WE News:
2025-01-22@01:03:43 GMT

امریکی صدر کلنٹن کی ٹوائلٹ میں ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نسیم اشرف نے اپنی کتاب رنگ سائیڈ میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے مختصر دورے کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سے واش روم میں 5 منٹ کے لیے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں انہوں نے نواز شریف کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز کے دور میں پھانسی نہ دینے کی گارنٹی حاصل کی۔

اپنی کتاب میں وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر کلنٹن کو امریکی حکومت نے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ جنرل مشرف کی دعوت  پر پاکستان آئے اور  سابق فوجی آمر نے امریکی صدر کو نواز شریف کو پھانسی نہ دینے کی یقین دہانی کروائی۔

یہ واقعہ اپنے طور پر نہ صرف سنسنی خیز ہے بلکہ حقیقت سے کچھ دور بھی لگتا ہے اور بطور ایک صحافی مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سپر پاور ملک کا صدر مختصر دورے پر پاکستان آئے اور اپنا پیغام دینے کے لیے اسے واش روم میں خفیہ ملاقات کرنی پڑے۔ اسی دعوے اور اس کی سنسنی خیزی کی اصلیت جاننے کے لیے میں نےاس وقت کے کچھ سینیئر بیوروکریٹس سے حقیقت پوچھی  جو کہ صدر کلنٹن کو دی جانے والی اس ہائی ٹی کی تقریب میں شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پانامہ کینال اور ٹرمپ

نسیم اشرف صاحب نے اپنی کتاب کی پبلسٹی اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے دراصل اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ حقائق اس سے کچھ مختلف تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ صدر بل کلنٹن جنرل مشرف کی دعوت پر نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اس خواہش کا اظہار کیا یا یوں کہیں کہ He invited himself (خود کو مدعو کیا)۔ ہوا کچھ یوں کہ صدر کلنٹن اپنا دورہ ہندوستان مکمل کرکے جب واپس جا رہے تھے تو انہوں نے پاکستانی حکومت کو پیغام بھیجا کہ وہ مختصر وقت کے لیے پاکستان آنا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک بھلا کب ایک امریکی صدر کو روکتا۔

دوسری بات یہ کہ سفارتی پروٹوکول کے مطابق ایک ملک کا صدر کسی دوسرے ملک جب جاتا ہے تو وہ اپنے ہم منصب کا مہمان ٹھہرتا ہے۔ جنرل مشرف ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے اس لیے ان کے پاس جانے کی بجائے وہ سیدھا ایوان صدر میں صدر پاکستان کے پاس آئے۔ اس لیے اس مختصر دورے کی تقریب کا انعقاد بھی ایوان صدر میں ہوا اور انہوں نے صدر رفیق تارڑ سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ ان کے دورے کی آفیشل تصاویر بھی صدر تارڑ کے ساتھ پبلک کی گئیں۔

تیسری بات یہ کہ امریکی صدر بل کلنٹن کو امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے دورے سے کسی سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے نہیں روکا گیا تھا بلکہ اس وقت پاکستان میں کیونکہ  نیا نیا مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا اور امریکی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ کسی فوجی آمر سے ملنے ایک امریکی صدر پاکستان آیا ہے۔ اس سے جنرل مشرف کی آمریت کو تقویت ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کلنٹن کے اس دورے کی کوئی بھی تصویر جنرل مشرف کے ساتھ آفیشلی ریلیز نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیے: حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات کا مقدر ناکامی کیوں؟

اب آتے ہیں ٹوائلٹ میں چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کے واقعے پر۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ ایوان صدر کی 5ویں منزل پر ایک banquet hall  ہے۔ امریکی صدر کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد اسی ہال میں ہوا۔  جب ایوان صدر میں امریکی صدر بل کلنٹن آئے تو پروٹوکول کے مطابق ان سے تمام اہم عہدیداروں کا تعارف کرایا گیا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ان کے ساتھ متعارف کرایا گیا۔

باقاعدہ تقریب کے اختتام کے بعد تقریب کے تمام شرکا ہال میں ہی سماجی گپ شپ کے لیے مختلف ٹولیوں میں بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ صدر کلنٹن چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی ہال کے ایک کونے میں علیحدہ لے گئے اور کہا ’مسٹر چیف جسٹس اگر میرے دوست نواز شریف کو کچھ ہوا (پھانسی دی گئی) تو میں یہ ensure کراؤں گا کہ اس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو‘۔ جس پر چیف جسٹس نے ان کو یقین دہانی کروائی کہ نواز شریف کو سزائے موت نہیں ہوگی۔ یہ ملاقات گو کہ ہال کے ایک کونے میں ہوئی لیکن سب شرکا کے سامنے ہوئی جو اس وقت اس banquet hall میں موجود تھے۔ اس کے بعد سب تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ پھر کس طرح جنرل مشرف نے نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت ملک بدر کرتے ہوئے سعودی عرب بھیج دیا۔

مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس سے سویلینز کو سزائیں

حالات و واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا عموماً لوگ کرتے ہیں اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یا اپنی تصانیف کی پبلسٹی کے لیے اس طرح کے چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں لیکن واقعات کو اس طرح بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ حقیقت سے کوسوں دور محسوس ہو۔ یہ بات عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایک امریکی صدر پاکستان آکر کسی واش روم میں ملک کے چیف جسٹس سے خفیہ ملاقات کرے گا۔ اور ویسے بھی یہ کسی امریکی صدر کے لیے سفارتی پروٹوکول کے  حساب سے بھی شایان شان نہیں تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عزیز درانی

باتھ روم مذاکرات بل کلنٹن پاک امریکا باتھ روم مذاکرات پرویز مشرف چیف جسٹس ارشاد حسن خان نواز شریف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: باتھ روم مذاکرات بل کلنٹن پرویز مشرف چیف جسٹس ارشاد حسن خان نواز شریف کہ صدر کلنٹن صدر بل کلنٹن نواز شریف کو امریکی صدر یہ ملاقات ایوان صدر انہوں نے چیف جسٹس کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی آرمی چیف سے ملاقات

پی ٹی آئی اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات اس وقت پاکستان کی سیاست کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کے عوام تہہ دل سے ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام دیکھناچاہتے ہیں جو پاکستان کی فوج اور سیاستدانوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے ذریعے پیدا ہوسکتاہے۔ اس پس منظر میں افواج پاکستان خود بھی پاکستان میں سیاسی ومعاشی استحکام کے لئے کوششیں کررہی ہے۔کیونکہ پاکستان کا استحکام اور عوام کی معاشی خوشحالی کا دارمدار فوج اور عوام کے درمیان خوشگوار تعلقات سے وابستہ وپیوستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیاستدانوں اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بات چیت شروع ہوتی ہے تو یہ باشعورا فراد کے ذہین میں یہ خیال جاگزیں ہوتاہے کہ اب پاکستان وہر لحاظ سے ترقی کی جانب گامزن ہوسکے گا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے یہ ایک منظم سیاسی جماعت ہے جو عوام میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ پاکستان کومعاشی وسماجی طور پر ترقی یافتہ بنانے میں اپناکرداراداکررہی ہے۔ تاہم یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے بارے میں کچھ عناصر کا یہ خیال کہ یہ ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے‘ ایک بے بنیاد اور لغو سوچ ہے ۔ پی ٹی آئی دیگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں اپنا کردارادا کررہی ہے۔ ہرچندکہ اس کا عوامی سطح پر مقبول رہنما عمران خان پابندی سلاسل ہے۔ لیکن ان کے بیانات اس بات کی دلیل بھی کہ وہ پاکستان کو ہر سطح پر مستحکم اور مضبوط دیکھناچاہتے ہیں ‘ پاکستان کا استحکام اصل میں سیاسی جماعتوں کی عوام دوست کارکردگی سے وابستہ ہے۔ افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت بھی یہی چاہتی ہے کیونکہ فوج‘ سیاستداں اور عوام کے درمیان خوشگوار تعلقات سے ملک معاشی وسماجی طور پر ترقی کرتاہے‘ یہ فارمولا ہر اس قوم نے اپنایاہے جہاں معاشی ترقی کے ذریعے عوام کی سماجی حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ جبکہ اس ہی قسم کی سوچ سے معاشی ترقی کے امکانات پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں‘ لیکن بسااوقات کچھ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر ایسے اقدامات ٹھائے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی انتشار پیدا ہوتاہے۔ جوبعد میں ترقی معکوس کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت غریب ہے بلکہ غربت کی لکیر کے قریب ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جس کے سبب معاشی ترقی نہ صرف ممکن ہوسکے بلکہ یقینی ہوسکے۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ معاشرتی ترقی کا دارو مدار سیاسی ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر ملک میں معاشی ترقی رواں دواں ہے تو عوام بھی خوشحال ہوسکیں گے۔ بلکہ غربت بھی کم ہوسکے گی۔
تاہم پاکستان کی معاشی ترقی کے لحاظ سے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے جب تک حکومت وقت اچھی صنعتی پالیسی وضع نہیں کرے گی‘ اس وقت تک معاشی ترقی ممکن نہیں ہوسکے گی‘ محض زراعت پر معاشی ترقی کا انحصار مثبت سوچ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ زرعی ترقی کو نظرانداز کرکے صنعتی ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے‘ دراصل زرعی اورصنعتی ترقی دونوں سے باہم ملکر معاشی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ یہی طریقہ کار چین نے اپنایا ہے جس کی وجہ سے چین کاشمار دنیا کے جدید ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتاہے۔ جبکہ چینی عوام اپنی حکومت کی مثبت معاشی پالیسیوں سے استفادہ کررہے ہیں۔ اور دن رات معاشی ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ پاکستان کی پالیسیاں اگر اس ہی نہج پر استوار کی جائیں تو پاکستان چند سالوں میں غیر معمولی ترقی کرسکتاہے۔ محض حکومت پر انحصار کرنا‘ اچھی سوچ نہیں ہے‘ ہر باشعور فرد کو پاکستان کو ترقی کے سلسلے میں اپنا واضح کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے غربت کو بتدریج ختم کیاجاسکتاہے۔ ورنہ غربت ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کا سبب بنتی ہے اور اب بھی بنی ہوئی ہے۔
اس وقت پاکستان کی معاشی پالیسی ہرلحاظ سے پاکستان کو ترقی کی جانب لے جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ عوام کو چاہیے کہ ان پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا بھرپورکردار ادا کریںکیونکہ جب تک عوام احتجاجی طور پر معاشی پالیسیوں کو نہیں اپنائیں گے‘ اس وقت تک ترقی کی رفتار تیز نہیں ہوسکے گی۔ ترقی کادوسرا راستہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو معاشی ترقی میں شامل کیاجائے‘ یعنی انہیں روزگار کے نہ صرف مواقع ملنے چاہئیں بلکہ انہیں اس میں شامل کرکے ملک کی ترقی کو یقینی بنایاچاہیے ۔ پاکستا ہر لحاظ سے ایک ترقی پذیر ملک ہے ‘ عوام محنتی ہیں اوردن رات محنت کرکے اس کمعاشی طور پر مضبوط بنارہے ہیں تاہم حکومت روز مرہ کی بنیاد پر ایسی معاشی اور سماجی پالیسیوں پر نگاہ رکھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں لاتے ہوئے عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔ پاکستان میں ترقی کے بے پناہ امکانات ہیں۔ اس کے عوام محنت کش ہیں اور باشعور ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں معاشی وسماجی طور پر بہت ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اس کے امکانات موجود ہیں۔ تاہم حکومت وقت کو ہر لمحہ اپنی پالیسیوں پر گہری نگاہ رکھنی چاہیے تاکہ ترقی کے امکانات جاری وساری رہ سکیں۔ موجودہ حکومت کو اس بات کاادراک ہے کہ عوام کے تعاون سے نیز اپنی عوام دوست پالیسیوں سے پاکستان کو اقتصادی طور پر مستحکم بنایاجاسکتاہے۔ جیساکہ بعض ملکوں نے اس طریقہ کار اختیار کرکے ترقی کے گہرے امکانات پیدا کئے ہیں۔ ذرا سوچیئے!

متعلقہ مضامین

  • بل کلنٹن سے واش روم میں کیا بات ہوئی، سابق چیف جسٹس ارشاد حسن نے بتادیا
  • یہ بات درست نہیں کلنٹن باتھ روم گئے، نواز شریف کی سزا سے متعلق چیف جسٹس سے بات کی، نسیم اشرف
  • نواز شریف امریکی مداخلت پر پھانسی سے کیسے بچے؟ مشرف کے دیرینہ ساتھی نسیم اشرف کے انکشافات
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھالیا
  • مشرف دور میں نوازشریف کو بچانے کیلئے بل کلنٹن کے متحرک ہونے کا انکشاف
  • نواز شریف کو پھانسی سے بچانے کے لیے صدر کلنٹن کی چیف جسٹس سے واش روم میں ملاقات کا انکشاف
  • چیف جسٹس نے کلنٹن کو واش روم میں یقین دلایا
  • بل کلنٹن نے نوازشریف کو بچانے کیلئے چیف جسٹس سے خفیہ ملاقات کی: سابق پاکستانی عہدیدار کا اہم انکشاف
  • پی ٹی آئی کی آرمی چیف سے ملاقات