ایلون مسک نے وویک رامسوامی کی چھٹی کرا دی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکا میں سرکاری محکموں کی اصلاحات کے لیے بنائے جانے والے نئے محکمے ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کے نامزد کردہ شریک سربراہ وویک رامسوامی اب اس محکمے کے رکن نہیں رہے۔ اب صرف ایلون مسک ہی ’’ ڈوج’’ کی سربراہی کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق حکام نے تصدیق کی ہے کہ رامسوامی ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کا مزید حصہ نہیں رہے۔
یہ تصدیق ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب چند گھنٹے قبل ہی امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔
’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ سے رامسوامی کی علیحدگی کے بعد اب اس محکمے کی قیادت صرف ایلون مسک کریں گے۔
وویک رامسوامی کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟
پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق ہنرمند غیر ملکی کارکنوں کےلئے H-1B ویزا کے اجرا کی حمایت کرتے ہوئے رامسوامی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں امریکی کارکنوں کو اوسط درجے کی مہارت قرار رکھنے والا قرار دیا تھا، جس پر صدر ٹرمپ کے اتحادیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ یادرہے ایلون مسک نے بھی H-1B ویزا کی حمایت کی تھی۔
کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایلون مسک کو شراکت داری پسند نہیں تھی اوروہ اسے ’’ ڈوج’’ سے نکالنا چاہتے تھے ٹویٹ کےبعد انہیں بہانہ مل گیا۔ ایشیائی پس منظر کی وجہ سے اسے ’’مارا ے لاگو’’ اور ’’ڈی سی’’ میں برداشت نہیں کیا جارہا۔
ایک اور سورس نے دعوی کیاکہ رامسوامی نے بھی دسمبر کے اوائل سے DOGE کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔
رامسوامی کو بڑا عہدہ دینے کی تیاریاں
ری پبلکن پارٹی میں 2024 کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل رہنے والے وویک رامسوامی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ برس ریاست اوہائیو کے گورنر کے لیے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ 40 سالہ رامسوامی ریاست اوہائیو کے شہر سِنسناٹی کے مکین ہیں۔
’ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رامسوامی اس سے قبل نائب صدر جے ڈی وینس کی سینیٹ کی خالی ہونے والی نشست پر امریکا کے ایوانِ بالا کے رکن بننے کے خواہش مند تھے۔ البتہ اوہائیو کے ری پبلکن گورنر مائیک ڈیوائن نے جے ڈی وینس کی خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست کے لیے ریاست کے لیفٹننٹ گورنر جان ہسٹڈ کو نامزد کر دیا تھا۔
گورنر شپ کے لئے رامسوامی کو سخت مقابلے کا سامنا
اوہائیو میں، رامسوامی کو ممکنہ طور پر ریاست کے اٹارنی جنرل ڈیو یوسٹ کے خلاف مقابلہ کرنا پڑے گا، یادرہے ڈیو نے ریاست کے چھ ہفتے کے اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کا مضبوطی سے دفاع کیا اور سرخیوں میں رہے۔
ڈوج کے ترجمان کا موقف
’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کو اس کے انگریزی مخفف ’ڈی او جی ای‘ کی وجہ سے ڈوج کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اس محکمے کی ایک ترجمان انا کیلی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وویک رامسوامی نے ڈوج کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ رامسوامی جلد ہی عوامی عہدے کے انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے ڈوج سے الگ ہونا ان کی ضرورت ہے۔
گزشتہ برس نومبر 2024 میں ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کو انتخابات میں شکست دینے کے بعد اسی ماہ کے وسط میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ایلون مسک اُن کی حکومت میں ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے محکمے کی سربراہی کریں گے اور ٹیک انٹرپرینیور وویک رامسوامی اس محکمے کی قیادت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں شخصیات کی قیادت میں بننے والا یہ نیا محکمہ امریکی وفاقی حکومت کی ’بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات‘ کے لیے تجاویز اور رہنمائی فراہم کرے گا۔
’’ ڈوج’’ کا مستقبل بھی غیر یقینی
ٹرمپ انتظامیہ پر پہلے ہی DOGE کے افتتاح کے موقع پر کم از کم چار کیس دائر کئے گئے تھے اور تین مقدموں میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ یہ وفاقی شفافیت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یادرہے نو منتخب صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے DOGE کو امریکی حکومت کے “اندر” کام کرنے کی اجازت د ے دی ہے۔ جس کا ایلون مسک نے خیر مقدم کیا ہے ۔
تاہم، کیل میک کلیناہن، جو مفاد عامہ کی قانونی فرم نیشنل سیکیورٹی کونسلرز کے وکیل ہیں اور ایک مقدمے کے مدعی ہیں، نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ صدارتی حکمنامے کے باوجود کیس قابل سماعت ہوگا۔
مزیدپڑھیں:اسکول میں شوہر بیوی کا کردار ادا کرنے والا جوڑا 20 سال بعد حقیقت میں شادی کے بندھن میں بندھ گیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ رامسوامی رامسوامی کو رامسوامی نے ایلون مسک محکمے کی کے لیے
پڑھیں:
دنیا پر ٹرمپ کا قہر
جب امریکا کسی ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے، کسی پر پابندیاں لگا رہا ہے، کسی پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے گویا خود کو پوری دنیا کا مالک اور ٹھیکیدار سمجھ رہا ہے پھر اپنی ہر زیادتی کو اپنا استحقاق بھی سمجھ رہا ہے تو ایسے میں دنیا میں افراتفری، انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے پھر جب سب کچھ امریکا کو ہی کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
امریکا تو اپنی من مانی کر ہی رہا ہے، اس کا بغل بچہ اسرائیل اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہا ہے، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اسے روک یا ٹوک سکے۔ اقوام متحدہ میں حالانکہ اسرائیل کے خلاف اسے جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے آقا امریکا نے کسی کو پاس نہ ہونے دیا اور اگر کوئی پاس بھی ہو گئی تو اس پر عمل نہ ہونے دیا۔
چنانچہ غزہ کیا پورے فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے پہلے لوگ او آئی سی کو بے حس گھوڑا کہتے تھے مگر اب تو اقوام متحدہ کا اس سے بھی برا حال ہے اگر اقوام متحدہ امریکا کے آگے بے بس ہے تو پھر اسے بند ہی کر دینا چاہیے اور امریکا بہادر کو من مانی کرنے دی جائے۔
اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ تمام ہی ممالک امریکا سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سوچنا شروع کریں گے ابھی تو دنیا اپنے معاملات کے لیے یو این او کی جانب دیکھتی ہے مگر ان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کہ تمام معاملات کو UNOخود نہیں امریکی مرضی سے نمٹاتی ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا غلام ہے وہ صرف اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کو دیکھتا ہے اسے کسی ملک کی پریشانی یا مشکل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کے دائیں بازو کے حکمرانوں، مذہبی طبقے اور افغان مجاہدین کو خوب خوب استعمال کیا۔ پھر پاکستان نے امریکی گلوبل وار آن ٹیررزم میں ہزاروں جانیں گنوائیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست سے نکال کر چین سے تعلقات توڑنے پر زور دینے لگا۔
امریکی حکمرانوں کو اگر اپنے ہم وطنوں کے علاوہ کسی کی پرواہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ امریکی ویٹو پاور اسرائیل کے کھل کر کام آ رہی ہے۔ وہ امریکی سپورٹ کے بل بوتے پر عربوں کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اور کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے ذرا نہیں ہچکچا رہا ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ یہ حرکت کر سکتا ہے اور اگر ایران نے پلٹ کر وار کیا تو پھر امریکا اسے معاف نہیں کرے گا اور اسے اپنے مہلک ترین میزائلوں سے نشانہ بنا دے گا۔
اب بتائیے تقریباً دو سال سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر امریکا سمیت تمام یورپی ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں انھوں نے اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے کتنے ہی ممالک کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے، اگر اس کے مفادات اور برتری قائم رکھنے کے راستے میں روس اور چین آڑے نہ آتے تو وہ پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرا دیتا۔
دراصل امریکا کی برتری اس کی فوجی طاقت ہے۔ معیشت تو اس کی بھی ڈانواڈول ہے۔ وہ دنیا کو صرف اپنی فوجی طاقت سے ڈراتا رہتا ہے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس سے بڑا اس کے لیے اور کیا لمحہ فکریہ ہوگا کہ وہ خود 36 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکی معیشت روز بہ روز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھال کر امریکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ہی مختلف اقدام کیے ہیں جن میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ امریکی ایڈ ختم کرنے سے لے کر ٹیرف کا بڑھایا جانا انھی اقدام میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لگائے گئے ٹیرف کو امریکا کے لیے مفید قرار دے دیتے ہوئے تین روز قبل اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا کیا تو اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔
اسٹاک ایکسچینجوں میں لوگوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ، وال اسٹریٹ میں کہرام بپا ہوا۔ جب خود امریکی عوام ٹرمپ کے اس اقدام سے بے زارنظر آتے ہیں تو ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے ٹیرف کے نافذ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ،البتہ چین کے خلاف 125 فی صد ٹیرف برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اقدام سے خود پاکستان کے بری طرح متاثر ہونے کا امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور اس میں اسے کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں جس سے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو چلی تھی مگر ٹرمپ نے پاکستانی برآمدات پر29 فی صد بھاری محصول عائد کرکے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
دراصل امریکا پاکستانی مصنوعات کی ایک فائدہ مند منڈی ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کا آغاز کرنے جارہا ہے مگر یہاں تو دنیا کا ہر ملک ہی امریکی حکومت سے اس کے ٹیرف کو کم کرنے پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا ٹرمپ اپنے اعلان کردہ محصولات سے مستقل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ؟ان کی سخت طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں ہے مگر انھیں پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ خود امریکی معیشت پہلے سے زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔
اس وقت دنیا کی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت انجام پا رہی ہے اس کے اصول بنانے میں بھی امریکی ہاتھ تھا اب خود امریکا اپنے مفاد کی خاطر عالمی تجارت کو ایسا نقصان پہنچانے جا رہا ہے جس کا نقصان اسے خود بھی بھگتنا پڑے گا اور ٹرمپ کو عوامی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
انھیں چاہیے کہ امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسرے اقدام اٹھائیں۔ ٹیرف کے نفاذ کو اگر مناسب سطح پر بھی لے آئیں جس سے عالمی تجارت رواں دواں رہے اور چھوٹے ممالک کو نقصان نہ ہو تو اس سے نہ صرف امریکی امیج برقرار رہے گا بلکہ شاید اگلی بار انتخابات میں کامیابی ٹرمپ کا پھر مقدر بن جائے۔