیڈر جوبعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں اغوا کر لیا گیاتھا،بعد ازاںطلباء سے چھڑوایا گیاجبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں ، جوسیاستدان بننا چاہے گابن جائے گا،ہمارے ملک میں سیاست جارحانہ ہے، کراچی یونیورسٹی میں رینجرز تعینات کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی آئینی بینچ نے سوموار کے روز طلبہ یونینز کی بحالی کیلئے حمزہ محمد خواجہ ، محمد عثمان عامر اوردیگرکی جانب سے دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے محمد عمر اعجاز گیلانی اور بیرسٹر ظفراللہ خان اوردیگر بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔

ایڈیشل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ دلائل کے لئے کچھ وقت دے دیں۔دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کا شیڈول جاری ہو ا، انتخابات کے لئے وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے،کوئی امن وامان کاواقعہ نہ پیش آجائے، قائد اعظم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین الیکشن کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر دیکھا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی ہے؟

اسٹوڈنٹس یونینز پر کب پابندی لگائی گئی؟اس پر چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ پابندی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ طلبہ یونیز پر پابندی نہیں بلکہ انتخابات پرپابندی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا طلباء یونین کوریگولیٹ کرنے کے حوالہ سے کوئی قانون ہے، قانون کیسے معطل ہوا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1983میں توآئین بھی معطل تھاتو طلباء یونینز کومعطل کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن کی کیاضرورت تھی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا تعلیمی ادارے سیاست کے لئے بنے ہیں اسی لئے توگڑبڑشروع ہوئی ہے، بچے اپنی فلاح وبہبود کے لئے یونین بناتے ہیں سیاست کے لئے نہیں، تعلیمی اداروں میں سیاست کاکیا کام ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا تعلیمی اداروں میں پولیکل سائنس کے مضامین پڑھانے پر پابندی لگادیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب پابندی ہوتی ہے تودوسری چیز داخل ہوجاتی ہے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر ریگولیٹری قانون نہیں ہوگا تو پھر مسئلہ ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا پابندی کاکوئی نوٹیفیکیشن ہے، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے بھی قانون سازی کرسکتے ہیں، اٹارنی جنرل کوبھی جواب دینا ہوگا، تمام صوبوں سے بھی پوچھ لیں، سیاست کسی ادارے میں ہونی چاہیئے یانہیں ہونی چاہیئے، کراچی یونیورسٹی میں سیاسی ونگ  بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے تھے اورقتل وغارت ہوتی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ طلباء نے مسائل انتظامیہ سے حل کروانا ہیں، اسلام آباد میں ہر طلباء یونین کامنتخب رکن اداروں کی سینیٹ، سنڈیکیٹ اور بورڈ کارکن ہوگا جو طلباء کے مسائل سے انتظامیہ کوآگاہ کرے گا، تشددکی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ 30،35سال سے رینجرز تعینات ہے اوروہی حالات کوکنٹرول کرتی ہے اگر رینجرز کوہٹادیا جائے تودوبارہ لڑائی جھگڑے شروع ہوجائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بار کے الیکشن میں سیاست آ گئی ہے، سیاسی پارٹیز نے تعلیمی اداروں میں بھی اپنے سیاسی ونگز بنالیے ہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میںجب لسانی اور مذہبی جماعتوں کے لوگ آئے تولڑائی جھگڑے شروع ہوئے۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ طلباء یونین کا مطلب سٹوڈنٹس کی فلاح بہبود ہے،طلباء یونین کا مطلب سیاست نہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ لڑائی جھگڑے صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہوتے ہیں، ایک بہت بڑے لیڈر جوبعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں اغوا کر لیا گیاتھا،بعد ازاںطلباء سے چھڑوایا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اسلام آباد کی حدتک بہترین قانون بنا ہوا ہے اس پر عمل کروائیں، سندھ کابھی 2022کاایکٹ ہے اس میں بھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔ جسٹس ا مین الدین خان کاکہنا تھا کہ طلباء یونین ایک نرسری ہے انہی لوگوں نے مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔اس پر جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ اچھے طلباء کیساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کیا جائے، بھتہ خور کو مسئلے کے حل کیلئے ساتھ نہ بٹھائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں ، جوسیاستدان بننا چاہے گابن جائے گا،ہمارے ملک میں سیاست جارحانہ ہے، کراچی یونیورسٹی میں رینجرز تعینات کرنا پڑی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ماضی میں کلاس مانیٹر اور کلاس کے نمائندے کانظام موجود تھا۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ مجھے پنجاب یونیورسٹی سے نکالا گیا اور پھر مجھے ملتان یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنا پڑی۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی کاچوہدری عامررحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ نہ کچھ توآپ نے کیاہوگاکیاکیاتھا؟ اس پر چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا میں ایم ایس ایف کارکن تھا۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کے حوالہ سے 7اگست 2023کو پاس کیا گیا بل دیکھا ہے۔ اٹارنی جنرل، تمام صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور مدعاعلیہان درخواستوں پر جواب جمع کروائیں۔ بتایا جائے کہ طلباء یونینز کے حوالہ سے کوئی قانون سازی کی گئی ہے کہ نہیں۔ عدالت نے فریقین سے 3ہفتے مین جواب طلب کرتے ہوئے درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  •  تعلیمی میدان میں خواتین کی کامیابی  شہید بینظیر کا خواب، آصفہ بھٹو
  • جے ایس ایم یو پاکستان کی ٹاپ 5 جامعات میں شامل
  • فپواسا سندھ کا اجلاس: تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کو جاری رکھنے کا فیصلہ
  • مریم نواز کی مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی جانے والی تصاویر پر لائک اور کمنٹس کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کو بھی گرفتار کرنے کا فیصلہ
  • امارات میں روزگار کے خواہشمندوں کیلئے خوشخبری
  • تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کا معاملہ، سپریم کورٹ کا تمام صوبوں کو نوٹس
  • تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی: سپریم کورٹ نے وفاق اور فریقین کو نوٹس جاری کر دیے
  • بیوروکریٹ وائس چانسلر مقرر کرنے کا فیصلہ، سندھ کی جامعات میں تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان
  • بیوروکریٹس کی تعیناتی کیخلاف سندھ کی جامعات میں مزید دو روز ہڑتال کا اعلان