افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ، 2 امریکیوں کے بدلے ایک افغان شہری رہا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ، 2 امریکیوں کے بدلے ایک افغان شہری رہا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
کابل (آئی پی ایس )افغان حکومت نے امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا اعلان کردیا۔ افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں قید افغان جنگجو خان محمد امریکی شہریوں کے بدلے رہائی پانے کے بعد وطن واپس پہنچ گیا ہے۔ خان محمد تقریبا دو دہائیاں قبل امریکا میں گرفتار ہونے کے بعد عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، اس پر دہشت گردی اور منشیات کی فروخت کا الزام تھا۔
افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ افغان قیدی کی رہائی کی ڈیل قطرکی ثالثی میں ہوئی۔ وزارت خارجہ نے افغان قیدی کی رہائی کے بدلے رہا کیے جانے والے امریکی شہریوں کی تعداد واضح نہیں کی تاہم امریکی میڈیا کے مطابق افغان قیدی کی رہائی کے بدلے 2 امریکی شہریوں رائن کوربیٹ اورولیم میک کینٹی کو رہا کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
لڑکیوں کے اسکول کھلنے چاہییں، طالبان کے نائب وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2025ء) شیر محمد عباس ستانکزئی نے اختتام ہفتہ پر اپنے ایک خطاب میں کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر پابندیاں شریعت کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ خیال رہے کہ ستانکزئی، 2021ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء سے قبل دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے وفد کی قیادت بھی کر چکے ہیں۔
افغانستان: لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے محروم ہوئے ایک ہزار دن گزر گئے
طالبان ملک میں انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کریں، اقوام متحدہ
افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق اپنے خطاب میں شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا تھا، ''ہم اسلامی امارت کے رہنماؤں سے درخواست کرتے ہیں کہ تعلیم کے دروازے کھول دیں... پیغمبر اسلام کے دور میں علم کے دروازے مرد اور خواتین دونوں کے لیے کھلے تھے۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے افغانستان میں خواتین کی آبادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا، ''آج 40 ملین کی آبادی میں سے ہم 20 ملین کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔‘‘
ستانکزئی کے ان الفاظ کو طالبان حکام کی طرف سے لڑکیوں کے اسکول بند کیے جانے کے خلاف طالبان کے اپنے ارکان کی طرف سے کی جانے والی سخت ترین تنقید میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان ذرائع اور سفارتی حکام کی طرف سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے پر طالبان کے اندر بھی کسی حد تک عدم اتفاق ہے مگر یہ پابندی طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کے حکم پر لگائی گئی ہے۔طالبان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کی اپنی توجیح اور افغانستان کی ثقافت کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
اگست 2021ء میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد طالبان نے 2022ء میںلڑکیوں کے ہائی اسکول کھولنے کے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا تھا اور اس وقت کے بعد سے ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ان اسکولوں کو کھولنے کے منصوبے پر کام جاری ہے، تاہم اس کے لیے کوئی حتمی وقت نہیں بتایا جا رہا۔
2022ء کے آخر میں افغان خواتین کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔
طالبان حکمرانوں کی ان پالیسیوں کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں اسلامی اسکالرز بھی شامل ہیں۔ مغربی سفارتکاروں کے مطابق طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کی راہ میں خواتین کے حوالے سے ان کی ایسی پابندیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ستانکزئی کے اس خطاب کے بارے میں رائے لینے کے لیے افغانستان کے شمالی شہر قندھار میں طالبان کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا مگر اس پر فوری جواب نہیں ملا۔ خیال رہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ قندھار ہی میں ہوتے ہیں۔
ا ب ا/ک م (روئٹرز)