سینیٹ اجلاس ، پانی کی تقسیم کے معاملے پر حکومت اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سینیٹ اجلاس ، پانی کی تقسیم کے معاملے پر حکومت اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )پانی کی تقسیم کے معاملے پر حکومت اور اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی آمنے سامنے آگئیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی صدارت میں ایوان بالا کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پیپلزپارٹی نے پانی کی تقسیم کے حکومتی اعداد و شمار کو زمینی حقائق سے مختلف قرار دیا اور سینیٹر شیری رحمن نے دریائے سندھ پر کینالز بنا کر سندھ کا پانی روکنے کا الزام لگایا۔حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کے سینیٹرعرفان صدیقی نے اپنے حصے کے پانی سے نہریں بنانے پر اعتراض کو بلاجواز قرار دیا جب کہ وزیر آبی وسائل مصدق ملک نے پانی کی تقسیم کے اعداد وشمار پیش کیے۔پیپلزپارٹی کی راہنما شیری رحمن نے دریائے سندھ پر نئی نہروں سے متعلق تحریک التوا پیش کی جس میں سندھ کے حصے کا پانی روکے جانے کا الزام عائد کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ معاملے پر سندھ کے تمام علاقوں میں شدید احتجاج ہوا، حکومتی فیصلے پر سندھ سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، سی ڈی ڈبلیو پی اجلاس میں وزیر اعلی سندھ نے واضح اعتراض کیا، چولستان کے ریگستان کو ہریالی میں تبدیل کرنے کیلئے پانی تبدیل کیا جا رہا ہے۔شیری رحمان نے کہا کہ 25 سال سے ارسا پانی کی کمی رپورٹ کر رہی ہے، کوشش ہوتی ہے اس پر منصفانہ تقسیم ہو، بلوچستان اور سندھ دونوں صوبے اس معاملے پر اعتراض کر چکے، سات ملین ایکڑ کس طرح زرخیز بنائیں گے جبکہ پانی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوٹری اور گڈو سے پیچھے دریائے سندھ ٹھاٹے مارا کرتا تھا، اب وہ صورتحال کہاں ہے سب کو پتہ ہے پانی کم ہے، کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر،بوند بوند پانی کو شہری ترستے ہیں۔پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ 11 ماہ سے مشترکہ مفادات کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی، تین تین ماہ کے بعد سی سی آئی کی میٹنگ ہونی چاہیے، حکومت کو اس پر واضح کرنا ہوگا کہ وہ چاہتی کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے جواب میں کہا کہ جو پانی کی تقسیم کا فارمولا ہے، اسی کے تحت پانی مل رہا ہے، اگر کوئی اپنے حصے کے پانی پر نہریں بنا رہا ہے تو اس پر اعتراض بلاجواز ہے۔وزیر برائے ابی وسائل مصدق ملک نے پانی کی تقسیم کے فارمولے، نہروں کے قیام پر ایوان میں تفصیلی جواب پیش کرتے ہوئے کہا اپنے حصے کے پانی میں سے کوئی بھی چاہے نہریں تعمیر کر سکتا ہے پانی کسی کا نہ کم کیا گیا نہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایسا ممکن ہے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا سی سی آئی کا اجلاس نہیں ہورہا، اس مسئلے پر پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے جنوچی پنجاب میں پی آئی اے کی فلائٹس کم ہونے اور ائیرپورٹس بند ہونے کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ پیرس جانیوالی پی آئی اے کی پہلی فلائٹ میں عملے کے بیس افراد کے مفت سفر کرنے کا انکشاف کیا، جس پر وزیرقانون نے کہا معاملے کی انکوائری کروائیں گے۔پیپلز پارٹی اراکین نے معاملہ متعلقہ کمیٹی بھینے کا مطالبہ کیا تو ڈپٹی چئیر مین سینیٹ نے انکار کرتے ہوئے کہا ڈھائی گھنٹے بحث کے بعد وزیر نے جواب دیا ہے، اب یہ معاملہ کمیٹی نہیں جائے گا جس پر پیپلز پارٹی اراکین نے احتجاج بھی کیا۔سینیٹ اجلاس میں پانی کے مسئلے پر ہونے والی بحث میں دیگر اراکین نے بھی حصہ لیا جس کے بعد سینیٹ کا اجلاس جمعہ کے روز تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔
سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر مواصلات علیم خان کے پیپلزپارٹی سے متعلق بیان پر پی پی پی ارکان نے احتجاج کیا جس پر انہوں نے معذرت کرلی۔سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے کہا کہ حکومت کراچی سے سکھر تک گرین فیلڈ موٹروے بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، حیدر اباد سکھر موٹروے سیکشن کا تفصیلی ڈیزائن اور نظر ثانی لاگت کا تخمینہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے، وعدہ کرتا ہوں کہ 2025 میں ایم سکس موٹر وے شروع کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ موٹروے صرف حیدرآباد تک نہیں ہو گی بلکہ اسے کراچی تک توسیع دیں گے، بتایا جائے کہ گزشتہ چار حکومتیں کن کن جماعتوں کی رہی، پہلے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اپنے ادوار کا جواب دیں۔انہوں نے کہا کہ پھر مسلم لیگ(ن)بھی حساب دے، میں تو اپنی 6 ماہ وزارتی مدت کا حساب دوں گا، عبدالعلیم خان کے پیپلزپارٹی سے متعلق بیان پر پیپلز پارٹی ارکان نے احتجاج کیا، علیم خان نے کہا کہ جو جو پارٹی برسر اقتدار رہی ہے وہ ایم 6 نہ بنانے کی ذمہ دار رہی، پیپلز پارٹی پانچ سال اپنے ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے پانچ سال کا حساب دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں اگر سڑک کسی کے دور میں نہیں تعمیر ہوئی تو وہ زمہ دار ہیں،سندھ کی سڑک میں نے آج تک نہیں کہا یہ پاکستان کی سڑک ہے۔وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے اپنے کابینہ کے ساتھی عبدالعلیم خان کے بیان پر معذرت کر لی اور کہا کہ
پیپلز پارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے، اگر عبدالعلیم خان کی بات سے کسی کی دل ازاری ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہیں، اس کے بعد عبدالعلیم خان نے بھی پیپلز پارٹی کے ارکان سے معذرت کر لی۔
سینٹرمنظور احمد نے کہا کہ علیم خان کو اتنا علم نہیں کہ ثمینہ ممتاز زہری کا کس پارٹی سے تعلق نہیں، ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ علیم خان صاحب آپ ایوان میں آیا کریں آپ کو معلوم ہو کہ ثمینہ ممتاز زہری کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہے، بلوچستان میں روزانہ لوگ مررہے ہیں حکومت کہاں ہیں۔اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے بیان سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو میں معافی مانگتا ہوں علیم خان کو 6 ماہ ہوئیہیں وزارت کو سنبھالے۔علیم خان نے کہا کہ میرے لیے پیپلز پارٹی ، ن لیگ ، پی ٹی آئی اور باپ پارٹی کے قائدین قابل عزت ہیں، میں نے یہ کہا کہ ایم سکس نہیں بن سکی تو اس کے زمہ دار ہم سب ہیں، مجھے میری بات تو پوری کرنی دی جاتی۔
وفاقی وزیر اعظم نزیر تارڈ نے ایوان میں ماحول اچھا رکھنے کی اپیل کی اور اگر کسی رکن کی صوبائی معاملہ پر دل آزاری ہوئی معزرت کر لیتا ہوں۔وفاقی وزیر مواصلات علیم خان نے کہا کہ میں تمام جماعتوں کا اتحادی بائیس سال سے سیاسیت میں ہوں، اگر کوئی سڑک کسی بھی حکومت میں نہیں بنی تو وہ زمہ دار ہے، میرے لئے پیپلز پارٹی ن لیگ کی قیادت محترم ہے۔علیم خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں اتحادی رہا ان کی قیادت بھی محترم ہے، اگر کسی رکن کی دل آزاری ہوئی تو اس پر معزرت کر لیتا ہوں۔وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے کہا کہ ایم سکس کو ہم سکھر سے لے کر کراچی تک بنائیں گے، یہ روڈ اسی سال شروع ہوجائے گا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پانی کی تقسیم کے سینیٹ اجلاس پیپلز پارٹی معاملے پر
پڑھیں:
نہریں نکالنے کے معاملے پر غلط بیانی نہ کی جائے، شیری رحمان
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مرکزی رہنما اور سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ نہریں نکالنے کے معاملے پر غلط بیانی نہ کی جائے۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب میں شیر ی رحمان نے کہا کہ منصوبے سے سندھ کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی، پانی کی تقسیم پہلے ہی 1991ء کے معاہدے کے تحت نہیں ہورہی۔
انہوں نے کہا کہ کسی صوبے نے نئی نہروں کی منظوری نہیں دی، معاملہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے، غلط بیانی نہ کی جائے، نہریں نکالنے کے معاملے پر کسی نے رضا مندی نہیں دی ہے۔
پی پی پی سینیٹر نے مزید کہا کہ اگر کوئی مجبوری ہے، کوئی معاہدہ کر لیا ہے، تو کم از کم ہمیں بتایا تو جائے، ہم بھی پاکستانی ہیں، ہم پاکستان کے مفاد کیخلاف نہیں جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کےلیے خط لکھ چکے ہیں، اب تک اجلاس نہیں بلایا گیا۔
شیری رحمان نے یہ بھی کہا کہ سی سی آئی بلائیں، تحفظات دور کریں، بتائیں کہ کارپوریٹ فارمنگ کےلیے پانی کہاں سے آئے گا؟