Express News:
2025-01-22@04:14:54 GMT

آخری اسٹیشن

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

 مریال میں بہت سے سکھ خاندان تھے جو رفتہ رفتہ بھارت چلے گئے۔ بزرگ کہنے لگے کہ ان کی سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ بٹورا کیوں ہوا؟ بقول بزرگ جتنی تمیز اور تہذیب سے آج پاکستان میں سنی شیعہ رہتے ہیں، اس سے زیادہ تو سکھ، مسلمان اور ہندو آپس میں رہتے تھے، خاص کر مسلمان اور سکھ۔ ہلکی پھلکی ہوائی فائرنگ کبھی کبھار سکھوں اور ہندوؤں میں تو چلتی رہتی تھی مگر مسلمان اور سکھ سب آپس میں زیادہ تر ٹھیک ہی تھے۔

ایک سکھ لڑکا تھا جس کا نام تو امن تھا مگر امن اس کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ امن سے کیا سکھ کیا مسلمان سارے ہی تنگ تھے۔ امن کی دوستی اگر تھی تو وہ صرف اور صرف بوٹے کے ساتھ تھی۔ لڑکی خواہ کوئی سکھ ہو، ہندو ہو یا مسلمان جہاں اسے موقع ملتا وہ آتی جاتی لڑکیوں کو ضرور چھیڑتا وہ بھی بنا مذہب میں تفریق ڈالے۔ ہلکی پھلکی چوری کی بھی اسے عادت تھی مگر اس نے کبھی بھی بڑا ہاتھ نہ ڈالا تھا۔ سب جانتے تھے کہ امن اور بوٹا دونوں پکے یار تھے۔

امن جو بھی کاروائی ڈالتا، بوٹے کو ضرور بتاتا۔ خواہ کسی لڑکی کا معاملہ ہو یا معاملہ کسی چھوٹی موٹی چوری کا۔ امن اور بوٹے، دونوں کے مائی باپ کی کمائی بس اتنی تھی کہ رات کھا کر سوتے تھے۔ اگلے دن کیا آئے گا، کہاں سے آئے گا، دونوں کو کچھ پتا نہ ہوتا تھا۔ بوٹا اور امن دونوں ہی ہم عمر بھی تھے اور جوانی میں قدم رکھ چکے تھے کہ بٹورا ہو گیا۔ ظاہر سی بات ہے بوٹے اور اس کے خاندان کو یہیں رہنا تھا۔ امن کے خاندان کا سرحد پار جانا طے تھا۔

حیرانی کی بات سب کے لیے یہ تھی کہ امن نے اپنے خاندان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ خاندان کے بڑے چھوٹے سب نے ہی امن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، یہاں تک کہ مریال کے مسلمان بزرگ بھی آگے بڑھے۔ سب نے ہی امن کو سمجھایا کہ مائی باپ کو چھوڑنا کوئی عقل مندی نہیں مگر نہ جانے کیوں امن اپنی ضد پر قائم تھا۔ امن نے صاف کہہ دیا کہ بھلے سے اس کا خاندان بھارت چلا جائے مگر وہ کچھ دن یہیں مریال میں ہی رہے گا، مگر اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے حالات مناسب نہ لگے تو وہ بھارت چلا آئے گا۔ مقررہ وقت پر امن کا خاندان بھارت چلا گیا اور امن مریال میں ہی رہ گیا۔ امن کے ذہن میں کچھ تو چل رہا تھا اور بوٹا بھی اس بات سے انجان تھا۔

بوٹے نے اپنے طور پر بہت جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیوں امن بھارت نہیں جاتا مگر اس بار امن نے بھی چپ کا ایسا روزہ رکھا کہ بوٹا چاہ کر بھی اسے توڑ نہ سکا۔ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہے تھے۔ دونوں طرف ہی فسادات جاری تھے۔ نہ وہاں مسلمان محفوظ تھے اور نہ یہاں سکھ اور ہندو۔ پھر ایک دن اچانک امن غائب ہوگیا اور کسی کو نہ ملا۔ حبس زدہ دنوں میں جب رات کو ہلکی پھلکی سی خنکی ہوا کرتی تھی، بوٹا اکیلا اپنے گھر کے آنگن میں سورہا تھا۔ گھر کے پردے چھوٹے چھوٹے سے تھے۔ ایک درمیانے قد والے سائے نے بوٹے کی دیوار کو پھلانگا اور بوٹے کے پاس آ گیا۔

امن نے جوں ہی بوٹے کا ہاتھ پکڑا تو بوٹے کی آنکھ کھل گئی۔ بوٹے نے کچھ بولنا چاہا تو امن نے اسے چپ کروا دیا۔ یار بوٹے۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔ تجھ سے مل کر جا رہا ہوں۔ مجھے نہیں پتا کہ میں راستے میں مارا جاؤں یا پکڑا جاؤں یا پھر قسمت اچھی رہی تو ہو سکتا ہے کہ بھارت مائی باپ کے پاس پہنچ جاؤں۔ خط آیا تھا کہ وہ گرداسپور میں ہیں۔ یہ تیری ماں کے گہنے ہیں جو چودھری کے پاس تیرے باپ نے گروی رکھوائے تھے۔ اپنی ماں کے گہنے بھی میں تجھے دے رہا ہوں کیوں کہ راستے میں یہ بالکل محفوظ نہیں ہوں گے۔ اگر میں گرداسپور پہنچ گیا تو تجھے وہاں سے خط لکھوں گا۔ اگر ممکن ہوا تو گہنے مجھے وہاں بھجوا دینا ورنہ یہ گہنے بھی تیرے۔ مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔

کچھ اور زیور بھی میں نے چودھری کے گھر سے پار کیے ہیں جو میرے کسی کام کے نہیں مگر تیرے کام آئیں گے۔ کوشش کرنا کہ مریال سے نکل جانا اور کہیں شہر جا کر نئی زندگی شروع کرنا۔ میں نے بڑے چودھری سے بُوا کا حساب بھی برابر کر دیا ہے۔ اس کی چھوٹی بیٹی کو داغی کرکے جا رہا ہوں۔ اس کے ساتھ میرا بڑی دیر سے ٹانکا چل رہا تھا۔ بوٹے میں تجھے ہمیشہ یاد کروں گا اور مجھے پتا ہے تو بھی مجھے نہیں بھولے گا۔

 امن نے بوٹے کا ہاتھ چوما اور دروازہ کھول کر باہر نکلا گیا۔

صبح دن چڑھا تو ہر طرف ایک ہی چرچا تھا۔ چودھریوں کے گھر کوئی واردات ڈال گیا تھا۔ ہزار کوشش کے باوجود چور کا سراغ نہ مل سکا۔ تین چار دن بعد معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو کسی کا دھیان امن کی طرف گیا۔ نہ چور مل رہا تھا اور نہ امن۔ جس وقت اصل بات سب کی سمجھ میں آئی، امن گرداسپور پہنچ چکا تھا۔ بوٹے نے بھی اپنا وعدہ نبھایا اور کچھ عرصے بعد امن کی ماں کے گہنے امن کو گرداسپور بجھوا دیے۔

میں بابا جی سے بوٹے کے بارے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ امن تو گرداسپور چلا گیا مگر اب بوٹا کہاں ہے؟ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بوٹا اور اس کا خاندان کچھ دنوں بعد ہی کہاں چلا گیا۔

دربار بڑا بھائی

چک امرو ریلوے اسٹیشن دیکھنے کے بعد ہمارا رخ ورکنگ باؤنڈری سے ہٹ کر پاکستان بھارت بین الاقوامی سرحد کی جانب بڑابھائی مسرور گاؤں کی طرف تھا۔ تحصیل شکر گڑھ کا شمار پاکستان کے ان پڑھے لکھے شہروں میں ہوتا ہے جن کی شرح خواندگی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی اچھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کی شرح خواندگی تقریباً نوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ ایک عجب بات جس کی وجہ کم از کم میں نہیں جانتا کہ شہر کے نام کے ساتھ تحصیل کیوں لکھا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ شہر کی ترک شدہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت پر بھی تحصیل کا لفظ لکھا تھا مگر سہولت کے لیے ہم شہر کا نام تحصیل شکر گڑھ کی بجائے صرف شکر گڑھ ہی لکھیں گے۔ شکر گڑھ شہر سے اگر آپ بارڈر کی طرف جائیں تو ایک گاؤں بڑا بھائی مسرور کے نام سے ہے جہاں حضرت عبد السلام چشتی سرکار المعروف بڑا بھائی دربار ہے۔ کچھ لوگ انھیں حضرت علی ہجویری کا قریبی رشتے دار قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کے قریب یہ حضرت ناظم الدین اولیاء کے خلیفہ تھے۔ بڑا بھائی نام کے پیچھے کہانی کچھ یوں ہے کہ وقت کا حکم راں حضرت سے سخت حسد کرتا تھا اور اسی لیے اس نے حضرت کو ایک ایسے کنویں میں پھینکوا دیا جس میں متعدد سانپ تھے۔

آپ ان میں سے ایک سانپ کی مدد سے باہر نکلے اور شیر پر سواری کرتے ہوئے وقت کے حکم راں کے دربار میں پہنچ گئے۔ وہیں اس حکم راں نے انھیں اپنا بڑا مان لیا۔ بعد میں یہ گاؤں بڑا بھائی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ آپ جس شیر پر سواری کرتے تھے، اسی شیر کی قبر بھی آپ کے مزار کے قریب ہی بنی ہوئی ہے۔

گاؤں بڑا بھائی مسرور کی کچھ الگ خصوصیات ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے پاکستان کا standard وقت شروع ہوتا ہے۔ یعنی کہ پاکستان میں سورج کی کرنیں سب سے پہلے اسی علاقے میں پڑتی ہیں۔ یہاں آپ کو ایک دل چسپ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ بھارت کا وقت چوں کہ ہم سے آدھا گھنٹہ آگے ہے اس لیے آپ کے موبائل پر دو اوقات ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایک پاکستان کا اور دوسرا بھارت کا۔ دربار سے آپ اگر مزید بارڈر کی طرف جائیں تو آپ کو دریائے راوی کا معاون دریا ملے گا جو اب صرف ایک جوہڑ کا منظر پیش کرتا ہے۔

اس جگہ زیرِزمین پانی کی سطح بہت زیادہ ہے۔ چھے سے سات فٹ پر بھی پانی موجود ہے۔ یہاں ایک ٹیوب ویل ایسا بھی ہے جہاں سے بنا موٹر کے پانی ہر وقت باہر نکلتا رہتا ہے۔ اسے عوام تو بڑا بھائی سرکار کی کرامت کہتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ اس جگہ پانی کا پریشر بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے پانی ہر وقت باہر رستا رہتا ہے۔

بڑا بھائی دربار ایک پہاڑی پر بنایا گیا ہے۔ حضرت کے فوت ہونے پر ان کی وصیت کے مطابق انھیں بلند جگہ دفنایا گیا تھا۔ دربار پر کھڑے ہوں تو آپ کے بائیں جگہ جموں کا علاقہ ہے جب کہ دائیں جانب بھارت ہے۔ موسم اگر صاف ہو تو جموں کی پہاڑیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ہر مزار کی طرح بڑا بھائی دربار پر بھی دئیے جلانے کی روایت پرانی ہے۔ اگرچہ کہ اسموگ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی پھر بھی ہم نے ایک عدد دیا جلا ہی لیا۔ دونوں ممالک کے درمیان محبت اور امن کا دیا۔

بڑا بھائی دربار سے تین چار کلومیٹر دور سرحد کی جانب دریائے راوی کا معاون دریا پاکستانی سرحد میں شامل ہوتا ہے۔ اس معاون دریا میں پانی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ اتنا کم کہ ایک بارہ سالہ بچہ دریا کے عین درمیان میں کھڑا تھا مگر پانی صرف اس کے گھٹنوں تک تھا۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت راوی اور اس کے تمام معاون دریاؤں پر بھارت کا حق ہے۔

سندھ طاس معاہدہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان دونوں کے اندر عوام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ دونوں ممالک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس معاہدے کو غلط سمجھتے ہیں، مگر دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت اسے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق درست مانتی ہے۔ خاص کر اگر آپ دو تین گلاس پانی پی کر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچیں تو سندھ طاس معاہدہ آپ کو پاکستان کے حق میں ہی نظر آئے گا۔

ایک بار پھر اگر چالاک دماغ والے جواہر لعل نہرو کی چالاکی اور خوب صورتی کی ذرا تعریف کردی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ نہرو چوں کہ پانیوں کی اہمیت سے آگاہ تھا، اس لیے اس کا پہلے دن سے منصوبہ تھا کہ پاکستان کو کشمیر اور بلتستان نہیں دینا۔ بہت حد تک وہ اپنے منصوبے میں کام یاب بھی رہا اور پٹھان کوٹ، فیروزپور کو بھی بھارت میں شامل کرکے ستلج پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ فیروزپور بھارت میں شامل ہونے کی وجہ سے ستلج کے سارے اہم ہیڈز بھارت میں شامل ہوگئے تو تقسیم کا عمل پورا ہونے پر بھارت نے فوری طور پر ستلج کا پانی موڑنا شروع کردیا۔ قائد نے ایسے ہی تو کشمیر کو شاہ رگ نہیں کہا تھا۔ ہمارا سارا پانی ہی کشمیر اور بلتستان سے آتا ہے۔

اگر وہی ہمارے پاس نہ رہے تو پاکستان پیاسا مرجائے گا۔ طویل مذاکرات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کے تعاون سے سندھ طاس معاہدہ معاہدہ طے پایا جس کی بنا پر تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر بھارتی حق تسلیم کیا گیا جب کہ چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کی جھولی میں آن گرے۔ سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے دریائے بیاس تو اب صرف معاشرتی علوم کی کتابوں میں ہی ملتا ہے۔ آنے والی نسل شاید ہی بیاس کے نام سے بھی واقف ہو۔ دریائے بیاس کا اب ایک قطرہ بھی پاکستان میں نہیں آتا۔ میں کیوں سندھ طاس معاہدے کو پاکستان کے حق میں سمجھتا ہوں کہ دریائے جہلم، سندھ اور چناب تینوں پر آج بھی بھارت بیٹھا ہے۔ وہ آج بھی پاکستان کا ان تینوں دریاؤں سے پانی روک سکتا ہے مگر سندھ طاس معاہدہ کی بنیاد پر اب وہ یہ کرنے سے قاصر ہے۔

اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ موجود نہ ہوتا اور بھارت ان سب دریاؤں کے رخ موڑ لیتا تو ہم کیا کرلیتے؟ کیا ہمارے پاس اپنے پانیوں کو چھڑا لینے کی اہلیت ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ ماضی قریب میں جب پاکستان نے عالمی عدالت سے رجوع کیا کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کا پانی ذخیرہ کر رہا ہے تو عالمی عدالت نے پاکستان کا موقف رد کرتے ہوئے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا کہ بھارت دریائے چناب کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے وہ درست ہے۔ بنیادی طور پر اس ہی چند اہم وجوہات ہیں۔

پاکستان اپنے دریاؤں کا تقریباً 25 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ضائع کرتا ہے جب کہ بھارت اپنے تینوں دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کا ایک قطرہ بھی سمندر میں جانے نہیں دیتا۔ یا تو اپنے ڈیم میں ذخیرہ کرتا ہے یا پھر زرعی پیداوار کے لیے استعمال کرتا ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان کے پاس دریائے چناب پر کوئی بڑا ڈیم سرے سے بنایا ہی نہیں گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے دونوں ممالک کے Ecosystem کو تو نقصان ہوا ہی ہوا مگر عملی طور پر فائدہ زیادہ ہوا۔ دونوں ممالک کو ہی وقت کے مطابق اس معاہدے میں چند تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

دریائے راوی اب گندے نالے کا منظر پیش کرتا ہے، دریائے ستلج میں اب صرف ریت اڑتی ہے جب کہ دریائے بیاس کا وجود ہی پاکستان میں ختم ہوچکا ہے۔ اگر بھارت دریائے راوی اور دریائے ستلج دونوں میں اتنا پانی چھوڑ دے کہ دریا اپنی اصل شکل میں واپس آسکیں اور اس کے بدلے دریائے چناب اور جہلم سے پانی موڑ لے تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں فائدہ دونوں ممالک کا ہی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پرانے راوی کی دو شاخیں تھیں۔ ایک وہ جہاں آج راوی بہہ رہا ہے جب کہ دوسری شاخ بادشاہی مسجد کے بالکل ساتھ تھی۔ جب بھارت نے راوی کا پانی روکنا شروع کیا تو اندرونِ شہر سے گزرنے والا راوی مکمل خشک ہوگیا۔ مینارِ پاکستان بھی اسی راوی کے سمجھیں پیٹ میں ہی بنا ہوا ہے۔ دریائے راوی کی اس شاخ کو بڈھا راوی بھی کہا جاتا تھا۔

نوٹ: پنج آب جن پانچ دریاؤں کی سر زمین ہے وہ دریا چناب، راوی، ستلج، بیاس اور جہلم ہیں۔ سندھ ان پانچ دریاؤں میں شامل نہیں۔

نورکوٹ ریلوے اسٹیشن

تقسیم کی گاڑی جو چک امرو ریلوے اسٹیشن سے چلتی ہے تو شام ہونے سے پہلے پہلے نورکوٹ پہنچ جاتی ہے۔ نورکوٹ ریلوے اسٹیشن کیا ہے؟ ایک انتہائی خوب صورت اور سحر نگیز سفیدے اور کیکر کے درختوں سے گھرا ہوا ریلوے اسٹیشن ہے۔ سفیدے کے درختوں سے گھرا ہوا کیا اگر آپ اسے سفیدے کا جنگل بھی کہہ لیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تاحدِنگاہ سفیدے کے درخت ہی درخت ہیں۔ آس پاس کوئی شور نہیں، کسی لاری یا انجن کی آواز نہیں کہ یہاں سے سڑک اڑھائی تین کلومیٹر دور ہے۔

آپ اگر چک امرو ناروال روڈ پر سفر کر رہے ہوں تو چک امرو کے بعد جو پہلا ریلوے اسٹیشن آپ کو ملے گا وہ مریال ہے، پھر شکر گڑھ اور پھر چک امرو ہے۔ یہ ایسا پیارا ریلوے اسٹیشن ہے کہ آپ جب وہاں ہوں گے تو اپنے سب دکھ غم بھول جائیں گے ماسوائے تقسیم کے دکھ کے۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ترک شدہ نورکوٹ ریلوے اسٹیشن کی لوکیشن گوگل میپ پر موجود ہے۔ کیسا سمجھ دار اور نیک ماں باپ کی اولاد ہوگا وہ شخص جس نے نور کوٹ ریلوے اسٹیشن کی لوکیشن گوگل پر ڈال دی ہے۔

جہاں آپ کا جی پی ایس ختم ہوتا ہے تو آپ کے سامنے ایک سفیدے کا جنگل آ جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نورکوٹ ریلوے اسٹیشن کہاں ہے۔ درختوں میں گھری ہوئی ایک پرانی سی عمارت دور سے نظر آتی ہے، بس وہی آپ کی مطلوبہ عمارت ہے۔ جوں جوں آپ اس عمارت کے قریب ہوتے جاتے ہیں، یہ عمارت آپ کو اپنے سحر میں مبتلا کرنا شروع کرتی جاتی ہے اور جب آپ اس کے ریلوے ٹریک پر آتے ہیں تو اس ماحول پر مر چکے ہوتے ہیں۔

 آزادی کی ریل جو چک امرو سے چلی تھی، مسافروں سے بھری پڑی تھی۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنیں رفتہ رفتہ سفید اجالے سے نیلے اندھیرے میں بدل رہی تھیں۔ ریل کا مسلم ڈرائیور جو نہ جانے کیوں نورکوٹ ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا، اس نے دوبارہ انجن کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور اندر جا کر اپنی جگہ سنبھال لی۔ ریل میں ہر طرف خاموشی تھی جب کہ نورکوٹ کا ریلوے اسٹیشن پر بھی عجیب و غریب سا سناٹا طاری تھا۔ ریل کے انجن نے سیٹی بجائی اور اچانک سے ڈھیر سارا کالا دھواں سفیدے کے گھنے جنگل میں پھیل گیا۔ کالے بھاپ اڑاتے انجن کے پیچھے کوئلوں کے لیے ایک ڈبا مختص تھا جب کہ اس کے پیچھے کُل پانچ ڈبے تھے۔ چھوٹا بڑا، مرد عورت، بچہ بوڑھا سب ہی اپنے اپنے خالق کو یاد کر رہے تھے۔

کوئی بابا گرونانک کو یاد کرتا اور کوئی رام رام کی مالا جپ رہا تھا۔ آج سے پہلے شاید ہی کسی نے ایسی شدت سے عبادت کی ہو۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ بچیاں سہمی ہوئی تھیں اور مرد چوکس، تیار۔ یہ وہ دعائیں تھیں جو تلواروں کے سائے میں جاری تھیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ آج ان تلواروں کے سائے میں غیرمسلم دعائیں کر رہے تھے۔ سب ہی سلامتی اور سکون کے ساتھ سرحد پار جانا چاہتے تھے۔ ابھی سفر فقط شروع ہی ہوا تھا۔

شام تک ریل کو لاہور پہنچ جانا چاہیے تھا۔ شام کی نیلی روشنی رفتہ رفتہ سفیدے کے درختوں سے نیچے اتر کر مسلسل بھاپ اڑاتے انجن کی وجہ سے سیاہ ہورہی تھی۔ رفتہ رفتہ آزادی کی اس ریل نے جب سفیدے کے جنگل میں بنے نور کوٹ ریلوے اسٹیشن کو اپنے پیچھے چھوڑا تو شام تقریباً ختم ہونے والی تھی۔ ریل گاڑی اب اپنے اگلے ریلوے اسٹیشن بوستان افغاناں کی جانب رواں دواں تھی۔

آزادی کے نہ جانے کتنے ہی مسافروں کی یادیں اس اسٹیشن کے ساتھ وابستہ ہوں گی۔ کچھ یادیں جون کی گرم دھوپ جیسی ہوں گی، کچھ یادیں اس کے پلیٹ فارم پر اُگے سفیدے کے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہوں گی۔

 عمارت کے ماتھے پر سیاہ رنگ سے اردو انگریزی میں نورکوٹ درج ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا گھر کھنڈر بن چکا ہے۔ ریلوے لائن پر جھاڑیاں اگ چکی ہیں، جب کہ سفیدے کے درختوں کا جھنڈ اب ایک پورا جنگل بن چکا ہے۔ آزادی کی ریل جو چک امرو سے چلی تھی، اس کے اور میرے اوقات میں بس تھوڑا سا ہی فرق تھا۔ میں جس وقت بستان افغاناں ریلوے اسٹیشن پہنچا تھا، تو اطراف میں شام مکمل طور پر اتر چکی تھی۔

روشنی فقط اتنی سی تھی کہ میں بھاگ کر فقط ایک دو تصاویر بنا سکا۔ سورج تو نورکوٹ میں ہی ڈوب چکا تھا۔ رہی سہی کسر اسموگ نے پوری کردی تھی۔ اسموگ کے اثرات ذرا کم ہوتے تو شام کی کچھ روشنی ہمارے لیے بستان افغاناں ریلوے اسٹیشن پر کافی ہوتی مگر اندھیرا تیزی سے بڑھ رہا تھا اور میں چاہ کر بھی اسٹیشن ماسٹر کا کمرا نہ دیکھ سکا۔ کہتے ہیں یہاں اس کمرے میں اسٹیشن ماسٹر کی بدروح رہتی ہے۔ آس پاس کے لوگوں سے پتا چلا کہ شام کے اوقات میں کوئی اس ترک شدہ عمارت کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ تقسیم کے اوقات میں یہاں کا اسٹیشن ماسٹر ایک غیرمسلم تھا جسے چند مسلح افراد نے جن کا تعلق کسی بھی مذہبی گروپ یا مہذب معاشرے سے نہیں ہوسکتا، اسے مار ڈالا تھا۔ آزادی کی ریل جس وقت بستان افغاناں پہنچی تھی تو سورج مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔

چاروں اطراف ہُو کا عالم تھا جب کہ فضا میں کالے انجن کے دھواں کی بُو تھی۔ بستاں افغاناں کا نام پتا نہیں بستان افغاناں کیوں ہے۔ شاید یہاں پختون زیادہ تھے مگر ایک بات تو طے ہے کہ یہاں اکثریت تو مسلمانوں کی ہی تھی اس لیے ریل کے اندر بیٹھے آزادی کے مسافروں کو کچھ خوف سا معلوم ہوا۔ ریل کے دروازے اندر سے بند کر دیے گئے۔ لڑکیوں کو سیٹوں کے نیچے چھپا دیا گیا۔ نہ جانے باہر کی کس سمت سے آواز آئی۔۔۔ جسڑ۔۔۔ اور کچھ ہی دیر کے بعد کالے انجن سے بھاپ اٹھی اور ریل نے رفتہ رفتہ آگے سرکنا شروع کردیا۔ ریل جوں ہی بستان افغاناں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلی تو کھڑکیوں کو کھول دیا گیا کہ تازہ ہوا اندر آ سکے۔ سب نے وقتی طور پر اطمینان کا سانس لیا مگر جسڑ کے لفظ نے سب کو ہی چوکنا کر دیا تھا۔

بستان افغاناں سے اگلا ریلوے اسٹیشن دربارکرتارپور صاحب تھا جہاں سب مسافروں کو امید تھی کہ یہاں کچھ نہیں ہوگا۔ یہ گرو نانک کا علاقہ تھا، امن کا علاقہ تھا اور سب ہی گرو نانک مہاراج کی عزت کرتے تھے۔ آزادی کی ریل رفتہ رفتہ دربارکرتارپور صاحب کے پلیٹ فارم میں داخل ہوئی اور پھر رک گئی۔ پلیٹ فارم کھچا کھچ سکھوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ وہ واحد ریل تھی جس میں سے کوئی بھی مسافر اتر نہیں رہا تھا بلکہ سب مسافر اس ریل گاڑی میں چڑھتے جا رہے تھے۔

 رات کی تاریکی میں کرتار پور شہر آیا، ریل یہاں تھوڑی دیر کے لیے رکی اور پھر اپنی اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئی۔ اس بدقسمت ریل کی اگلی منزل اب جسڑ تھی۔

 حالاں کہ دربارکرتار پور صاحب تک پہنچتے پہنچتے ریل مکمل طور پر بھر چکی تھی مگر پھر بھی اسے جسڑ رکنا تو تھا۔ جسڑ ایک اہم ریلوے جنکشن تھا۔ یہاں سے دو ٹریک الگ ہوتے تھے۔ ایک سیدھا ناروال کو جاتا تھا جب کہ دوسرا یہیں سے دربار صاحب جاتا تھا۔

ویسے 47ء کی تقسیم بھی مکمل طور پر سیاسی و سازشی تھی۔ پہلے پہل جون 1947 کے منصوبے کے مطابق گرداسپور کو پاکستان میں شامل کیا گیا مگر بعد میں نہرو کو عقل آئی کہ گرداسپور حاصل کیے بنا پٹھان کوٹ پر قبضہ ممکن نہیں اور اگر پٹھان کوٹ نہیں تو پھر کشمیر بھی نہیں۔ ایسے میں جب باؤنڈری کمیشن نے اگست 1947 میں سرحدوں کا اعلان کیا تو گرداسپور کو پاکستان سے کاٹ کر واپس بھارت میں شامل کردیا۔

مولانا عبد الکلام آزاد بخوشی یہ قبول کیا کرتے تھے کہ گرداسپور کو پاکستان سے واپس لینے کا نیک مشورہ میں نے ہی نہرو کو دیا تھا۔ دربار صاحب بھی بھارت میں شامل کردیا گیا جب کہ کرتار پور پاکستان کے پاس ہی رہا۔ واضح رہے کہ یہ وہی دربار صاحب ہے جہاں سے کچھ عرصہ پہلے تک سکھ حضرات دوربین کی مدد سے کرتار پور دیکھا کرتے تھے مگر اب کرتار پور کوریڈور بننے کی وجہ سے سکھوں کو بڑی سہولت ملی ہے۔

پاکستان اور بھارت کی سرحد کے بالکل ساتھ ہی بابا گرو نانک جی کا مقبرہ ہے۔ ذرا سی جو لائن انگریز اور ہندو پاکستان کی طرف اور بڑھا دیتے تو کیا حرج ہو جاتا کہ سکھوں کے روخانی پیشوا کا مقبرہ ان کے پاس ہی چلا جاتا۔ مگر نہ جی ایسا کرنے سے تو تقسیم کے بعد امن ہوجاتا جو ہندؤں اور انگریزوں کو بالکل بھی منظور نہ تھا۔ جان بوجھ کر انھوں نے مقبرے کو پاکستان میں ڈالا اور کشمیر جو کہ قدرتی طور پر پاکستان سے ملحق تھا، اسے بھارت کے ساتھ ملا دیا، تاکہ دونوں اطراف کے لوگ ہمیشہ لڑتے مرتے ہیں۔

آزادی کی ریل رفتہ رفتہ جسڑ ریلوے اسٹیشن کی بڑھ رہی تھی۔ چاندنی رات میں مسافروں نے ایک ایسا منظر دیکھا کہ سب خوف میں کانپ اٹھے ۔ گرداسپور سے آنے والے نالے میں بارشوں کے باعث درمیانے درجے کی طغیانی تھی۔ کچھ پانی بلند تھا، کچھ چاندنی رات نے منظر بالکل عیاں کر رکھا تھا۔ نالے میں لاشیں جب تیرتے ہوئے مسافروں نے دیکھیں تو سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ نہ جانے یہ لاشیں کس کی تھیں۔ معلوم نہیں تھا کہ یہ لاشیں کیا ان مسلمانوں کی تھیں جو گرداسپور سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنا چاہ رہے تھے یا پھر ان سکھوں اور ہندوؤں کی تھیں جو بیل گاڑیوں کی مدد سے کرتارپور سے بھارت کی طرف سفر کرنا چاہ رہے تھے۔

جسڑ پر ایک مہاجر کیمپ بھی بنا تھا جہاں گرداسپور سے پاکستان آنے والے مسلمانوں اور پاکستان سے بھارت جانے والے مسافروں کا نہ صرف اندارج کیا جا رہا تھا بلکہ باقاعدہ انھیں کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ ریل جو پہلے ہی کرتارپور میں بھرچکی تھی، جسڑ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر رفتہ رفتہ داخل ہوئی اور پھر رک گئی۔ سب جانتے تھے کہ جسڑ ریلوے اسٹیشن پر ہی دونوں طرف کے مہاجرین کے لیے مہاجر کیمپ بنا ہوا تھا۔ دونوں طرف کے کیمپ الگ الگ تھے۔ پلیٹ فارم ایک ہجوم ہونا چاہیے تھا مگر یہاں خوف ناک حد تک خاموشی تھی۔ پلیٹ فارم تقریباً خالی تھا اور کوئی بھی مسافر ریل پر چڑھنے والا نہ تھا۔ جب ریل رکی تو پلیٹ فارم کے دوسری طرف سے چند لوگوں نے ریل کے بند ڈبوں پر دستک دی اور التجا کی کہ ان کے لیے دروازے کھول دیے جائیں۔ دروازے کھول دیئے گئے اور یوں دوسری جانب سے چند مسافر رینگتے ہوئے ریل میں داخل ہوئے۔

چند لٹے پٹے مسافروں نے جب اپنی بے بسی کی کہانی سنائی تو معلوم ہوا کہ گذشتہ روز سے گرداسپور کی جانب سے مسلسل لاشیں بہہ کر اس جانب آ رہیں۔ یہی لاشیں دیکھ کر لوگ اشتعال میں آئے اور ہندوؤں اور سکھوں کے مہاجر کیمپ کو آگ لگا دی گئی۔ چند لوگ ہی بھاگ کر اپنی جانیں بچا سکے اور قریب ہی کہیں چھپ گئے اور ریل میں سوار ہوگئے۔ یہ بھی بعد میں معلوم ہوا کہ حملے کے لیے دو امکانات تھے۔ یا تو جسڑ مہاجر کیمپ کو نشانہ بنایا جانا تھا یا پھر اسی ریل گاڑی کو۔ جسڑ مہاجر کیمپ کو چوں کہ نشانہ بنانا زیادہ آسان تھا، اس لیے اسے ہی نشانہ بنایا گیا۔ کچھ دیر آزادی کی اس ریل کو رات کے اندھیرے میں جسڑ ریلوے اسٹیشن پر کھڑا رکھنے کے بعد جذبہ خیرسگالی کے تحت صحیح سلامت ناروال روانہ کردیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

چیمپیئنز ٹرافی جیت کر وانکھیڈے اسٹیڈیم لائیں گے، روہت شرما

بھارتی کپتان روہت شرما نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 اٹھانے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

روہت شرما نے اتوار کو وانکھیڈے اسٹڈیم ممبئی میں منعقدہ تقریب کے دوران کہا کہ مجھے یقین ہے جب ہم چیمپئنز ٹرافی کے لیے دبئی میں اتریں گے تو 140 کروڑ بھارتیوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہوں گی۔

روہت شرما نے مزید کہا کہ ہم ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے اور چیمپیئنز ٹرافی جیت کر وانکھیڈے اسٹیڈیم لائیں گے۔

یاد رہے کہ آٹھ ٹیموں اور 15 میچز پر مشتمل چیمپئنز ٹرافی کا آغاز 19 فروری سے ہوگا جو 9 مارچ تک جاری رہے گی، ٹورنامنٹ کے میچز دبئی اور پاکستان کے تین شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔

میزبان پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے 19 فروری کو کراچی میں ہوگا جب کہ روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان بلاک بسٹر ٹاکرا 23 فروری کو دبئی میں شیڈول ہے۔

چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے بھارت کا اسکواڈ:

روہت شرما (کپتان)، شبمن گل (نائب کپتان)، ویرات کوہلی، شریاس آئیر، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا، اکسر پٹیل، واشنگٹن سندر، کلدیپ یادیو، جسپریت بمراہ، محمد شامی، ارشدیپ سنگھ، یاشاسوی جیسوال، رشبھ پنت، اور رویندرا جدیجا

بھارت کا چیمپئنز ٹرافی کا شیڈول:

20 فروری، بنگلہ دیش بمقابلہ بھارت، دبئی
23 فروری، پاکستان بمقابلہ بھارت، دبئی
2 مارچ، نیوزی لینڈ بمقابلہ انڈیا، دبئی

متعلقہ مضامین

  • چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کھلاڑیوں کی جرسی پر “پاکستان”کا نام نہیں ہوگا
  • چیمپیئنزٹرافی:بھارت نے میزبان پاکستان کا نام جرسی پر لکھنے سے انکار کردیا
  • چیمپئینز ٹرافی: بھارت کا میزبان ’پاکستان‘ کا نام اپنی جرسی پر لکھنے سے انکار
  • کشمیر: امریکی خفیہ دستاویزات نے کیا نئے انکشافات کیے؟
  • گواسکر نے پاکستان کو چمپئنز ٹرافی میں فیورٹ قرار دے دیا
  • پاکستان اور بھارت کے طلباء کی بنائی گئیں پینٹگز پر مشتمل امن کلینڈر کا اجرا
  • چیمپیئنز ٹرافی جیت کر وانکھیڈے اسٹیڈیم لائیں گے، روہت شرما
  • سنیل گواسکر نے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو فیورٹ قرار دیدیا
  • پاک نیوی کی اے آئی پی ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزوں نے بھارت کی نیندیں اُڑا دیں