گلوکار جواد احمد نے بجلی چوری کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
گلوکار جواد احمد نے بجلی چوری کے الزامات مسترد کردیگلوکار جواد احمد نے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی جانب سے خود پر لگائے گئے بجلی چوری کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہوگا۔چند دن قبل گلوکار جواد احمد کی اہلیہ کے بیوٹی سیلون پر لیسکو ٹیم نے چھاپہ مار کر ان کے میٹر کو اتار دیا تھا.
بعد ازاں لیسکو حکام نے گلوکار جواد احمد اور ان کی اہلیہ پر بجلی چوری کا الزام لگا کر ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔اب جواد احمد نے خود پر چوری کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہوگا۔جواد احمد نے ’ نجی نیوز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں چوری یا کرپشن کرنی ہوتی تو وہ سیاست میں نہ آتے۔ ان پر بجلی چوری کا الزام شرمناک ہے. وہ انہیں اپنی توہین سمجھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ لیسکو حکام ان کی اہلیہ کے سیلون پر پہنچے اور ان سیلون کے باہر نصب گرین میٹر کو اتارا. جس پر وہ موقع پر پہنچے تو دونوں جانب سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا. جس سے معاملہ خراب ہوا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود نہیں بلکہ ان کی ٹیم میں شامل لڑکوں نے لیسکو حکام سے اتارا گیا میٹر چھینا۔جواد احمد نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ کے سیلون میں بجلی چوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔گلوکار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور یہاں تک کہ مریم نواز بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہ کرنے کے حق میں تھیں .لیکن لیسکو حکام نے دوسروں کے کہنے پر انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وہ حالیہ دنوں میں عمران خان، ملک ریاض اور دوسرے افراد کے خلاف کھلم کھلا بولتے رہے ہیں. جس وجہ سے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہوگا۔
دوسری جانب جواد احمد کی یوٹیوبر سے بات کرنے کی مختصر ویڈیو بھی وائرل ہوگئی، جس میں گلوکار بتاتے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ لیسکو حکام کی جانب سے اتارا گیا میٹر کس کے نام پر تھا۔جواد احمد کا کہنا تھا کہ چوں کہ سیلون کی جگہ میں ان کی اہلیہ بھی حصہ دار ہیں، اس لیے ان کے پاس درست معلومات نہیں کہ لیسکو حکام کی جانب سے اتارا گیا میٹر کن کے نام پر تھا۔انہوں نے یوٹیوبر سے بات کے دوران بھی خود پر بجلی چوری کے الزامات مسترد کیے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گلوکار جواد احمد جواد احمد نے ان کی اہلیہ لیسکو حکام انہوں نے
پڑھیں:
متبادل بیانیہ، علمی اور فکری اداروں کا بحران
آج کی دنیا جدید تصورات کی دنیا ہے۔یہ دنیا میں معلومات ،علم صلاحیت اور مہارتوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں پرانے خیالات یا سوچ عملًا کمزور ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ جدید دنیا پرانے خیالات کو چھوڑ کر نئے خیالات کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وہ ریاستیں جو پرانے خیالات کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان کی اہمیت اب دنیا میں کم ہو رہی ہے۔علم اور معلومات کی بنیاد تحقیق اور خاص طور پر شواہد کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے۔اسی طریقے سے گلوبل دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بہت کچھ بدل رہا ہے۔
جدید ریاست کے تصورات میں اب علمی اور فکری اداروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور وہ اس کو بنیاد بنا کر خود کو ایک متبادل ترقی کے ماڈل میں پیش کر رہے ہیں۔لیکن وہ ریاستیںجو جدید ترقی کے ماڈل کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں یا کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں وہ ترقی کے ماڈل میں بہت پیچھے کھڑی ہیں۔
ایسے میں جامعات یعنی یونیورسٹیاں علمی اور فکری اداروں کی ترویج کے لیے کام کرتی ہیں جہاں سے ان کو نئی سوچ اور علم ملتا ہے۔
اس علم میں جذباتیت کے مقابلے میں عقل و دانش اور شواہد ہوتے ہیں اور ان شواہد کو بنیاد بنا کر وہ متبادل ترقی کے ماڈل کو عملاً اختیار کرتے ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ بھی ایسی ہی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں جامعات کی اہمیت ہوتی ہے اور جہاں ریاستی نظام جامعات کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دیتا ہے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل رکھے جاتے ہیں۔ مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہم جامعات کی اہمیت کو سمجھ کر ترقی کی نئی سوچ و فکر کو بنیاد بناکر فیصلے کرتے ہیں۔
جامعات پہلے سے موجود علم کا مطالعہ کرتی ہیں اور دنیا بھر میں جو نئی تبدیلیاں آرہی ہے ان کا تجزیہ کر کے کچھ نئے تجربوں کی بنیاد پر نئے خیالات کو پیش کرتی ہیں۔بدقسمتی سے ہماری جامعات میں تحقیقات کے معیارات میں کافی گراوٹ نظر آتی ہے۔
اول تو تحقیق کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کچھ وسائل ہیں بھی تو پھر تحقیق کے لیے فکری و علمی آزادیوں کا بڑی حد تک فقدان ہے۔ریاستی نظام کے کنٹرول کی وجہ نے یا آمرانہ سوچ اور فکر نے بہت سی تحقیق کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے پاس ہے ہمیں کسی نئے علم کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طریقے سے جامعات اور گورننس پرمبنی نظام میں حکومت اور ریاستی نظام میں ایک خلیج واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس وقت بہت سی ہونے والی تبدیلیوں سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔جامعات کی حیثیت محض ڈگری کی تقسیم کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش سے جڑا ہوتاہے۔
یہ جو آج دنیا میں ترقی ہو رہی ہے اور جہاں بڑی طاقتوں کا قبضہ ہے اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ انھوں نے خاص طور پر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔وہ اپنی جامعات میں سیاسی انتظامی اور مالی بنیادوں پر بہت بڑی سرمایہ کاری کرکے نئے امکانات کو پیدا کر رہے ہیں۔
پرانے علم اور پرانی ڈگریوں کے مقابلے میں نئے علم کی تلاش کا عمل جاری ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی اور سماجی علوم میں نئے نئے اصول متعارف کروائے جا رہے ہیں ۔ایسے علم کو فوقیت دی جا رہی ہے جو آج کی جدید دنیا کی ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایک نیا متبادل علم تلاش کیا جا رہا ہے۔ہم بطور پاکستان جب جدید دنیا کی بات کرتے ہیں تو اس میں آج کل سب سے زیادہ گفتگو جیو معیشت ،جیو ٹیکنالوجی اور جیو سیاست پر ہو رہی ہے۔ ریاستوں کے درمیان تنازعات اور جنگوں کے مقابلے میں باہمی رابطہ کاری کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ہمیں تنازعات کے مقابلے میں برابری کی بنیاد پر باہمی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا۔
اس کام میں جامعات ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اگر ہم نے اپنی عقل و دانش کے ساتھ جامعات کے نظام کو بہتر طور پر استعمال کر لیا تو اس سے ہم اپنے لیے نئے امکانات کو پیدا کرکے گلوبل دنیا کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر جن بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سیاست جمہوریت آئین، قانون کی حکمرانی، معیشت اور انتظامی ڈھانچے کے مسائل ہیں۔خاص طور پر گورننس و سیکیورٹی کے نظام نے ہمارے لیے بہت سی مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں۔
ان مسائل کا حل ہم داخلی سطح پر جامعات اور تھنک ٹینک کی مدد سے تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے جامعات ایک مختلف چیز جب کہ ریاستی اور حکومتی نظام ایک الگ چیز ہے۔یہ جو ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اس کا بیانیہ بھی جامعات کی سطح پر بحث کے بعد باہر آنا چاہیے۔
رواداری اور سیاسی ہم آہنگی اور غربت کا خاتمہ کیسے ہو۔اسی بنیاد پر ٹیکنالوجی کی دنیا میں جو نئے انقلابات آرہے ہیں اور ایک مصنوعی ذہانت کا تجربہ ہم دیکھ رہے ہیں اسے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اس سے کیسے نئے امکانات پیدا کر سکتے ہیں ۔اسی بنیاد پر جامعات اور صنعتوں کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے ۔تنگ نظری فرسودہ خیالات یا شدت پسندی ہمارا مستقبل نہیں ہونا چاہے۔
جامعات کی سطح پر ایسے تھنک ٹینک موجود ہونے چاہیے جہاں ماہرین تعلیم خاص طور پر جو ریاست اور سیاست کے بحران میں یا معیشت کی سطح پر موجود جڑے معاملات میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ان کو ان تھنک ٹینکس کا حصہ بننا چاہیے۔
جب تک جامعات کے اندر سیاسی مداخلتیں ختم نہیں ہوں گی اور حکمران طبقات ان کو اپنی مرضی کے مطابق ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کریں گے تو جامعات کچھ نہیں کر سکیں گی۔
انتظامی ڈھانچوں کی ترقی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن اصل ترقی کا معیار انسانی ترقی ہے جہاں معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات جو ہیں کو ترقی کے ماڈل میں پیش کیا جاتا ہے۔اہم بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی اپنی جامعات کی سطح پر ایک بڑے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم سے غلطیاں کہاں ہو رہی ہیں اور اس کا ذمے دار کون ہے۔یہ کام ایک سنجیدہ مکالمہ چاہتا ہے جہاں سب فریقین مل جل کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔مقصد ایک دوسرے پر الزامات لگانا نہیں بلکہ اصلاح کا راستہ تلاش کرنا ہوناچاہیے۔
اس کا علاج اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پہلے ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں۔لیکن یہ کام کھلے ذہن ،شفافیت کے ساتھ ہوگا اور ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضہ کرتا ہے۔نئی تحقیق کا عمل نئے زاویے بناتا ہے اور نئی سوچ اور نئی فکر کو پیدا کرتا ہے۔اس لیے ہمیں اس سے ڈرنے کے بجائے ایک متبادل علم کی تلاش کے طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔