صارم قتل و زیادتی کیس کی تفتیش کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
کراچی:
نارتھ کراچی سے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیے گئے 7 سالہ صارم کے کیس کی تفتیش کیلئے ڈی آئی جی ویسٹ نے 4 رکنی خصوصی ٹیم تشکیل دے دی۔
ایس ایس پی اے وی سی سی انیل حیدرنے ایکپسریس کو بتایا کہ اینٹی وائنٹ کرائم سیل صرف اغوا برائے تاون کے کیسز کی تفتیش کرتا ہے، صارم کے اغوا اور قتل میں تاوان وصول کرنے کے شواہد نہیں ملے، تفتیش کی منتقلی معمول کی کارروائی ہے، کیس کی تفتیش پر کوئی اثرنہیں پڑے گا، تاوان کے لیے رابطہ کرنے والا شخص فراڈ تھا، جعلی اغوا کار نے غیرملکی موبائل فون نمبرسے صارم کے اہلخانہ سے رابطہ کیا تھا۔
جعلی اغوا کار کا موبائل فون نمبر پولیس کے پاس پہلے سے کئی کیسز میں رجسٹرڈ ہے، غیرملکی موبائل فون نمبر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے، انہوں نے بتایا کہ کمسن صارم کے اغوا اور قتل کے شبہ میں 5 مشکوک افراد پولیس کی حراست میں ہیں جن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جن کے ڈی این اے کے نمونے جامعہ کراچی کی لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں، رپورٹس آنے میں 5 سے 6 دن لگیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے رہائشی پروجیکٹ کی یونین میں شامل افراد سے بھی پوچھ گچھ کی ہے، دوسری جانب ڈی آئی جی ویسٹ عرفان علی بلوچ نے کیس کی تفتیش متعلقہ ضلع پولیس کومنقتلی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کمسن صارم کے اغوا اور قتل کی تفتیش کے لیے 4 رکنی خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے اس ضمن میں نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے،سینٹرل انویسٹی گیشن سیل کے انچارج ڈی ایس پی فرید احمد خان کوکمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایس ایچ اوبلال کالونی انسپکٹر اسرار آفریدی، ایس آئی او بلال کالونی انسپکٹرسلیم احمد صدیقی اورایس آئی او لیاقت آباد انسپکٹر رانا حسیب شامل ہیں، تحقیقاتی کمیٹی کمسن صارم کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے بھرپور کوشش کریگی اورتمام وسائل بروئے کارلائی گی، ڈی آئی جی نے بتایا کہ خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم روزانہ کی بناد پرپیش رفت سے متعلق آگاہ بھی کریگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صارم کے اغوا اور قتل
پڑھیں:
بھارت میں جنسی درندے آزاد، 19 سالہ لڑکی سے 6 دن تک 23 افراد کی اجتماعی زیادتی
بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر وارانسی میں ایک 19 سالہ لڑکی کے ساتھ 23 افراد کی 6 دن تک اجتماعی زیادتی کی ہولناک واردات سامنے آئی ہے۔ پولیس کے مطابق 12 نامزد ملزمان میں سے 6 کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کی گرفتاری کےلیے تلاش جاری ہے۔
بھارتی ذرایع ابلاغ کے مطابق وارانسی کے علاقے لال پور کی رہائشی 19 سالہ لڑکی 29 مارچ کو ایک دوست سے ملنے گئی تھی جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہوگئی تھی۔ گھر والوں نے 4 اپریل کو پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ اسی دن لڑکی کو پنڈے پور چوراہے پر بدترین حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
متاثرہ لڑکی کسی طرح قریبی دوست کے گھر پہنچی جہاں سے اسے گھر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں اس نے اپنی والدہ کو پورے واقعے سے آگاہ کیا جس پر پولیس میں شکایت درج کرائی گئی۔
لڑکی کے بیان کے مطابق اس کے ساتھ حقہ بار، ہوٹل، لاج اور گیسٹ ہاؤس میں 6 دن تک 23 مختلف لوگوں نے نشہ دے کر اجتماعی زیادتی کی۔ پولیس نے اس کیس میں 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
وارانسی پولیس کے سینئر افسر چندرکانت مینا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر نہ تو متاثرہ لڑکی اور نہ ہی اس کے گھر والوں نے جنسی زیادتی کی شکایت درج کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اجتماعی زیادتی کی شکایت 6 اپریل کو درج کی گئی‘‘۔
اپنے پارلیمانی حلقے وارانسی پہنچنے پر وزیراعظم نریندر مودی نے پولیس کو واقعے کے ملزمان کے خلاف ’’فوری اور سخت کارروائی‘‘ کا حکم دیا ہے۔ یوپی حکومت کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے واقعے کے مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔
لڑکی کی والدہ نے کہا کہ وہ وزیراعظم مودی سے مل کر اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے سلوک کی داستان سنانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کے ساتھ یہ وحشیانہ حرکت کرنے والوں کو سخت ترین سزا ملے تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے‘‘۔
اس کیس میں بھارتیہ نیایا سنہتا (BNS) کے تحت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں اجتماعی زیادتی، عورت کی عصمت دری کی کوشش، زہر دے کر نقصان پہنچانے کی کوشش، غلط طور پر روکے رکھنا اور مجرمانہ دھمکیاں شامل ہیں۔
وارانسی کے کمشنر آف پولیس موہت اگروال نے جمعہ کو بتایا کہ معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اب تک 12 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باقی 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کےلیے چھاپے جاری ہیں۔
یہ واقعہ ایک بار پھر ہندوستانی معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ حکام کے فوری ایکشن کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک خواتین کو ایسے وحشیانہ واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا؟