Jang News:
2025-01-22@00:18:04 GMT

2025ء میں ہم موٹر وے ایم 6 پر کام شروع کریں گے: عبدالعلیم خان

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

2025ء میں ہم موٹر وے ایم 6 پر کام شروع کریں گے: عبدالعلیم خان

وفاقی وزیرِ نج کاری عبدالعلیم خان—فائل فوٹو

وفاقی وزیرِ نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ 2025ء میں ہم موٹر وے ایم 6 پر کام شروع کریں گے۔

 سینیٹ اجلاس میں عبدالعلیم خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایم 6 سکھر سے حیدر آباد تک نہیں ہو گی، اسے کراچی لے کر جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی ترجیح میں موٹر وے ایم 6 رکھی ہے۔

پی آئی اے کی تباہی میں سب نے حصہ ڈالا،نجکاری نہ کریں تو کیا کریں؟ عبدالعلیم خان

وفاقی وزیرِ نج کاری عبدالعلیم خان کا پی آئی اے کی تباہی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے، اس کی نج کاری آج نہیں کریں تو کیا کریں؟

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوئی سڑک موٹر وے ایم 6 سے زیادہ اہم نہیں، ہم موٹر وے ایم 6 کو پاکستان کی سڑک سمجھتے ہیں۔

عبدالعلیم خان نے یہ بھی کہا کہ جو جو حکومت برسرِ اقتدار رہی وہ موٹر وے ایم 6 نہ بنانے کی ذمے دار ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: عبدالعلیم خان موٹر وے ایم 6

پڑھیں:

2025ء کیسا گزرے گا؟

ہم سب کے لئے دو قسم کی پیشین گوئیاں اہم ہیں، ایک سیاسی اور دوسری معاشی، میں نے بہت سارے ستارہ شناسوں کو سنا ہے اور ان میں سے کئی مجھے ایسے لگتے ہیں جو خود میری پوسٹس یا کالم پڑھ کے پیشین گوئیاں کرتے ہیں جیسے ایک صاحب، انہوں نے عمران خان کے برے مستقبل بارے تو کہا مگر پھر حد ہی عبور کر گئے، غلط دعویٰ کیا کہ بُشریٰ بی بی اپنے شوہرسے الگ ہوجائیں گی۔ ایک ، دو ستارہ شناس ایسے بھی تھے جو دعوے کر رہے تھے کہ عمران خان کا دور واپس آنے والا ہے اور میں نے اپنے پروگرام میں کہہ دیا کہ مجھے ستاروں کی چالوں کاعلم نہیں مگر سیاسی چالوں کا ضرور ہے، عمران خان کا برا وقت ابھی چلے گا اورمجھے سیاسی حالات عین وہی نظر آ رہے ہیں جو 2022ء سے چل رہے ہیں۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آپ کے حالات عمل سے زیادہ ردعمل پر انحصار کرتے ہیں بلکہ پوری زندگی کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال یوں ہے کہ ایک طالب علم کو استاد نے سبق یاد نہ کرنے پر ڈانٹا یا پھینٹی لگا دی تووہ ڈر گیا، محتاط ہوگیا، محنت کرنے لگا اور امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا، اسی بنیاد پر اسے اچھی نوکری مل گئی اوراس کی زندگی سنور گئی مگر اسی طالب علم نے اسی ڈانٹ اور پھینٹی کے بعد سکول سے بھاگنے کی عادت بنا لی، لچوں اور لفنگوں کا ساتھی ہوگیا تواس کی زندگی بگڑ گئی۔ سو میں اپنے مرشد کے شعر کو یوں بھی پڑھ لیتا ہوں کہ ردعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ عمران خان کو اسے لانے والی اسٹیبلشمنٹ نے بتایا تھا کہ آپ کی ناقص کارکردگی اور بین الاقوامی سطح پر ناقص رویوں کی وجہ سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ ہم ڈنڈے کے زور پر آپ کے اتحادیوں کو ا ٓپ کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان دوپہر بارہ، ایک بجے بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر پر ایوان وزیراعظم آنے اور شام ہوتے ہیں واپس اپنے محل میں لوٹ جانے کی عادت چھوڑ دیتے مگر انہوںنے دوسرے طالب علم والا رویہ اختیار کیا۔ انہیں جو وارننگ دی گئی تھی وہ عین ملک و قوم کے مفاد میں تھی مگر ان کا ردعمل غلط تھااور پھر یہ غلط ردعمل اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب اگلے برس نو مئی کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ وہ ملکی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے وزیراعظم نہیں تھے۔ وہ اپنے آئینی حقوق اور سیاسی طاقت دونوں سے مدد لے سکتے تھے مگر انہوں نے بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا راستہ چنا جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ عمران خان نہیں بدلے تو ان کے حالات کیسے بدل سکتے ہیں؟
سول میڈیا کے کچھ احمق اپریل 2022ء سے ہی لکھ رہے ہیں کہ عمران خان واپس آ رہا ہے مگر اب تین برس ہونے والے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ان تین برسوں میں عمران خان نے اپنے لئے حالات بد سے بدترین کئے ہیں۔ میرا یہ یقین بڑھ رہا ہے کہ عمران خان اور اس کے سیاسی دھڑے کا 2025ء بھی ویسا ہی گزرے گا جیسا 2024ء گزرا۔ 190 ملین پاونڈز کیس میں سزا ہونے کے بعد ان کی رہائی مزید مشکل ہو گئی ہے بلکہ اہلیہ بھی ایک مرتبہ پھر جیل پہنچ گئی ہیں۔ میرا ندازہ ہے کہ بُشریٰ بی بی کو ایک مرتبہ پھر ضمانت مل سکتی ہے، ان کی سزا معطل ہوسکتی ہے مگر چودہ برس کی سزا کی معطلی اورضمانت قانونی حلقوں کے مطابق آسان کام نہیںہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان نے فائنل کال کی ناکامی کے بعد سرنڈر کیا ہے۔انہوں نے حکومت کو ایک بڑا ریلیف یہ بھی دیا ہے کہ وہ گذشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے دستبردار ہو گئے ہیں کہ حکومت کے سامنے جو چارٹر آف ڈیمانڈ رکھا گیا ہے اس میں انٹرنیٹ کی بندش کی تحقیقات تک کے الم غلم مطالبات تو موجود ہیں مگر الیکشن آڈٹ کا مطالبہ نہیں ہے۔ نوے فیصد امکانات ہیں کہ عمران خان یہ پورا برس بھی جیل میں ہی رہیں گے ۔ آپ پوچھیں گے کہ دس فیصد امکانات کیوں تو جواب دوسرے پیراگراف میں ہے کہ عمران خان نے کچھ کچھ اپنے ردعمل کو بدلا ہے سو وہ کچھ کچھ ریلیف کے حقدار ہو گئے ہیں۔

مجھے 2025ء میں شہباز شریف کی حکومت کے لئے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان میں حکومت کے کھڑے رہنے کے دو ستون ہوتے ہیں۔ ایک مقبولیت اور دوسرے قبولیت۔ حکومت اپنی کوششوں اور محنت سے مسلسل مقبولیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔حکومت کے حق میں تمام سرویز پہلے سے بہتر آ رہے ہیں اوردوسری طرف پی ٹی آئی عملی طور پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے کسی قسم کے بھی موثر احتجاج کی اہلیت کھو بیٹھی ہے بلکہ پورا زور لگا کے دی جانے والی فائنل کال میں بھی اس کے مرکزی جنرل سیکرٹری تک لاہور جیسے سیاسی شہر میں اکیلے ہی گاڑی میں گھومتے اور ویڈیو بیان جاری کرتے نظر آئے، ہاں، اس برس پاکستان کے اوپر امریکی دبائو کسی حد تک بڑھ سکتا ہے اور یہ صرف عمران خان کے حوالے سے نہیں ہوگا بلکہ یہ پاکستان کے میزائل پروگرام،چین سے سی پیک ٹو کے آغاز اور ایران سے گیس پائپ لائن سمیت تجارتی منصوبوں پر ہوسکتا ہے مگر دوسری طرف پاکستان مزاحمت کرتا ہوا نظر آ رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے اس نے ایٹمی دھماکوں کے موقعے پر کی تھی، افغانستان میں اپنی فوجیں نہ بھیجنے اور سلالہ واقعے کے بعد نیٹو سپلائی روکنے جیسے بڑے اقدامات کے ذریعے کی تھی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان اپنے داخلی اور خارجی امور پر دبائو قبول نہیں کرے گا اور تمام فیصلے امریکہ نہیں ریاست کے اپنے مفاد میں ہوں گے۔ حکومت نے اگلے برس میں داخل ہوتے ہوئے عدلیہ کے اندھے کنویں کو بھی بھرنے کی کوشش کی ہے ورنہ ماضی میں اس کنویں میں وزرائے اعظم گرتے رہے ہیں۔
2025ء بنیادی طورپر سیاسی کی بجائے معاشی پیش رفت کا سال ہوگا۔ پاکستان کے پچھلے اڑھائی، تین برس بہت مشکل گزرے ہیں ۔ شہباز شریف حکومت نے ملک کواس ڈیفالٹ سے بچایا ہے جس کے کنارے پر عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کے پہنچا دیا تھا۔ اس وقت بے یقینی کا یہ عالم تھا کہ لوگ بوریوں میں ڈالر سمگل کر رہے تھے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ساڑھے تین سو تک جا پہنچا تھا۔ معیشت کو تباہ کرنا اتنا ہی آسان ہے جیسے کسی گاڑی کو پہاڑی سڑک پر نیچے کی طرف دھکیل دیا جائے اور اس کو بحال کرنا اتنا ہی مشکل ہے جیسے اسی گاڑی کو آپ کسی کھائی سے نکال کے واپس سڑک پر لا رہے ہوں، اسے دوڑنے کے قابل بنا رہے ہوں۔ اس برس کی پہلی ششماہی میں شہباز حکومت کے بڑے کارناموں میں بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی واپسی ہوگی جبکہ دوسری ششماہی یعنی جولائی سے دسمبر تک کاروباروں کی بحالی ،بڑھوتری ہوگی جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع اور عوام کی آمدن بڑھے گی اور نیچے تک خوشحالی آئے گی۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی عالمی شراکت کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت
  • 2025 میں ہم موٹر وے ایم 6 پر کام شروع کریں گے: عبدالعلیم خان
  • وفاقی وزیر علیم خان کے پیپلزپارٹی سے متعلق بیان پر جیالے ارکان کا احتجاج
  • حج 2025ء کی تیاریوں میں کسی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی: شہباز شریف
  • حج 2025ء کی تیاری میں کسی قسم کی لاپرواہی قبول نہیں: وزیرِ اعظم
  • حج کی تیاری میں کسی قسم کی لاپروائی قبول نہیں، وزیرِاعظم
  • حج 2025ء کی تیاری میں کسی قسم کی لاپروائی قبول نہیں: وزیرِ اعظم شہباز شریف
  • قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام 5 بجے شروع ہوگا
  • 2025ء کیسا گزرے گا؟