Express News:
2025-01-22@01:24:00 GMT

چیئرمین ایف بی آر کا ادارے میں کرپشن کا اعتراف

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اسلام آ باد:

چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے اعتراف کیا  ہے کہ ایف بی آر میں اب بھی کرپشن ہورہی ہے تاہم زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہونے کی وجہ سے معیشت پر دباوٴ ہے، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت دینے کا جائزہ لینے کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق  قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منگل کو چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر کی زیر صدارت منعقد ہوا، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ٹیکس قوانین پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس قوانین میں تبدیلی ٹیکس بیس بڑھانے کیلئے ہے، زیادہ آمدن اورخاص رقم سیزیادہ کا کاروبارکرنے والوں کیلئے قوانین ہیں۔

 چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ کچھ اختیارات ایف بی آر افسران کو نئے قوانین کے تحت دیے جارہے ہیں اور کسی کے پاس کالا دھن ہے یا ٹیکس چوری کرتا ہے اس پر پابندی لگا رہے ہیں،  ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نان فائلر ہے تو اکنامک ٹرانزیکشن نہیں کرسکتا، نان فائلر گاڑی، پلاٹ نہیں خرید سکتا اور سرمایہ کاری بھی نہیں کرسکتا، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، ایم این اے بلال کیانی کی زیرصدارت ذیلی کمیٹی ایف بی آر اورآبادکے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرے گی 10 روز میں ذیلی کمیٹی اپنی رپورٹ قائمہ کمیٹی کو دے۔

دوسری جانب چیئرمین کمیٹی نوید قمر کی ہدایت پر کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کمیٹی شامل ہوں گے، چیئرمین ایف بی آرراشد لنگڑیال نے کہا کہ کابینہ نے آڈیٹرزکی بھرتی کا اختیار دیدیا ہے، کابینہ میں بل پرمکمل غور ہوگا اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کا تخمینہ ہے، ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، ماہانہ ڈھائی کروڑ کی آمدن کرنے والی کی کمائی 6 لاکھ تو ہوگی ان کو بھی ٹیکس دینا چاہیے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ کے دوران چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ بیشتر صنعتی صارفین سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے نیا قانون لایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سیلز ٹیکس جنرل آرڈر جاری کیا جائے گا، آرڈر کے تحت بجلی کے بل کی ایک حد مقرر کی جائے گی، یہ لوگ صنعتی بجلی لیتے ہیں اور ان میں بڑے صنعتی یونٹ بھی ہیں۔

راشد لنگڑیال نے کہا کہ سالانہ 25 کروڑ روپے آمدنی والے کو ٹیکس دینا چاہیے، جب ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، تو ان کو بھی دینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کا بینک اکاونٹ معطل کرنے کا اختیار ایف بی آر مانگ رہا ہے، اکاوٴنٹ معطل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے کاروبار پر اثر پڑے، 10 کروڑ روپے ماہانہ بجلی کا بل ادا کرنے والے کو پابند بنانا چاہ رہے ہیں، ان کو باقاعدہ طور پر پیشگی نوٹس بھیجا جائے گا۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے لیے ایسے صنعتی یونٹ کو 15 دن کا وقت دیا جائے گا، اس پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد صنعتی یونٹ رکھنے والے کو اپیل کا بھی حق دیا جائے گا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی رکن حنا ربانی کھر نے کہا کہ بینک اکاوٴنٹ کی بندش نہایت ڈریکونین قانون ہوگا اس پر قوانین میں شفافیت ضروری ہے، کسی کا بینک اکاؤنٹ معطل ہوگا تو وہ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت بینک اکاوٴنٹس بند کرنے سمیت انتہائی سخت اقدامات لیے جارہے ہیں اس قانون کے تحت ایف بی آر افسران سے ہر طرح سے ڈیل کرنا ہوگا، ایف بی آر افسران پر کسی کو اعتبار نہیں ہے۔

بلال اظہر کیانی نے کہا کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بینک اکاوٴنٹ بند نہ کیا جائے، نوید قمر نے کہا کہ اتنے سخت اختیارات دینے سے پہلے یقین دلایا جائے کہ ایف بی آر ٹیکس آمدن کو اپنے اخراجات پر خرچ نہیں کرے گا۔

وزیرمملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ پائیدار ترقی کی بات کرتے ہیں تورسمی معیشت کاعدم توازن دور کرنا ہوگا اور کالے دھن سے گاڑیاں خریدنے کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

چیئرمین نے بتایا کہ سال 2008 میں جتنا ٹیکس اکھٹا کیا تھا اتنا ہی 2024 میں ہوا، ہم نے ایک فیصد سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کو بھی بڑھایا ہے، تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، شرح نمو ، مہنگائی کے تناسب سے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں ہوا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چیئرمین ایف بی آر قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی سیلز ٹیکس نے کہا کہ جائے گا کے تحت

پڑھیں:

صنعتوں کے اندر جسمانی صحت کے لیے معیاری غذا کا تصور

(دوسرا اور آخری حصہ)
کینٹین میں موجود فرنیچر، برتن اور دیگر سامان کو صاف رکھا جائے۔ برتنوں اور برتنوں کی صفائی کے لیے گرم پانی کا استعمال کرنا چاہیے۔ کھانے کے برتنوں، کٹلری اور دیگر سامان کی آلودگی کو روکنے کے لیے کینٹین میں ہر جگہ مناسب اقدامات کیے جائیں۔ کینٹین میں پیش کی جانے والی خوراک، مشروبات اور دیگر اشیاء بھاری یا اضافی چارجز سے مشروط ہیں۔ ان مصنوعات کو غیر منافع بخش بنیادوں پر فروخت کیا جانا چاہیے۔ یا ان اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے لیے کینٹین کمیٹی بنائی جائے۔ کمیٹی قیمتوں کی فہرست کی منظوری دیتی ہے۔ کمیٹی کی جاری کردہ قیمت کی فہرست حتمی ہونی چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیاء، مشروبات اور دیگر اشیاء کی قیمتیں (چارجز) کینٹین میں کام کرنے والوں کی اکثریت کی بولی جانے والی زبانوں میں لکھی جائیں، واضح طور پر دیوار یا بورڈ پر یا کینٹین کے مختلف مقامات پر چسپاں ہوں۔ اس کے علاوہ کمیٹی کی جانب سے کینٹین میں پیش کیے جانے والے کھانے کے معیار اور مقدار، مینو کے انتظامات، کینٹین میں کھانے کے اوقات اور دیگر معاملات کو بھی واضح کیا جائے۔ یہ سب باتیں ایک مثالی ادارے میں اس وقت درست ہوں گی جب عام ملازم کو کینٹین کے قوانین کا علم ہو گا۔ آپ سیلانی یا اس جیسی دیگر فلاحی تنظیمیں جو مفت کھانا فراہم کرتی ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ انہیں منظم طریقے سے وقت پر کھانا کھلایا جاتا ہے، لیکن ہم اداروں کے اندر اپنی رقم ادا کرنے کے باوجود ان سے کوئی مطالبہ یا بات نہیں کرتے۔ اداروں کے اندر مالکان کی پسند کے ٹھیکہ داری یا کمیشن کے نظام نے ملازمین کی بہترین صحت کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ ملازمین کو اعلیٰ معیار کا کھانا فراہم کرنے کا تحریری معاہدہ ہوتا ہے لیکن اکثر ادارے ملازمین کو میٹھا زہر دیتے ہیں جیسے سوڈا، دال، سڑی ہوئی سبزیاں، سادہ چاول یا ابلتی چائے وغیرہ دی جا رہی ہے. جبکہ ان اداروں میں افسران کے لیے علیحدہ کینٹین موجود ہوتی ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ادارے میں افسران اور ملازمین کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ محنت کش حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے اپنی صحت کو برقرار رکھ سکتے ہیں، شور دماغی اور جسمانی صحت کا دشمن ہے، چڑچڑاپن، ہائی بلڈ پریشر، بے خوابی، بھولپن، ڈپریشن، پریشانی اور دیگر بیماریاں شور میں موجود ہوتی ہیں۔ جو صنعتوں، بازاروں، شہروں اور گلیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، زہریلے عوامل جیسے ٹریفک کا شور، فیکٹریاں، مشینیں وغیرہ دماغی اور جسمانی صحت کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے کی انتظامیہ خود کینٹین چلائے، ملازمین کی صحت جیسے معاملے کو کسی ٹھیکیدار کے حوالے نہ کرے۔ ایسا کرنے سے ملازمین کی صحت تندرست رہے گی جس سے ملازمین اپنی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس: پانی کی قلت کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ہوگئے
  • ملک میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کی جارہی ہے ،  چیئرمین ایف بی آر کا انکشاف
  • گاڑی اور پلاٹ کی‌ خریداری ، نان فائلرز کے لئے بڑی خبر آگئی
  • سیلز ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کی جارہی ہے:چیئرمین ایف بی آر
  • کیا نئے ٹیکس قانون کے تحت 5 سے 10 مرلہ مکان خریدنے والوں پر پابندی عائد ہونے والی ہے؟
  • وزیراعظم  ادارے  کا    ٹرسٹی ہونا جرم، چیلوں کو آقا کی کرپشن نظر نہیں آ رہی: عظمیٰ بخاری 
  • صنعتوں کے اندر جسمانی صحت کے لیے معیاری غذا کا تصور
  • پاکستان ٹیکس بار کاچیئرمین ایف بی آر کو گوادر میں مکمل سیکرٹریٹ کے قیام کیلئے خط
  • ملک کا وزیراعظم ہو کر ایک ادارے کا ٹرسٹی ہونا سنگین جرم ہے، عظمیٰ بخاری