سپریم کورٹ بینچز اختیارات کا معاملہ: ایڈیشنل رجسٹرار فارغ، جسٹس منصور آرٹیکل 191 اے کا جائزہ لیں گے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آئینی بینچ کے ذریعے عدالتی دائرہ اختیار چھینا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل رجسٹرار کو اُن کی اعترافی غلطی کی بنا پر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے لیکن جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم بینچ ہی اس مقدمے کی سماعت اور فیصلہ کرے گا۔ عدالت نے اِس مقدمے میں سینیئر وکلا حامد خان اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون بھی مقرر کردیا ہے۔
13 جنوری کو جب یہ مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے آیا تو اُس میں سوال کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 کی ذیلی شق 2 سے متعلق تھا جو کہ کسٹم ایکٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے آئینی طریقہ کار سے متعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیں ججز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عہدے سے فارغ
سپریم کورٹ کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار سے غلطی ہوئی اور اُس نے آئینی بینچ کا یہ مقدمہ ریگولر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کردیا۔ اس مقدمے میں ایف بی آر درخواست گزار جبکہ ریسپانڈنٹس کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین ہیں۔
فیصلہ تو جسٹس منصور علی شاہ ہی کریں گے، بیرسٹر صلاح الدینبیرسٹر صلاح الدین نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ایف بی آر نے اعتراض اُٹھایا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کا ہے اور وہی اِس کو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ سپریم کورٹ فُل کورٹ کے 6 فیصلے ہیں جِن کی رو سے جب کسی بینچ کے اختیارِ سماعت پر سوال اُٹھایا جائے تو وہی بینچ اُس اعتراض سے متعلقہ شق کا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ اعتراض درست اُٹھایا گیا یا غلط، اس مقدمے میں اعتراض آرٹیکل 191 اے (آئینی بینچ) کے تحت اُٹھایا گیا ہے تو اِس کا فیصلہ اب وہی بینچ کرےگا۔
بیرسٹر صلاح الدین نےکہاکہ بارہا عدالتی فیصلوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عدالتوں کا اختیارِ سماعت تب ہی ختم ہو سکتا ہے جب عدالتوں کا وجود ہی ختم کردیا جائے۔ اس مقدمے میں آئین کے جس آرٹیکل کے تحت اعتراض اُٹھایا گیا ہے، یہی بینچ فیصلہ کرےگا کہ آیا یہ آرٹیکل قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔
سپریم کورٹ ججز کا اختیار بڑھایا جا سکتا ہے کم نہیں کیا جا سکتا، ایڈووکیٹ کامران مرتضٰیسینیئر ماہرِ قانون سینیٹر کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس مقدمے کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والا بینچ ہی کرےگا، اگر بینچ تبدیل کیا جاتا ہے تو پھر تو سارا نظام ہی تبدیل ہو جائےگا، جب تک کوئی جج کسی مقدمے کی سماعت سے خود معذرت نہ کرے تب تک اُس سے اختیارِ سماعت واپس نہیں لیا جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے شیڈول میں انٹری نمبر 55 میں صاف لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھایا تو جا سکتا ہے کم نہیں کیا جا سکتا۔
مقدمہ ہے کیا؟13 جنوری کو جب یہ مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے آیا تو اُس میں سوال کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 کی ذیلی شق 2 سے متعلق تھا جو کہ کسٹم ایکٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے آئینی طریقہ کار سے متعلق ہے۔
سماعت کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی دائرہ اختیار چھینے جانے سے متعلق سوالات اُٹھائے اور کہاکہ آرٹیکل 191 اے (آئینی بینچ) کے ذریعے سے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا، پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس عدالت سے دائرہ اختیارواپس لیا جا سکتا ہے؟
مقدمے میں وکیل صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت سے دائرہ اختیار نہیں چھینا جا سکتا، اُنہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے آئینی طور پر برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے اُصولوں کے منافی ہے۔ اس پر عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہاکہ اس مقدمے میں مزید کارروائی سے پہلے آرٹیکل 191 اے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ضروری ہے اور اُس کے بعد سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
رجسٹرار آفس سے غلطی؟16 جنوری کو جب مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ رجسٹرار آفس سے غلطی ہوگئی جو کیس یہاں مقرر ہوگیا، موجودہ کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ بینچ کے رکن جسٹس عقیل عباسی کا ہے، عدالت نے کہاکہ مقدمے کی ابتدائی سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جائے، گزشتہ سماعت پر جسٹس عرفان سعادت بینچ کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے مقدمے میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کیں اور سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔
جب مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہوا20 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ سخت برہم نظر جب اُن کے سامنے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہوا، اُنہوں نے فوری طور پر ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو طلب کرلیا۔
مقدمہ میں فریق کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ کراچی سے صرف اسی کیس کے لیے آیا ہوں لیکن کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی، عدالت نے آج کے لیے مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے پوچھا کہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا وہ کیوں نہیں لگا؟ اس پر ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ میں لگے گا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی کیسے اگنور کر سکتی ہے؟ جسٹس عقیل عباسی نے سوال اُٹھایا کیا عدالتی حکم کمیٹی کے سامنے رکھا گیا تھا؟ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے اثبات میں جواب دیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اُٹھایا کہ ہمارے پورے ہفتے کی کاز لسٹ کیوں تبدیل کی گئی؟ اس حوالے سے ڈپٹی رجسٹرار کو توہینِ عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس کیا گیا لیکن 20 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ سے جسٹس عائشہ ملک کو تبدیل کردیا گیا اور نیا بینچ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل تشکیل دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا خطگزشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ کا ایک خط منظرِعام پر آیا جس میں اُنہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو مخاطب کیا ہے۔
خط میں لکھا ہے کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے، ایک کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کرسکتا ہے؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی تھی، 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کردیا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے، ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے، ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کردیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے فکس نہیں ہوئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی، آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت کے لیے مقرر کر سکتی تھی، کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کرسکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس، ایڈیشنل رجسٹرار کو شوکاز نوٹس جاری
خط کے مطابق کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آرڈر کے تبدیل کردیا گیا، رجسٹرار آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں، ایسی حکم عدولی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے، عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کیے گئے آرڈر پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی بینچ ایڈیشنل رجسٹرار فارغ بینچز اختیارات جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی دائرہ اختیار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بینچز اختیارات جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس یحیی ا فریدی دائرہ اختیار وی نیوز جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر صلاح الدین نے اس مقدمے کی سماعت سماعت کے لیے مقرر ایڈیشنل رجسٹرار جسٹس عقیل عباسی سماعت کرنے والے جسٹس عائشہ ملک بینچ کے سامنے دائرہ اختیار سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کرتے ہوئے کا اختیار کا فیصلہ عدالت نے حوالے سے جنوری کو عدالت سے یہ مقدمہ کیا جائے نے کہاکہ کرنے کا کہاکہ ا دیا گیا جا سکتا سکتا ہے گیا ہے کیا جا نے کہا سوال ا
پڑھیں:
بنچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ،جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا
سپریم کورٹ میں بنچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، سپریم کورٹ میں آئینی بنچز اور ریگولر بنچز کے اختیارات کے معاملے پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کے سامنے مقدمہ میں فریق کے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔ دوران سماعت ڈپٹی رجسٹرار ذوالفقار احمد نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ چھٹی پر ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا وہ کیوں نہیں لگا؟۔وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ کراچی سے صرف اسی کیس کیلئے آیا ہوں لیکن کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی، عدالت نے آج کیلئے کیس مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا، ایڈیشنل رجسٹرار کو فوری بلائیں تاکہ پتہ چلے کیس کیوں نہیں مقرر ہوا۔ ڈپٹی رجسٹرار ذوالفقار احمد نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ چھٹی پر ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا وہ کیوں نہیں لگا؟۔ ڈپٹی رجسٹرار ذوالفقار احمد نے جواب دیا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ترمیم سے متعلقہ کیس 27 جنوری کو آئینی بنچ میں لگے گا ۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی کیسے اگنور کرسکتی ہے؟ جسٹس عقیل عباسی نے ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کمیٹی کے سامنے رکھا گیا تھا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں۔ ڈپٹی رجسٹرار ذوالفقار احمد نے جواب دیا کہ عدالتی حکم کمیٹی میں پیش کیا تھا ۔عدالت نے ججز کمیٹی کا پاس کردہ آرڈر اور میٹنگ منٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ کاز لسٹ کیوں تبدیل کی گئی اس حوالے سے کوئی تحریری ہدایت ہے تو وہ بھی پیش کریں۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہماری پورے ہفتے کی کاز لسٹ کیوں تبدیل کر دی گئی؟ ہم نے ٹیکس کے مقدمات مقرر کر رکھے تھے جو تبدیل کر دیئے گئے۔
ڈپٹی رجسٹرار نے جواب دیا کہ ججز کمیٹی کا کوئی تحریری حکم موصول نہیں ہوا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کمیٹی کا حکم نہیں ملا تو کیس کیوں مقرر نہیں کیا گیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ مقرر شدہ کیس آئینی بنچ کو کیسے ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے؟۔جسٹس عائشہ ملک نے ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیا کہ تمام مقدمات عدالتی حکم کے تحت مقرر کئے گئے تھے دیگر مقدمات کیوں ڈی لسٹ کئے گئے ہیں؟ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے جواب دیا کہ ریسرچ افسر کا نوٹ ہے قانونی سوالات پر مبنی کیسز آئینی بنچ سنے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیا کہ تمام مقدمات عدالتی حکم کے تحت مقرر کیے گئے تھے ،دیگر مقدمات کیوں ڈی لسٹ کیے گئے ہیں؟ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے جواب دیا کہ ریسرچ افسر کا نوٹ ہے قانونی سوالات پر مبنی کیسز آئینی بنچ سنے گا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اب ریسرچ افسر عدالتی احکامات کا جائزہ لے گا کہ درست ہیں یا نہیں؟ میرے عدالتی کیریئر میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مقدمہ ایسے غائب ہوگیا ہو۔ ڈپٹی رجسٹرار نے جواب دیا کہ ججز کمیٹی کے میٹنگ منٹس ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔سپریم کورٹ نے بنچز کے اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے حکمنامہ میں کہا کہ بتایا جائے مقدمہ سماعت کیلئے آج مقرر کیوں نہ ہوا۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔