اپنی ایک رپورٹ میں مڈل ایسٹ آئی نیوز ویب کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے مئی 2024ء میں 116 ملین ڈالر کی مصنوعات، ترکیہ سے مقبوضہ سرزمین میں درآمد کیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ "نائل اوپک" نے کہا کہ ترکیہ، غزہ میں مستقل امن کے قیام کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن کی برقرای سے مراد یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت بند کرنے کی وجہ ختم ہونے کی صورت میں اقتصادی تعلق دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ نائل اوپک نے ان خیالات کا اظہار سال 2025ء کے اقتصادی جائزہ اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔ دوسری جانب ترکیہ کے صدر "رجب طیب اردگان" سال کے آغاز میں اعلان کر چکے ہیں کہ انقرہ نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام تعلقات منقطع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آخر تک غزہ کی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رجب طیب اردگان کے اس بیان کے کچھ روز بعد ہی "مڈل ایسٹ آئی" نیوز ویب نے انکشاف کیا کہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان کاروباری لین دین، یونان جیسے کسی تیسرے ملک کی مدد سے انجام پا رہا ہے۔ Middle East Eye  نے خبر دی کہ اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے مئی 2024ء میں 116 ملین ڈالر کی مصنوعات، ترکیہ سے مقبوضہ سرزمین میں درآمد کیں۔ یہ خبر ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی سہولت کاری فراہم کرنے والے دو تاجروں نے لیک کی۔ ان میں سے ایک تاجر نے مڈل ایسٹ آئی سے باقاعدہ بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکام، تُرک کمپنیوں کو یونان کے ذریعے جانے والی مصنوعات کا مقام تبدیل کرنے تک کا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس سے مزید اخراجات بڑھیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہ اسرائیل اسرائیل کے کے ساتھ کہا کہ

پڑھیں:

اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی بھاری قیمت چکانا پڑیگی، صیہونی اخبار

تجزیہ کار کے مطابق یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صرف فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا نیتن یاہو کا دعویٰ بے بنیاد تھا۔ وائٹ ہاؤس کی نئی انتظامیہ کے سامنے اپنی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہوئے، بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے سخت گیر حکمرانوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے سرطانی ٹیومر کا اپنا آزاد سیاسی، قومی، ادارہ جاتی یا حتیٰ سماجی شناخت سمیت کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کے خلاف جنگ کے حوالے سے صیہونی حکومت کے اعلان کردہ اہداف اور نتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے، عبرانی اخبار ھارتز نے لکھا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ معاہدے کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ کئی مہینوں تک غزہ کی پٹی میں مکمل فتح کے دعویے کرنیکے بعد یہ معاہدہ اسرائیل کو حماس کے خاتمے سمیت جنگ کے اہداف کو ترک کرنے کا سبب بنے گا، اور حماس ایک بار پھر فلسطینیوں کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے گی۔ 

اخبار کے تجزیہ کار نے زور دے کر کہا ہے کہ نتن یاہو نے پہلے بھی غزہ کی پٹی، مصر سرحد پر واقع فلاڈیلفیا (صلاح الدین) محور سے دستبرداری کی مخالفت کی تھی، لیکن موجودہ معاہدے میں اس کراسنگ سے دستبرداری پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صرف فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا نیتن یاہو کا دعویٰ بے بنیاد تھا۔ وائٹ ہاؤس کی نئی انتظامیہ کے سامنے اپنی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہوئے، بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے سخت گیر حکمرانوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے سرطانی ٹیومر کا اپنا آزاد سیاسی، قومی، ادارہ جاتی یا حتیٰ سماجی شناخت سمیت کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔

حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے کے بارے میں بیت عقیون کے دیوانے کا لہجہ سنجیدہ ہوتے ہی صیہونی حکومت کو بیک وقت 5 محاذوں پر رسوائی کا سامنا ہے:
1۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف 16 ماہ تک جاری رہنے والی نسل کشی کی جنگ کے بعد معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ 8 دہائیوں میں پہلی طویل فوجی مہم کی ناکام ہوئی ہے۔
2۔ لیکود پارٹی کا رہنما نیتن یاہو اے آئی پی اے سی لابی میں ایک طاقتور امیج رکھنے کے باوجود عملی طور پر ایک مغربی سیاسی پیادے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور معاریف کے مشہور اسرائیلی تجزیہ کار بین کاسپیت کے مطابق وہ امریکی طاقت کے مرکز سے بے حد خوفزدہ ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص پر اعتماد کر رہے ہیں۔
3۔ غاصب حکومت خطے میں امریکہ کے پاگل کتے کے سوا کچھ نہیں ہے اور جیسے ہی واشنگٹن سے اسرائیل کی لگام کھینچنے کا فیصلہ کیا جائے گا، وہ جنگ میں جتنی جلدی داخل ہو گی اتنی جلدی سے اسے ختم بھی کر دے گی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی استعمار امریکہ کے نزدیک غاصب اسرائیلی ریاست صرف ان کی ایک کالونی ہے۔
4۔ نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد کرنے والے انتہا پسند یا اپوکیلیپٹک صیہونیوں نے، جن کا اقتدار میں رہنا غزہ کی جنگ کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے، نے واضح طور پر واشنگٹن کی طرف سے جنگ بندی کے حکم کی مخالفت کی ہے، جو کہ کنیسیٹ میں کمزور حکمران اتحاد میں دراڑ ہے۔ ان دھڑوں کے درمیان یہ شگاف واضح کرتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین پر غاصب رجیم اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔
5۔ محاصرے شدہ ایک چھوٹی سی پٹی میں فلسطینیوں کیخلاف جارحیت، نسل کشی اور اسے کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے مغربی شراکت داروں کی بھرپور حمایت کے باوجود بھی صیہونی اپنے حتمی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا مقصد نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری عالمی برادری میں مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا تھا۔ فطری طور پر مسئلہ فلسطین برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ اس مغربی استعماری کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مزاحمت بھی مضبوط ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، قابض حکومت کے خلاف مزاحمت کے طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یونان نے ترکیہ سے تعلقات میں پیش رفت کا عندیہ دے دیا
  • پاکستان کا ترکیہ میں آتشزدگی سے درجنوں افراد کی ہلاکت پر اظہار افسوس
  •   پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بحال ہوگئے تو ہم سے مذاکرات کیوں کررہے ہیں؟خواجہ آصف
  • امریکا میں ٹک ٹاک مختصر پابندی کے بعد سروس دوبارہ بحال
  • عامر خان نے سلمان خان کیساتھ کبھی کام نہ کرنے کا عہد کیوں کیا؟
  • امریکا میں ٹک ٹاک کی سروس پابندی کے بعد دوبارہ بحال
  • مختصر تعطل کے بعد امریکا میں ٹک ٹاک سروس دوبارہ بحال
  • پاکستان اور جنوبی کوریا کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے معاہدے پر دستخط
  • اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی بھاری قیمت چکانا پڑیگی، صیہونی اخبار