’ایک افغان جنگجو کے بدلے دو امریکی شہری رہا‘
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جنوری 2025ء) قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری مذاکراتی عمل کی تصدیق گزشتہ سال کی گئی تھی تاہم اس تبادلے کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا گیا۔ ری پبلکن سیاستدان ٹرمپ نے دوسری مدت کے لیے 20 جنوری کو حلف اٹھایا۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں قید افغان جنگجو خان محمد کو امریکی شہریوں کی آزادی کے بدلے رہا کر دیا گیا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے مزید بتایا ہے کہ خان محمد تقریباﹰ دو دہائی قبل مشرقی افغان صوبے ننگرہار سے گرفتار کیے جانے کے بعد کیلیفورنیا میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
طالبان نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ خان محمد کی آزادی کے بدلے کتنے امریکی شہریوں کو رہا کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
گزشتہ سال حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے البتہ دو امریکی شہریوں کو حراست میں لینے کا اعلان کیا تھا۔
رہا کیے جانے والے افراد کون ہیں؟امریکی محکمہ انصاف نے سن 2008 میں محمد خان کو ’افغان طالبان سیل‘ کا رکن قرار دیا تھا۔ انہیں اکتوبر سن 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ دسمبر 2008 میں منشیات کی اسمگلنگ اور اس کالعدم دھندے سے وابستہ دہشت گردانہ اقدامات کے الزامات کے تحت دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
سن 2022 میں طالبان کی طرف سے حراست میں لیے گئے امریکی شہری ریان کوربٹ کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
ریان کی فیملی نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ریان زندہ ہیں اور 894 دنوں کی صعوبتوں کے بعد وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ اس پیغام میں ریان کوربٹ کی رہائی کی کوششوں کی لیے بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قطر کا بھی شکریہ ادا کیا گیا جبکہ ساتھ ہی افغانستان میں قید دو دیگر امریکیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق رہا کیے گئے دوسرے امریکی کا نام ولیم میک کینٹی ہے۔
عوامی سطح پر اس بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں کہ یہ افغانستان میں کیا کر رہے تھے۔ مزید کتنے امریکی افغان طالبان کی قید میں ہیں؟امریکی میڈیا نے کہا ہے کہ اس ڈیل کے بعد بھی دیگر امریکی ابھی بھی طالبان کی قید میں ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ابھی تک قید دیگر دو امریکیوں میں سابق ایئر لائن میکینک جارج گلیزمن اور افغان نژاد امریکی شہری محمود حبیبی شامل ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدراتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد طالبان حکومت نے کہا تھا کہ وہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے بعد واشنگٹن حکومت کے ساتھ تعلقات میں ایک 'نئے باب‘ کی امید کر رہی ہے۔
سن دو ہزار اکیس میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بالخصوص خواتین کے ساتھ امتیازی رویوں کی وجہ سے امریکہ اور متعدد مغربی ممالک افغان طالبان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
ع ب/ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے طالبان کی کیا گیا کے ساتھ کے بعد گیا ہے
پڑھیں:
اڈیالہ جیل میں امریکی پاکستانیوں کے گروپ کی عمران خان سے اہم ملاقات ہوئی، انگریزی روزنامے کا دعویٰ
انگریزی روزنامے دی نیوز کے مطابق سابق وزیر اعظم اور جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے گزشتہ سال نومبر میں ایک ایسے شخص سے طویل بات چیت کی تھی جو اب اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ اہم بات چیت کا حصہ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ قومی انگریزی روزنامے کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں امریکی پاکستانیوں کے گروپ کی عمران خان سے اہم ملاقات ہوئی ہے۔ انگریزی روزنامے دی نیوز کے مطابق سابق وزیر اعظم اور جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے گزشتہ سال نومبر میں ایک ایسے شخص سے طویل بات چیت کی تھی جو اب اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ اہم بات چیت کا حصہ ہیں۔ دی نیوز کے مطابق یہ مذاکرات عمران خان کی رہائی اور پی ٹی آئی اور طاقتور حکام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ممکنہ طریقے تلاش کرنے کے بارے میں ہیں۔ انتہائی موقر ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی پاکستانیوں کے ایک گروپ کے گزشتہ ماہ (مارچ) کے تیسرے ہفتے میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات سے بہت پہلے اڈیالہ جیل میں عمران خان اور ایک ایسے شخص کے درمیان بات چیت کے کئی سیشنز منعقد ہوئے تھے، یہ شخص اب حالیہ مذاکرات اور بات چیت کا حصہ ہے۔ عمران خان اور طاقتور پاکستانی انتظامیہ کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں اُن میں فوُڈ اور ریئل اسٹیٹ کی امریکی پاکستانی شخصیت تنویر احمد، تحریک انصاف امریکا چیپٹر کے سینئر رہنما عاطف خان، سردار عبد السمیع، ڈاکٹر عثمان ملک، ڈاکٹر سائرہ بلال اور ڈاکٹر محمد منیر شامل ہیں۔
جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے امریکی پاکستانی افراد دو دہائیوں سے عمران خان کے ذاتی دوست اور انہیں عطیات دیتے رہے ہیں، جب عمران خان وزیراعظم تھے تب بھی ملاقات کیلئے آتے رہتے تھے اور امریکا سے پاکستان آنے والے وفد کو جوڑنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اِن دو ملاقاتوں کے دوران جو کچھ ہوا؛ ان کے متعلق معتبر ذرائع نے دلچسپ معلومات شیئر کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکی پاکستانیوں کے ساتھ نومبر میں ہوئی ملاقات کے دوران عمران خان نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی ضرورت کو سمجھا اور معاملات کے حل کیلئے تقریباً حامی ظاہر کی اور پھر انہیں یقین دلایا گیا کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد لانگ مارچ میں شامل ہوں گے جس سے اس قدر افراتفری پیدا ہو گی کہ نظام کو فیصلہ کن مذاکرات کی طرف لایا جا سکے گا۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا کے 3 سینئر رہنماؤں نے عمران خان کو یقین دلایا کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد پر دھاوا بول دیں گے اور پی ٹی آئی کی شرائط پر عمران خان کو رہا کرایا جائے گا۔ اُس وقت بشریٰ بی بی اس پورے منظرنامے میں شامل نہیں تھیں اور ان کی شمولیت کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ عمران خان اس مارچ کی کامیابی کیلئے اس قدر پرامید تھے کہ انہوں نے امریکی پاکستانیوں کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔