امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی کیا اہمیت ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
اپنے اقتدار کے پہلے روز ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنا امریکی صدور کی ایک روایت ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کس طرح جاری ہوتے ہیں، ان میں کتنی قوت ہوتی ہے، ان کی حدود کیا ہیں اور آیا یہ احکامات غیر مؤثر بھی کیے جا سکتے ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈرز کیا ہوتے ہیں؟
بنیادی طور پر ایگزیکٹو آرڈر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسی دستاویز ہےجو یہ ظاہر کرتی ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے یا انہیں کیا رپورٹس حاصل کرنی ہے۔
صدر ٹرمپ اپنے پہلے عہدے کی مدت کی دوران وائٹ ہاؤس میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
بعض ایگزیکٹو آرڈر قابل اعتراض بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرسمس کے اگلے روز وفاقی ملازمین کو چھٹی دے دینا۔ اسی طرح ایگزیکٹو آرڈرکسی بڑی اور اہم پالیسی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جس کی ایک حالیہ مثال سابق صدر بائیڈن کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے بارے میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کا اجرا ہے۔ اس حکم نامے میں اس کے استعمال پر مؤثر نگرانی کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔
ایگزیکٹو آرڈر کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں
امریکی آئین کے تحت قوانین کانگریس کے ایوان منظوری کے بعد حتمی دستخطوں کے لئے صدر کے بھیجتے ہیں اور دستخط ہونے کے بعد وہ قانون کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کہ ایگزیکٹو آرڈر صدر براہ راست جاری کرتا ہے۔
امریکن بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور قانون ساز اسے براہ راست رد نہیں کر سکتے، لیکن کانگریس کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کے طریقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے اس کی فنڈنگ روک سکتی ہے یا کچھ اور رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے، جس سے ایگزیکٹو آرڈر پر کارروائی عملی طور پر رک جاتی ہے۔
ایگزیکٹو آرڈرز کا اجرا کتنا عام ہے
سینٹاباربرا میں قائم کیلی فورنیا یونیورسٹی کے امریکن پریذیڈنسی پراجیکٹ کے لیے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی تاریخ میں اب تک کئی ہزار ایگزیکٹو آرڈر جاری ہو چکے ہیں۔ چند صدور کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد یہ ہے۔
جارج واشنگٹن نے 8 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے تھے۔
جب کہ فرینکلین روز ویلٹ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد 3721 تھی۔
حالیہ دور میں سابق صدر بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت کے دوران 160 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔
جب کہ صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے دن 100 سے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کریں گے۔
Photo Gallery:
ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، میکسیکو کی سرحد کے کنٹرول کو سخت بنانے، توانائی کے حصول کو ترقی دینے، وفاقی کارکنوں کے لیے قوانین اور صنفی پالیسیاں وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ٹک ٹاک کو فروخت کے لیے مزید وقت دینے کے لیے بھی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کون روک سکتا ہے
کانگریس اور عدالت دونوں کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کی طاقت موجود ہے۔
مثال کے طور پر کانگریس نے 1992 میں اس وقت کے صدر جارج ایچ بش کے سائنسی تحقیق کے لیے انسانی جنین کے ٹشوزکے لیے ایک بینک کے قیام کو یہ اقدام منظور کر کے غیر مؤثر بنا دیا تھا کہ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ کانگریس ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے درکار فنڈنگ روک کر یا وفاقی ایجنسیوں کو ایگزیکٹو آرڈر پر عمل نہ کرنے کا کہہ کر اسے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔
عدالت کے ذریعے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرمؤثر بنانے کا ایک واقعہ صدر ہیری ٹرومین کے دور میں پیش آیا جب انہوں نے کوریائی جنگ کے دوران ایک اسٹیل مل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ صدر کے پاس کانگریس کی منظوری کے بغیر نجی جائیداد قبضے میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ایگزیکٹو آرڈر پر عمل ایگزیکٹو آرڈرز کی ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی کے لیے
پڑھیں:
نئے آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو جوبائیڈن کا خط مل گیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی پہلے روز سابق صدر جوبائیڈن کے 78 صدارتی اقدامات منسوخ کر دیے اور متعدد نئے ایگزیکٹیو آرڈرز پر دستخط کر دیے۔
امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ جس وقت ایگزیکٹیو آرڈرز پر دستخط کر رہے تھے اسی دوران ان کو میز کی دراز میں رکھے سابق صدر بائیڈن کا خط مل گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ جس وقت دستخط کر رہے تھے اسی دوران امریکی صحافی نے انہیں خط کے بارے میں یاد دلایا۔
اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا کام چھوڑ کر خط ڈھونڈنے کی کوشش کی جو انہیں دراز سے مل گیا جس پر ’47‘ لکھا ہوا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاقاً کہا کہ ہمیں اس چیز کو ڈھونڈنے میں کئی سال لگ سکتے تھے۔
انہوں نے کمرے میں موجود سب لوگوں کے ساتھ مذاق بھی کیا اور کہا کہ وہ سب مل کر خط پڑھیں، ٹھیک ہے، شاید میں اسے پہلے پڑھوں گا اور پھر یہ فیصلہ کروں گا۔
بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے بائیڈن کے لیے بھی خط چھوڑا تھا جیسا کہ انہوں نے آپ کے لیے کیا۔
اس پر امریکی صدر نے جواب دیا کہ ہاں میں نے بائیڈن کی طرح میز پر خط چھوڑا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق جانے والا صدر روایت کے طور پر آنے والے صدر کے لیے خط میز پر رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 47 ویں صدر ہیں۔