غزہ امن معاہدہ طوفانِ اقصیٰ و شہدائے مقاومت فلسطین کی فتح مبین ہے، متحدہ علماء محاذ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علماء مشائخ نے کہا کہ فلسطینی مقاومتی و حمایتی قوتوں کا اتحاد اسی طرح مضبوط و برقرار رہا تو عنقریب وہ دن ضرور آجائے گا جب بیت المقدس پر آزادی کا جھنڈا لہرائے گا اور دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس میں نماز شکر ادا کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ علماء محاذ پاکستان میں شامل مختلف مکاتب فکر کے جید علماء مشائخ نے مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں محاذ کے بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امین انصاری کی عیادت و دعائے صحت کے بعد امن معاہدہ فلسطین کے حوالے سے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی امن معاہدہ طوفانِ اقصیٰ و شہدائے مقاومت فلسطین کی فتح مبین ہے۔
علماء مشائخ نے کہا کہ حماس، حزب اللہ، ایران، لبنان، یمن، شام، عراق و دیگر فلسطینی مزاحمتی و حمایتی قوتوں نے اسلام و ملک دشمن اسرائیل، امریکہ و استعماری، استکباری، استبدادی، تکفیری، یزیدی، خارجی قوتوں کی سازشوں کے خلاف واضح دوٹوک عملی پیغام دے دیا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی کامیابی کیلئے بلاامتیاز رنگ و مسلک متحد و بیدار ہیں، اسرائیل 15 ماہ کی مسلسل خونی جارحیت لاکھوں کو شہید و زخمی ہیں۔
علماء مشائخ نے کہا کہ ہسپتالوں، مساجد، چرچوں، اسکولوں، کیمپوں، رہائشی علاقوں پر وحشیانہ بمباری کرکے بھی اسرائیل اپنے متکبرانہ مذموم مقاصد میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوسکا، بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی و امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا، فلسطینی مقاومتی و حمایتی قوتوں کا اتحاد اسی طرح مضبوط و برقرار رہا تو عنقریب وہ دن ضرور آجائے گا جب بیت المقدس پر آزادی کا جھنڈا لہرائے گا اور دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس میں نماز شکر ادا کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علماء مشائخ نے بیت المقدس
پڑھیں:
امن معاہدہ یا ایک اور کربلا کا پیش خیمہ؟
قطر میں اسرائیل و حماس کے مابین ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پھر سے اپنی سفاکانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ جنگ بندی کے اعلان سے اب تک بچوں سمیت 123 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں نہ صرف یہ بلکہ جنگ بندی کے باقاعدہ آغاز سے پانچ منٹ قبل اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری جاری رہی۔ یہ کیسی جنگ بندی ہے جس کے اعلان کے بعد بھی سیکڑوں معصوموں کی جان لے لی گئی؟ غزہ کو نیتن یاہو نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے جہاں کبھی زندگی مسکرایا کرتی تھی۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک پریشان کن صورتحال نے جنم لیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں وہیں اسرائیلی وزیراعظم کے تازہ ترین بیان نے اس کے مذموم ارادوں کا پتہ بھی دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے خون کا پیاسا نیتن یاہو اپنی کرپشن بچانے کے لیے زیادہ دیر اس معاہدے پر قائم نہیں رہے گا، جس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا ہے۔ معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ عارضی ہے، اگر دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ پہلا مرحلہ صرف چھ ہفتوں پر محیط ہے جس میں 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے بقیہ 33 کو دو ہزار فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل حماس کے اہم سیاسی قیدی جن میں مروان برغوطی اور احمد سادات شامل ہیں کو رہا کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم حماس ان اہم سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیروں کے بیانات آنے والے وقت میں مزید تباہ کن جنگ کا پیغام دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل سموٹریچ نے غزہ کے باسیوں کو جنگ بندی معاہدے پر جشن منانے پر ان کا مذاق اڑاتے ہو کہا ہے کہ غزہ تباہ اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ غزہ ناقابل رہائش ہے اور یہ ایسا ہی رہے گا۔ سموٹریچ کا کہنا تھا کہ یہ خوشی وہ جلد ہی ان سے چھین لیں گے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے فلسطینی معاشرے کو ایک حیوانی معاشرہ قرار دیا ہے جو موت کو تقدس بخشتا ہے اور اپنے کھنڈرات پر رقص کرتا ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں۔ وہ غزہ کے بچے کھچے باسیوں کی مسکراہٹ کو ایک بار پھر مٹانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مزید دردناک غم، آہیں اور سسکیاں غزہ کے لوگوں کی منتظر ہیں۔ خطرات اور خدشات کو اسرائیلی وزیراعظم نے مزید یہ کہہ کر ہوا دے دی ہے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی سہولت کاری کرے گی۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سے بدھ کے روز اس کی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ ڈیل عارضی ہے، اسرائیل پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور جدید اسلحہ کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ کیا جائے۔
نیتن یاہو انسان کے روپ میں ایک ایسا درندہ ہے جو طاقت کے حصول کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس بار اسرائیلی وزیراعظم کی نظر صرف غزہ پر نہیں بلکہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت کے ساتھ ایک نیا جنگی کھیل کھیلنے کو تیار ہے۔ حالیہ بیانات سے مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان بیانات سے نہ صرف نیتن یاہو نے اپنے ارادے عیاں کیے ہیں بلکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کو بھی آشکار کیا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آیا نیتن یاہو کی بات پر یقین کیا جائے یا نہیں؟ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم دنیا سے جنگ و جدل کے خاتمے کے گرد گھومتی تھی۔ ان کے اسی بیانئے کو امریکی عوام نے پذیرائی بخشی اور بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔ ان حالات میں کیا وہ غزہ بلکہ پورے فلسطین و مشرق وسطیٰ پر یہودیوں کو من مانی کی اجازت دیں گے؟ ویسے ٹرمپ کا ماضی اس حوالے سے کچھ زیادہ امید افزا نہیں۔ 2017 میں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اسرائیل کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مگر اب کی باری ہواؤں کا رخ کچھ بدلا بدلا دکھائی دیتا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم نے انسانیت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہے۔ اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج سے رائے عامہ کی سوچ بھی واضح ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت بھی اسرائیلی وزیراعظم کے ظالمانہ جنگی جرائم سے بخوبی واقف ہے۔ بات وہی ہے کہ کیا امریکی عوام کا ردعمل ٹرمپ کو ایسا گھناؤنا فعل کرنے کی اجازت دے گا؟ ابھی کئی اہم سوالات ہیں جو اس جنگ بندی معاہدے کے بعد جنم لے رہے ہیں۔ ان کے جوابات آنے والے وقت میں ظاہر ہونگے۔ ابھی تک حالات گمبھیر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کی جانب سے کیا گیا حملہ دانشمندی سے عاری تھا۔ فیصلہ کرنے والوں نے اس کے بھیانک نتائج کو مدنظر نہیں رکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں اسرائیل کے تقریباً 1100 لوگ مارے گئے وہیں 47 ہزار پانچ سو سے زائد بے گناہ، معصوم بچے اور فلسطینی شہری شہید ہو گئے۔ ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ غزہ تباہ و برباد ہو گیا اور اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اتنے بھاری نقصان اور انسانی المیہ کے بعد قطر میں بیٹھ کر جو دونوں پارٹیوں نے صلح کی ہے وہ بھی عارضی ہے۔ لہو کی ہولی ایک بار پھر کھیلی جائے گی اور اگر اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں اسرائیل کی جانب سے بارہا خون کی ہولی کھیلی گئی ہے جس میں ہمیشہ فلسطین کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ آزادی کی جد وجہد کے خواہش مند فیصلہ کرنے والوں نے حکمت کا راستہ نہ اپنایا۔ وہ بھول گئے تھے کہ ان کا مقابلہ محض اسرائیل سے نہیں بلکہ ان طاقتور ممالک سے جن کے جدید جنگی ہتھیاروں کی بدولت اسرائیل فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیلتا ہے۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ لاکھوں نہتے فلسطینی بچے، خواتین، مرد اور بوڑھے شہری شہید ہوئے۔ گھر اجڑ گئے۔ اب تو پورا غزہ دردناک اور انسانیت سوز مناظر پیش کر رہا ہے جسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ اتنے بڑے قتل عام کے بعد بھی اسرائیل کی پیاس بجھی نہیں۔ معاہدے کے باوجود اسرائیل کا غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے بظاہر یہ امن معاہدہ زیادہ دیر تک ٹکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ سخت بیانات اور عارضی جنگ بندی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں اور مشرق وسطیٰ کے خلاف سازش کو آشکار کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کو معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے اسرائیل پر دباؤ مسلسل جاری رکھنا ہو گا وگرنہ اسرائیل کے عزائم غزہ کو ایک بار پھر کربلا بنانے کے ہیں۔